Editorial

مفت آٹا اور سستا پٹرول!

 

وفاقی وزیرمملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے غریب عوام کے لیے 100 روپےسستا جبکہ امیرطبقے کے لیے پٹرول 100 روپے مہنگا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مصدق ملک کاکہنا ہے کہ ہم نےغریب اورامیرآدمی کے دو پاکستان الگ کردیے ہیں ، ہم غریب کے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں گے ، پٹرول کی قیمتوں کے نفاذ سے متعلق چھ ہفتے کے اندر، اندرفیصلہ ہوگا۔اس کے علاوہ انہوں نےغریب عوام کے لیے گیس بھی سستی کرنے کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کم آمدن والے غریب شہریوں کے لیے پچاس روپے فی لیٹر تک پٹرولیم ریلیف پیکیج تیار کرنے کا حکم دیا تھا اور اِس پیکیج میں موٹر سائیکل اور رکشہ سمیت 800 سی سی اور دیگر چھوٹی گاڑیاں شامل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وفاقی وزیر کی متذکرہ پریس کانفرنس میں تین نئی باتیں سامنے آئی ہیں۔ پٹرول 50 روپےکی بجائے 100 روپے فی لیٹر ملے گا دوسری اہم بات بڑی گاڑی والوں کو 100 روپے لیٹر مہنگا ملے گا۔ یعنی جمع تفریق ہوگی اورجو فائدہ عام اور مستحق پاکستانیوں کوپہنچایا جائے گا وہ دراصل بڑی گاڑیوں والے امرا سے وصول کیاجائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت کا یہ انتہائی احسن اقدام ہے مگر عوام کی جانب سے تشکر تبھی سامنے آئے گا جب عام اور مستحق صارفین کو سستا ایندھن ملنا شروع ہوگا کیونکہ وفاقی وزیر نے اِس منصوبے کے لیے کم وبیش چھ ہفتے کا وقت دیا ہے۔ مصدق ملک نے ایک انتہائی قابل تعریف بات کہی ہے کہ انہوں نے غریب اورامیرآدمی کے دو پاکستان الگ کردیے ہیں، اگر اِس بات کو منفی سوچ کے ساتھ نہ لیا جائے تو معاشی لحاظ سے اِس وقت دو الگ الگ لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی تھی کیونکہ اِس وقت عوام میں معاشی لحاظ سے دو طبقات میں واضح طور پر تقسیم ہوچکی ہے، ایک وہ طبقہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا ہے اور وہ معاشی مسائل نام کے عفریت سے بھی ناواقف ہیں اور ان کے وہ مسائل قطعی کبھی نہیں رہے جوعام پاکستانیوں کے ہیں دوسری طرف وہ طبقہ ہے جس کا 75 سال سے ایک ہی مسئلہ رہا ہے، روٹی، کپڑا اور مکان، لیکن اب اِن میں مہنگائی، بے روزگاری بھی شامل ہوچکے ہیں۔ شروع سے یہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی معاشی مسائل سامنے آتے ہیں اقتدار میں جو بھی سیاسی جماعت ہو وہ دونوں طبقات پر یکساں بوجھ منتقل کردیتی ہے چونکہ اشرافیہ کے لیے تو روٹی، ایندھن، گیس، بجلی، اشیائے خورونوش کی مہنگائی کبھی بھی مسئلہ نہیں رہی اِس لیے اُن کے معیار زندگی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا لیکن جب یہی بوجھ عام پاکستانیوں پر منتقل ہوتا ہے تو اِس سے سفید پوش اور غریب طبقات بری طرح پِس جاتے ہیں، سفید پوش کے لیے سفرِ زیست مزید مشکل ہوجاتا ہے جبکہ غربت کی لیکر پر موجود پاکستانی خوراک کی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ دونوں طبقات ہی مہنگائی سے شدید متاثر ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ آمدن بھی معاشی مسائل اور مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں مسلسل مہنگائی سے لڑتے لڑتے سفید پوش طبقہ غربت کی لیکر تک پہنچ چکا ہے جبکہ پہلے سے غربت کی لکیر پر موجود غریب پاکستانی مزید نیچے جاچکے ہیں، سرکاری، غیر سرکاری اور غیر ملکی مالیاتی اداروںکے اعدادوشمار اِن حالات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں جب بھی آئی ایم ایف کا نام لیاجاتا ہے عام پاکستانیوں پر اسی لیے لرزہ طاری ہوجاتا ہے کیونکہ جب بھی آئی ایم ایف نے معاشی اصلاحات تجویز کرکے عمل درآمد پر زور دیا حکومتوں نے سارا بوجھ اُن پاکستانیوں پر منتقل کیا جو پہلے ہی قابل رحم حالات سے گذر رہے تھے، چونکہ اہل اقتدار بھی اُسی طبقے میں شمارہوتے ہیں جن کے مسائل معاشی نہیں ہیں اِس لیے انہوں نے اپنے مفادات پر آنچ نہ آنے دی، یہی وجہ ہے کہ معاشی میدان میں ہونے والی غلطیوں کا سارا ملبہ ہمیشہ اُن پاکستانیوں پر ڈالا جاتا رہا ہے جو نہ تو اُن غلطیوں کے قصوروار ہیں اور نہ ہی اُن میں وہ بوجھ اٹھانے کی سکت رہی ہے۔ مگر اِس بار آئی ایم ایف نے جہاں حکومت پاکستان سے معاشی اصلاحات کے نفاذ کے مطالبات پیش کیے ہیں وہیں ٹارگٹڈ سبسڈی اور امرا سے وصولیوں کے مطالبات بھی پیش کیے ہیں، یعنی ہمارے نزدیک آئی ایم ایف جو عام طور پر ممالک کے عوام کا خون چوسنے والا ادارہ سمجھاجاتا ہے وہ بھی متوسط اور غریب پاکستانیوں کی حالت زار پر حکومت پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ ٹارگٹڈ سبسڈی دیں، یعنی صرف حق داروں لوگوں کو ہی سبسڈی دی جائے اورجوحق دار نہیں ہیں اُنہیں نہ دی جائے، کیونکہ عملاً جس بھائو ایک غریب موٹر سائیکل سوار ایندھن خرید رہا ہے اُسی بھائو کروڑوں روپے کی گاڑی والا بھی خرید رہا ہے، جس بھائو غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والے آٹا خرید رہے ہیں اسی بھائو جاگیروں کے مالک اشرافیہ خرید رہے ہیں، گیس، ادویات، غرضیکہ بے شمار مدات ایسی ہیں جن میں امیر اور غریب کے درمیان تفریق کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں کا طرز زندگی ایک دوسرے سے قطعی میل نہیں کھاتا ایک طبقہ دو وقت کی روٹی کا محتاج ہے تو دوسرا طبقے کے پاس آخرت کے سوا دنیا کی ہر آسائش ہے۔کیوںروٹی ، کپڑا اور مکان کانعرہ آج تک کارآمد ثابت ہورہا ہے کیونکہ ستاروں پر کمند ڈالنے کی صلاحیت تو تبھی ہم میں ہوگی جب ہم روٹی، کپڑا اور مکان کے مسئلے سے باہر نکلیں گے اور موجودہ حالات میں تو روٹی اور کپڑا ہی مل جائے تو قوم کو خوشی کا ٹھکانہ نہ ملے۔ ماضی میں بھی حکمرانوںنے عام اور متوسط طبقے کو پٹرول کم قیمت پر مہیاکرنے کا لالی پوپ دیا مگر بات اِس سے آگے نہ بڑھ سکی لہٰذا پہلی بار قوم کو لالی پوپ کی بجائے عمل ہوتا نظر آئے گا اسی لیے ہر سفید پوش اورغریب پاکستانی اِس پر جلد ازجد عمل درآمد کا منتظر ہے۔ اسی کے ساتھ ہی وفاقی حکومت نے پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد میں متوسط گھرانوں کو رمضان المبارک کے دوران مفت آٹا کی فراہمی کا سلسلہ شروع کردیا ہے مگر سندھ اور بلوچستان کے عوام اِس سہولت سے محروم ہیں، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران حکومتوں نے وفاقی حکومت کے اِس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے وسائل بھی فراہم کیے ہیں اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی خود بھی آگے بڑھ کر اِس پیکیج سے عام شہریوں کے استفادے کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں یقیناً ایسے ہی اقدامات خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کی انتظامیہ کی جانب سے بھی دیکھنے میں آرہے ہوں گے۔ یہ منصوبہ جتنا ہی وسیع ہے اِس پر عمل درآمد اُتنا ہی مشکل اور پیچیدہ ہے لہٰذا اُن کی نشاندہی کے فوری بعد اُن کو دور بھی کیاجانا چاہیے تاکہ مستحقین اِس پیکیج سے فائدہ اٹھاسکیں۔ رمضان المبارک سے قبل سفید پوش اور غریب پاکستانیوںکے لیے سستا ایندھن اور مفت آٹا کی فراہمی بلاشبہ قابل تحسین اور تاریخ ساز اقدامات ہیں کیونکہ ماضی میں ان اقدامات کی کسی بھی دور میں مثال نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ لوگ جہاں ان منصوبوں کی تعریف کررہے ہیں وہیں پر ایسے سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ کہیں مستقبل قریب میں ان دونوں منصوبوں پر دی جانے والی چھوٹ کی ایک ایک پائی عوام سے وصول کرنے کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے کیونکہ ایسی مثالیں وافر دستیاب ہیں کہ بجلی اور دیگر مدات میں حکومت کی جانب سے چھوٹ دی گئی مگر کچھ ہی عرصے کےبعد بلوں کے ذریعے وہ عوام کے پیٹ سے نکلوالی گئی، لہٰذا وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف جنہوں نے مستحق افراد کو ماہِ رمضان میں مفت آٹا اور سفید پوش طبقہ کو سستا ایندھن فراہم کرنے کا حکم دیا ہے، ماہِ رمضان کےبعد بھی ایسا ہی نظام تشکیل دینے کے احکامات دیں جس میں امرا سے لیکر غریبوں کو دیا جائے اور غریبوںکا بوجھ اب امرا کے کندھوں پر بھی لادا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button