ColumnNasir Naqvi

خونی تماشا .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

ملکی سیاسی بحران اس قدر بڑھ گیا ہے کہ حقیقی معاشی بحران پس پشت چلا گیا اور آئینی بحران ان مشکلات میں سہولت کار بن گیا۔ پاکستان نے اپنی 75سالہ سیاسی تاریخ میں ایسا منظر نہیں دیکھا جو کچھ زمان پارک میں ہوا لیکن اس سے ملتے جلتے مناظر موجود ہیں جب کراچی میں الطاف بھائی پیر و مرشد تھے تو عزیز آباد ی علاقہ 90اور اردگرد و نواح نوگو ایریا تھا ۔ اس علاقے میں مرکز کی اجازت کے بغیر چڑیا پَر نہیں مار سکتی تھی اب یہی حال زمان پارک لاہور کا ہے۔ کپتان کی مرضی کے بغیر وہاں کوئی نہیں جا سکتا۔ پہلے خیبر پختونخوا کی پولیس ان کی محافظ تھی۔ اب گلگت بلتستان کی پولیس موجود ہے۔توشہ خانہ کیس میں غیر حاضری رہی تو اسلام آباد کی ایک عدالت سے بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے کیونکہ خان اعظم نے بار بار بلانے پر بھی عدالت اور اس کے حکم کی پرواہ نہیں کی، ایسے میں بلاضمانت وارنٹ اور گرفتار کر کے عدالت میں ملزم کو پیش کرنے کے احکامات روٹین کی کارروائی ہے ۔ پھر زمان پارک پر اسلام آباد اور پولیس نے لشکر کشی کیوں کی؟ یقیناً یہ سوال ہرشخص کے ذہن میں ہے۔
خواہ وہ خان اعظم کا کھلاڑی ہو یا کہ مخالف، لہٰذا غیر جانبدارانہ جائزہ لینا ہو گا کہ غلطی کس کی ہے؟ حقائق یہ ہیں گزشتہ کئی ہفتوں سے سوشل میڈیا پر مختلف ذرائع سے پیغامات چلائے جا رہے تھے کہ ’’چلوچلو زمان پارک‘‘ _حکومت انتقامی کارروائی میں عمران خان کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ جس کے ردعمل میں زمان پارک کھلاڑیوں کی خیمہ بستی بن گئی۔ صرف لاہور کے کھلاڑیوں نے خان کو اپنے حفاظتی حصار میں نہیں لیا بلکہ خیبر پختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے بھی جانثاراس خیمہ بستی کی رونق بن گئے۔ تاہم دن کے مقابلے میں یہاں رات کو زیادہ رونق دیکھی گئی۔ نوجوانوں اور خواتین کی بھاری تعداد کے باعث موج مستی کے نہ صرف الزامات لگے بلکہ ایک خاتون ایم پی اے اور لاہور تحریک انصاف کی صدر سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کی آڈیو بھی منظر عام پر آ گئی جس میں خاتون ایم پی اے وہاں ہونے والی موج مستی کی شکایت اور اس پر تشویش کا اظہار کر رہی تھیں۔ سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے کھلاڑیوں کو جو پیغام دئیے گئے اس سے تاثر یہ نکلا کہ حکومت ہر حال میں خان کو گرفتار کر لے گی لہٰذا حقیقی جمہوریت، حقیقی آزادی اور حقیقی سازشوں کی نشاندہی پر قوم اپنا بھرپورکردار ادا کرنے کے لیے پُرعزم ہو جائے تاکہ حکومت کو ناکوں چنے چبوائے جائیں یہی نہیں کپتان کے دائیں بائیں ڈیوٹی فیل نادان دوستوں نے اس خیال کو تقویت دی اور حکومت کے ہر اقدام سے ٹکرانے کا عزم کر کے کھلاڑیوں کو تیار کر لیا۔ جب یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر مثبت نتائج نہ نکلے اور کارکن مقابلہ نہ کر سکے تو کیا ہوگا؟ اس کے جواب میں لاہور ہائی کورٹ کی پیشی سے پہلے ریہرسل کی گئی، پھر کارکنوں کا ریلی نکال کر امتحان لیا گیا جہاں جان کے خطرے کے باعث کپتان نے بلٹ پروف گاڑی سے ہی خطاب کر کے کھلاڑیوں کو یہ پیغام دے دیا کہ آپ کے جذبے سلامت رہیں، کوئی مجھے ہاتھ نہیں لگا سکتا، تاہم صبح ،دوپہر، شام ڈاکٹری نسخے کے مطابق تین وقت تواتر سے ’’چلو چلو زمان پارک ‘‘ چلتا رہا، خیمہ بستی بھی آباد رہی لہٰذا جونہی اسلام آباد سے بلاضمانت وارنٹ گرفتاری کا حکم جاری ہوا اور اسلام آباد پولیس اور ایک ہیلی کاپٹر نے لاہور کا رخ کیا، کپتان اور ان کے نادان دوستوں نے حکمت عملی بنا کر صف بندی کر لی اور پھر جو ڈرامہ سٹیج کیا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ظل شاہ کا خون بھی بہا، آنسو گیس بھی چلی اور واٹر کینن کااستعمال بھی ہوا تاہم پولیس کے ساتھ رینجرز بھی آئی لیکن مارکٹائی، ہنگامہ آرائی اور آنسو گیس، پٹرول بم کے تبادلے کے بعد بھی کچھ رزلٹ نہ نکل سکا۔ عدالت نے مداخلت کی پھر بھی بلا ضمانت وارنٹ پہلے معطل نہیں ہو سکے، تاہم حکم امتناعی سے زمان پارک کے کھلاڑیوں نے نئی صف بندی کر کے یہ دھمکی دے دی کہ اب عمران خان پہلے سے دوسو فیصد زیادہ مضبوط حصار میں ہیں اور خبردار ہیلی کاپٹر کا انتظام بھی کر لیا گیا۔ ہمارے پاس تربیت یافتہ مجاہدین پہنچ چکے ہیں۔ آئی جی پنجاب نے قوم کو حالات سے آگاہی دے دی اور صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے بھی بتا دیا کہ وارنٹ کے مطابق گرفتاری ضرور ہو گی جبکہ اسلام آباد کے متعلقہ جج نے عمران خان سے سرنڈر کرنے کا مطالبہ بھی دہرایا، لاہور کا جلسہ بھی عدالت نے منسوخ کر دیا ہے۔
حکومت اور پولیس نے صبر وتحمل کا مظاہرہ صرف اس لیے کیا کہ کوئی خونی تماشا نہ ہو سکے، لیکن پولیس اہلکاروں کا خون بھی بہا اور معصوم ظل شاہ بھی مارا گیا۔ عمران خان اور ان کے کارکنوں کی حکمت عملی میں ایسے مقدمات بھی بنے جن میں نہ صرف دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں بلکہ جرم کی وہ دفعہ بھی لگائی گئی ہے جس میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار تک پہنچے، آئی جی کے مطابق زمان پارک میں سوات کے صوفی محمد کا ایک ایسا تربیت یافتہ کارخاص بھی موجود ہے جو برسوں کی سزا کاٹ کرعمران خان کے دور حکومت میں رہا کرایا گیا تھا تاہم پی ٹی آئی قیادت نے تردید کر دی، ہائی کورٹ نے بیچ بچائو کی غرض سے حکومت کو افہام و تفہیم کا مشورہ دیتے ہوئے تحریک انصاف کو مسئلہ بیٹھ کر طے کرنے کی تجویز کے ساتھ آٹھ مختلف کیسز میں حفاظتی ضمانت بھی دے دی، ایسا لگا کہ اب خونی تماشا نہیں ہو گا اور اجتماعی مفاد میں مل بیٹھ کر کوئی نہ کوئی حل نکال لیا جائے گا لیکن جونہی عمران خان اسلام آباد پیشی کے لیے نکلے ، پنجاب پولیس نے زمان پارک پر دھاوا بول دیا۔ اس لشکر کشی کے اجتماعی نتائج پاکستانی سیاست میں ہرگز مثبت نہیں نکلیں گے ۔ ماضی کی تاریخ تو یہی کہتی ہے ہر دور حکومت میں طاقت کے نشے نے حکمرانوں سے بہت کچھ کروایا اور اقتدار سے اترنے کے بعد اس کے نتائج بھی بھگتے، لیکن کسی نے سبق نہیں سیکھا۔ آئی جی پنجاب کا دعویٰ ہے کہ وہاں سے اسلحہ بارود، شراب اور بہت کچھ برآمد ہوا۔ پی ٹی آئی اسے بالکل اسی طرح کی سازش قرار دے رہی ہے جس طرح اس کے دور میں رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے ہیروئین برآمد ہوئی تھی۔ اب دیکھیں ایکشن ری پلے،عمران خان ماضی کے رانا ثناء اللہ سے بہت بھاری ہیں۔ لہٰذا اس تماشے میں مصالحہ بھی بھاری مقدار میں شامل کیا گیا لیکن سب جانتے ہیں کہ نتیجہ صفر ہی رہے گا۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی اہمیت ختم کرنے کے لیے جنگلے، دیواریں اور گیٹ گرائے گئے۔ نواز شریف کے ساتھ بھی رہائشوں کے باہر اسی قسم کا آپریشن کر کے قبضہ کیا گیا۔ ماضی قریب میں دورِ عمرانی میں اسحاق ڈار کی جائیداد کی قرقی کی گئی۔ رزلٹ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح تاریخ گواہ ہے کہ جس نے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا وہ مارا گیا۔ بلوچستان میں اکبر بگٹی، اسلام آباد میں لال مسجد اور سوات میں صوفی محمد کے واقعات کسی سے پوشیدہ نہیں، پھر بھی عمران خان کے نادان دوستوں نے ان سے حکومتی رٹ کو چیلنج کرا دیا حالانکہ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں جان کے خطرے کے باوجود مقدمات کا سامنا کرنے کو تیار ہوں لیکن میرے جانثار اور وفادار مجھے جانے نہیں دے رہے، عمران خاں کی روانگی کے بعد زمان پارک پر پولیس گردی اور اسلام آباد میں حاضری کے موقع پر فورسز سے کھلاڑیوں کا ٹکرائو اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ سیاست کے نام پر ہونے والا خونی تماشا ابھی ٹلا ہرگز نہیں۔
اس ناز ک صورت حال میں زمان پارک آپریشن نے کھلاڑیوں کو مشتعل کر دیا ہے کیونکہ فواد چودھری سمیت تمام کا یہی کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود نگران حکومت نے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا اور عدالتی حکم کا تمسخر اڑایا جبکہ نگران حکومت اپنے ہر فیصلے کو عوامی اور سیاسی مفاد کا پیکر قرار دے رہی ہے لیکن صرف عام آدمی نہیں، خاص آدمی بھی اس صورت حال کو ملک و ملت کے لیے تشویش ناک کہہ رہے ہیں اس بات پر سب متفق ہیں کہ اگر سیاسی بحران کا خاتمہ نہ ہوا تو نہ ہی معاشی بحران ختم ہو سکے گا اور نہ ہی روزانہ کی بڑھتی ہوئی مایوسی کم ہو گی۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ قومی مفاد اور یکجہتی کے لیے حکومت اور تحریک انصاف اپنی اپنی انا کو ملک و ملت پر قربان کر کے ضدچھوڑ دیں ورنہ کسی وقت بھی یہ سیاسی کھیل خونی تماشا بن سکتا ہے۔ ویسے بھی کپتان کی موجودہ سیاسی اور حقیقی آزادی کی تحریک میںاب تک آدھی درجن سے زائد انسانی قیمتی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے جن میں قریب ترین ظل شاہ جیسا معصوم بھی شامل ہے۔ لہٰذا دونوںجانب سے جوش اور انتقام کی بجائے ہوش اور مثبت سوچ سے کام لیا جائے، اس ساری ہنگامہ آرائی ، لڑائی جھگڑے اور غیر محفوظ صورت حال میں کروڑوں بلکہ اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
ذرا سوچیں! معاشی بحران میں مسائل سے گھرا سرسبز و شاداب پاکستان ایسے نئے نقصانات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں، پھر اس کی ترقی و خوشحالی کی راہ کیسے نکلے گی؟ ذمہ دارو ں کو اپنی بھرپور ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے انداز اور ٹارگٹ بدلنے ہوں گے۔ حکومت خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض سیاسی انتقام میں مقدمات نہ بنانے کا عزم کرے اور تحریک انصاف آئینی و قانونی حدود میں رہتے ہوئے کوئی ایسا کام یا اعلان نہ کرے کہ جس سے سیاسی افراتفری میں اضافہ ہو۔ میری ’’جمع تفریق‘‘ یہی کہتی ہے کہ پاکستانی ہو تو پاکستانی بنو، پاکستان ہے تو سیاست بھی ہے۔ آزادی قربانیوں سے ملی اور اس کی حفاظت 1973ء کے آئین کے مطابق سب کا فرض ہے اور جسے کسی بات پر اعتراض ہے تو وہ پارلیمنٹ کے ذریعے مسائل کا حل ڈھونڈیں کیونکہ یہی پارلیمانی نظام جمہوریت کا حقیقی تقاضا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button