ColumnMazhar Ch

پاکستان کی روشن اقلیتیں .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

کوئی شک نہیں کہ مملکت خداداد پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتیں گوناں گوں مصائب اور مسائل کا شکار ہیں لیکن یہ تلخ حقیقت تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ مین سٹریم میڈیا پر اقلیتوں کے مسائل پر بہت کم بات ہوتی ہے۔سرکاری وغیر سرکاری اداروں کے اشتراک سے ہونے والی تقریبات اور سوشل میڈیا کے توسط سے ملک میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے مسائل اور مطالبات سے آگاہی حاصل ہوتی رہتی ہے لیکن سچ پوچھیں تو ہمارے ہاں اقلیتوں کے مسائل کو مسائل نہ سمجھنے کا عمومی رویہ اتنا غالب آ چکا ہے کہ اس حوالے سے لکھتے ہوئے راقم سمیت بہت سے لکھنے والوں کو یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ اقلیتوں کے مسائل پر بات کرنے سے کہیں ان کا ایمان مشکوک نہ ہو جائے یا پھر ملکی ترقی اور تعمیر میں اقلیتوں کی خدمات کا برملا اعتراف کرنے سے ان پر لبرل ازم یا اسلام مخالف ہونے کا الزام ہی نہ لگ جائے۔اس وقت اس عنوان سے کالم لکھنے کاسب سے بڑا محرک تو چند روز قبل معروف صحافی و لکھاری علی احمد ڈھلوں کی کتاب’’پاکستان کی روشن اقلیتیں‘‘ کی تقریب رونمائی ٹھہری ہے تاہم موجودہ سیاسی وانتخابی ماحول کے تناظر میں دو اہم وجوہات بھی ہیں جنہیں سامنے رکھتے ہوئے یہ تحریر لکھنی ناگزیر ہو گئی تھی۔پہلی وجہ ملک میں جاری ساتویں مردم شماری پر مذہبی اقلیتوں کے تحفظات ہیں جب کہ دوسری اہم وجہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں اقلیتوں سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد میں ناکامی ہے۔
جہاں تک علی احمد ڈھلوں کی کتاب’’پاکستان کی روشن اقلیتیں‘‘کا تعلق ہے تو یہ بلاشبہ نہایت ہی عرق ریزی سے کی گئی وہ محنت ہے جس کی علمی وصحافتی حلقوں میں بھر پور ستائش ہونی چاہیے۔مجھے کہنے دیجئے کہ ڈھلوں صاحب نے یہ کتاب لکھ کر ہمارے جیسے بہت سے لکھنے والوں کی طرف سے بھی فرض کفایہ ادا کر دیا ہے جو شدید خواہش کے باوجود اس حوالے سے ایسی بھر پور قلمی کاوش کو بروئے کار نہیں لا سکے۔ مذکورہ کتاب جہاں ایک طرف ملکی ترقی اور تعمیر میں اقلیتوں کی خدمات کے حوالے سے انسائیکلوپیڈیا اور علمی و تحقیقی دستاویز کہی جا سکتی ہے وہیں یہ ہمیں اقلیتوں کے تحفظات اور مسائل کو درست سیاق وسباق کے ساتھ سمجھنے اور سلجھانے کی طرف راغب کرتی ہے۔ہم مانیں نہ مانیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں اقلیتوں کا تناسب کم ہوتا جا رہا ہے۔ 1998کی مردم شماری کے مطابق مجموعی آبادی میں اقلیتوں کا تناسب 4.5فیصد تھا لیکن چند سال قبل ہونے والی چھٹی مردم شماری میں اقلیتوں کا تناسب کم ہو کر3.5فیصد تک آ گیا تھا۔
ڈھلوں صاحب کے بقول ان کے کتاب لکھنے کا سب سے بڑا مقصد نئی نسل کو یہ باور کرانے کے سوا کچھ نہیں کہ اس خطے کے لیے مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ایسے بے شمار محسنوں نے بھی قربانیاں دی ہیں جنہیں ہمارے نصاب میں کبھی جگہ ہی نہیں مل پائی۔کتاب کے مندرجات پر مختصر بات کی جائے تو تین حصوں پر مشتمل اس کتاب کے پہلے حصے میں ایسی شخصیات کا تذکرہ ہے جنہوں نے پاکستان کے لیے براہ راست خدمات سرانجام دیں۔ دوسرے حصے میں ایسی ہیرا صفت شخصیات شامل کی گئی ہیں جنہوں نے اس دھرتی کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ جب کہ کتاب کا تیسرا حصہ ان اداروں پر مبنی ہے، جنہیں بنایا تو غیر مسلم شخصیات نے مگر اس آج تک پاکستان کے عوام فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہاںمردم شماری کے نتائج پر اقلیتوں سمیت مختلف گروہوں اور سیاسی وسماجی حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔اقلیتوں اور مخصو ص گروہوں(خواجہ سرا ، معذور) کے تحفظات تو ایک طرف رہنے دیں ہمارے ہاں تو صوبے بھی مردم شماری کے نتائج پر معترض رہے ہیں۔ملک میں جاری ساتویں مردم شماری پر اقلیتی برادری نے اس امر کی نشان دہی کی ہے کہ پنجاب کے کچھ اضلاع میں مسیحی رہائشی آبادیوں میںٹیبلٹ ڈیوائس کی بجائے فارمز کے ذریعے اعدادوشمار اکٹھے کیے جانے کے مبینہ واقعات سامنے آئے ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق گوجرانوالہ کے کچھ علاقوں میں ایسے فارم غلط فہمی کی بنا پر تقسیم ہوئے تھے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق فیلڈمیں کام کرنے والے ایک سرکاری ٹیچر نے شاید اپنی سہولت کے لیے لوگوں سے فارم پرکروانا چاہے تاکہ بعد ازاں اسے ٹیبلٹ ڈیوائس پر آسانی سے اپ لوڈ کر سکے۔
اگرچہ ادارہ شماریات کے مطابق کسی بھی فیلڈ ورکر لیے فارم پر کروا کے بعد ازاں اپ لوڈ کرنا ممکن نہیں تاہم زیادہ بہتر ہوتا کہ فیلڈ ورکرز کو اس طرح کی آگاہی یا تنبیہ پہلے ہی کر دی جاتی تاکہ اقلیتوں کے تحفظات سامنے آنے کی نوبت ہی نہ آتی۔واضح رہے کہ چھٹی مردم شماری پر بھی اقلیتوں کے تحفظات سامنے آئے تھے کہ مردم شماری میں اقلیتوں کی آبادی کم ظاہر کی گئی تھی۔
اقلیتوں کی قومی دھارے(سماجی، اقتصادی اور سیاسی)میں شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے جہاں ایک طرف مردم شماری میں اقلیتوں کی درست گنتی کو یقینی بنایا جانا ناگزیر ہے وہیں سیاسی جماعتوں کے منشوروں میںاقلیتوں سے کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد ہونا بھی ضروری ہے۔ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایک تحقیقی جائزے کے مطابق 2008سے2018تک بیشتر سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں متروکہ وقف املاک بورڈ میں اقلیتوں کی نمائندگی میں اضافے، قانون سازی کے زریعے اقلیتی کمیشن کا قیام، جبری تبدیلی مذہب کو جرم قرار دینا نصاب پر نظر ثانی،ملازمت کوٹے کا نفاذ اور امتیازی قوانین کا جائزہ لینے جیسے مشترکہ وعدے شامل تھے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہو سکا۔ادارہ برائے سماجی انصاف کے مطابق کچھ سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں تعلیمی اداروں میں اقلیتی طلباء کے لیے کوٹہ مختص کرنا، تکفیر کے قوانین کے بداستعمال کو روکنا، قانون ساز اسمبلیوں میں اقلیتی خواتین کی نمائندگی اور آئینی اصلاحات متعارف کرانے جیسے کچھ منفرد وعدے بھی شامل تھے لیکن سیاسی جماعتیں ان وعدوں کی تکمیل کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کر پائیں۔آخر میں علی احمد ڈھلوں صاحب کو ایک بار پھر خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہو ں نے اپنی کتاب ـ’’ پاکستان کی روشن اقلیتیں‘‘ میںپاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوںکی خدمات کا برملا اعتراف کرکے پاکستانی مسلمانوں پر اقلیتی برادری کا 75سالہ واجب الادا قرض چکادیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاستی ، حکومتی اور سماجی سطح پر بھی ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو’’روشن اقلیتیں‘‘سمجھا جائے تاکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ لگن اور تندہی سے ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا فعال کردار ادا کرتی رہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button