ColumnRoshan Lal

زرداری اور عمران کا کردار … روشن لعل

روشن لعل

 

کچھ برس قبل ایک ایسی مجلس میں شرکت کا موقع ملا جس میں پیپلز پارٹی سے وابستہ لوگوں کی اکثریت تھی۔ حیرت کی بات ہے اس مجلس میں زرداری صاحب کے متعلق زیادہ تر منفی باتیں سننے کو ملیں۔ مجلس میں پیپلز پارٹی کے اپنے لوگ زرداری صاحب کو اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے کہ جب انہیں دبئی میں ہی بیٹھ جانا تھا تو پھر اینٹ سے اینٹ بجانے جیسی باتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پیپلز پارٹی کے اندر موجود زرداری مخالفوں میں سے وہاں ایک بندہ زرداری کا حامی بھی تھا۔ اس بندے نے اس طرح سے آصف علی زرداری کی صفائی پیش کی دیگر تمام لوگوں کے پاس بولنے کو کچھ نہ رہا۔یا د رہے کہ آصف علی زرداری کے تعاون کی وجہ سے جب 2014 میں عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا ناکام ہوا تو نون لیگ نے ’’مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں‘‘جیسا رویہ اختیار کرنے میں دیر نہ لگائی۔ یہ وہ وقت تھا جب آصف علی زرداری ان تمام کیسوں سے بری ہو چکے تھے جن کی بنا پر افتخار چودھری نے مشرف کا جاری کردہ این آر او ختم کیا تھا۔ جونہی نون لیگ کی حکومت نے محسوس کیا کہ اس کے پائوں مضبوط ہونا شروع ہو گئے ہیں اسی وقت آصف علی زرداری اور ان کے دوستوں کے خلاف نئے کیسوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب زرداری نے نون لیگ سے وضاحت طلب کی تو انہیں بتایا گیا کہ یہ کیس جنرل (ر) راحیل شریف کی فرمائش پر تیار کیے جار ہے ہیں ۔ جب اس طرح کی چہ مگوئیاں میڈیا میں بھی کی جانے لگیں تو پھر آصف علی زداری کی طرف سے انتہائی غصے کی حالت میں دیا گیا یہ بیان سامنے آیا جس میں کہا گیاتھا کہ اگر اُنھیں دیوار سے لگانے کی روش ترک نہ کی گئی تو وہ جرنیلوں کے بارے میں وہ کچھ بتائیں گے کہ جرنیل وضاحتیں دیتے تھک جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہماری کردار کشی کا سلسلہ نہ روکاگیا تو پھر یہ سلسلہ دور تک جائے گا، اس لیے بہتر ہے کہ سیاست دانوں کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں ورنہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کسی جرنیل کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ وہ تو تین سال کے لیے آئے ہیں اور پھر چلے جائیں گے جبکہ اُنھوں نے ساری عمر پاکستان میں رہنا ہے۔ اپنی اس طرح کی سخت باتوں کا اختتام زرداری نے ان الفاظ میں کیا تھا کہ جب پیپلز پارٹی نے ہڑتال کی کال دی تو پھر خیبر سے کراچی تک پہیہ جام ہو جائے گا۔
آصف علی زرداری کے اس بیان کے بعد یہ ہوا کہ قریباً تمام ٹی وی چینلوں کا پرائم ٹائم ایسے پروگراموں پر صرف کیا جانے لگا جن میں کہا جاتا تھا کہ زرداری صاحب کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم نے ساڑھے چار سو ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔ اس طرح کے پروگرام ابھی جاری تھے کہ ڈاکٹر عاصم وطن واپس آگئے ۔وطن واپسی کے بعد جب ڈاکٹر عاصم گرفتار کر لیے گئے تو آصف علی زرداری بیرون ملک چلے گئے ۔ جس مجلس کا سطور بالا میں ذکر کیا گیا ہے اس میں کوئی اور نہیں پیپلز پارٹی کے لوگ یہ سوال کر رہے تھے کہ جب ملک سے باہر ہی جانا تھا تو پھر اینٹ سے اینٹ بجانے جیسا بیان کیوں دیا۔ زرداری صاحب کے ایک حامی نے ان باتوں کا جواب یوں دیا کہ پورے ملک میں اگرچہ پیپلز پارٹی کا ووٹ اور سیٹیں کم ہوئی ہیں مگر سندھ میں پی پی پی کے ووٹ ہی نہیں سیٹوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سندھ کے جو لوگ کبھی بھٹو اور بی بی شہید کے لیے کٹ مرجاتے تھے اب زرداری اور بلاول کے لیے بھی ایسا کرنے کو تیار ہو جائیں گے ۔ جس طرح بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت کچھ لوگوں نے پاکستان نہ کھپے کا نعرہ لگا کر زرداری کو بھی ایسا کرنے کے لیے کہا تھا ، اسی طرح کے لوگوں نے زرداری کو کہا تھا کہ اگر وہ سندھ میں پہیہ جام ہڑتا ل کی کال دیں گے تو کراچی سے خیبر تک خود ہی پہیہ جام ہو جائے گا اور پھر ایک ہفتہ کے اندر ایسی اینٹ سے اینٹ بجے گی کہ کوئی سنبھالے نہیں سنبھال سکے گا۔ مبینہ طور پر زرداری صاحب نے ان باتوں کا یہ جواب دیا تھا کہ بی بی کی شہادت کے وقت لوگوں نے میری کسی کال کے بغیر ہی پاکستان نا کھپے کے نعرے لگانے شروع کر دیئے تھے مگر جب میں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تو انہوں نے گھروں میں واپس آنے میں دیر نہیں لگائی۔ ان باتوں کے مطابق زرداری صاحب نے یہ بھی کہا کہ بی بی کی شہادت کے دنوں کے مقابلے میں گو کہ صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے مگر مجھے اب بھی یقین ہے کہ میری پہیہ جام کی کال پر لوگ سڑکوں پر آنے میں دیر نہیں لگائیں گے مگر مجھے یہ شک بھی ہے کہ اس مرتبہ میرے کہنے کے باوجودوہ کہیں میں جانے سے انکار نہ کردیں ۔ اس لیے پاکستان کھپے کے نعرے پر قائم رہتے ہوئے میں یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی بجائے اسی طرح عدالتوں میں کیسوں کاسامنا کروں جس طرح قبل ازیں ایسا کر کے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کو جھوٹا ثابت کر چکا ہوں۔
زرداری صاحب سے منسوب باتیں سننے کے بعد قطعاً ایسا کوئی خیال نہیں آیا تھا کہ یہ باتیں ہو بہو سچ یا جھوٹ ہیں، ہاں یہ ضرور سوچا تھا کہ جس انسان نے قبل ازیں پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا ہو اور پھر خاص سیاق و سباق میں اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات بھی کی ہو اس انسان کے ذہن میں اس طرح کی باتوں آنا ہرگز ناممکن نہیں ہے۔کچھ سال قبل سنی ہوئی زرداری صاحب سے منسوب باتیں پہلے کبھی کسی تحریر میں بیان کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔ ذہن کے نہاں خانوں میں موجود ان باتوں کو بیان کرنے کا خیال عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی جلائو گھیرائو کی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے آیا۔ زرداری سے منسوب باتوں کے سچ یا جھوٹ ہونے کے بارے میںیقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہا ں یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ جلائو گھیرائو کا جو آپشن زرداری کے پاس تھا اور ہے وہ پاکستان میں اور کسی کے پاس نہیں۔ زرداری نے جلائو گھیرائو کا آپشن استعمال کرنے کی بجائے گرفتاری دی اور ان ججوں کے سامنے خود کو پیش کر کے اپنی بے گناہی ثابت کی جن پرتہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے وہ تحفظات کا اظہار بھی کرتے رہے۔ آصف علی زرداری نے جو کچھ کہا اور کیا وہ باتیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ زرداری نے جو تاریخ رقم کی عمران خان اس کے برعکس اپنا کردار تاریخ میں درج کرا رہے ہیں ۔ ویسے تو آنے والے وقت کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر یہ خیال ضرور ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میںچاہے لوگوں کو عمران خان کی طرح عدل کے ایوانوں سے سہولت کاری دستیاب نہ ہو لیکن زرداری کی بجائے اگر وہ عمران خان کے کردار کی پیروی کریں گے تو کسی کے پاس بھی انہیں روکنے کا جواز نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button