ColumnRoshan Lal

چھاج، چھلنی اور توشہ خانہ .. روشن لعل

روشن لعل

 

چھاج کا دوسری زبانوں میں نامعلوم کیا نام ہے مگر یہ معلوم ہے کہ پنجابی میں اسے’’ چھج‘‘ کہا جاتاہے۔ چھاج یا چھج چھانٹنے کے کام آتا ہے۔ اسے خاص طور پر گیہوں یا دھان میں سے کنکر اور تنکے چھانٹنے یا علیحدہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ چھاج اگر چھانٹنے کے کام آتا ہے تو چھلنی سے چیزوں کو چھانا جاتا ہے۔ چھاج اور چھلنی کا کام تو صفائی ہے مگر دونوں کا صفائی کرنے کا طریقہ مختلف ہے ۔ان دونوں اشیا کے کاموں میں مماثلت ہونے کے باوجود انہیں مختلف اور متضاد صفات کے حامل انسانوںکے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک مشہور کہاوت کچھ یوں ہے کہ ’’ چھاج تو بولے سو بولے مگر چھلنیکیوں بولے جس میں بہتر سو چھید‘‘۔ یہ کہاوت اکثر اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی عیب دار کسی بے عیب کے برابر کھڑا کر دیا جائے۔ اس کالم کے عنوان میں چھاج اور چھلنی کے ساتھ اس توشہ خانہ کا بھی ذکر ہے جس سے فیضاب ہونے والوں کا ذکر آج کل زبان زد عام ہے۔ اس ذکر میں کمال لاپرواہی سے قانون اور اخلاق کو خلط ملط کرتے ہوئے قانون کی روسے بے عیب اور عیب داروں کی ایسی لسی بنائی جارہی ہے کہ پتا ہی نہیں چل رہا کہ کس کو چھلنی اور کسے چھاج سمجھا جائے۔
جو لوگ قانونی طور پر بے عیب اور عیب داروں کی لسی بنارہے ہیں ان کی اکثریت حیرت انگیز طور پر خود ایسی صفات کی حامل ہے کہ ان کے کردار میں موجود چھیدوں کو دیکھتے ہوئے انہیں کسی طرح بھی چھاج نہیں سمجھا جاسکتا۔ جن لوگوں کی طرف یہاں اشارہ کیا جارہا ہے ان میں سے اکثر میڈیا منڈی میں برانڈسمجھے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے میڈیا منڈی میں جب مخصوص سہارے استعمال کرتے ہوئے عام جنس سے برانڈ بننے کی کوششیں شروع کیںاس وقت بھی توشہ خانہ کا نظام اسی ڈھب سے چل رہا تھا جس ڈھب میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد اور تحفوں کی تجارت شروع ہونے سے پہلے تک چلتا رہا۔ میڈیا منڈی کے ان برانڈوں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ توشہ خانہ کا نظام کس قسم کی روایتوں کے مطابق چلتا رہا اور عمران خان نے ان روایتوں سے ہٹ کر کون سے نئے گل کھلائے۔ توشہ خانہ کے جن امور کو میڈیا منڈی کے برانڈوں نے نظر انداز کیا ان پر اگر ایک عام صحافی رانا ابرار خالد اپنی توجہ مبذول نہ کرتا اور اپنی جان تک کو خطرے میں ڈال کر ڈٹا نہ رہتا تو حسب سابق یہاں اس معاملے میں کسی کے کان پر جوں نہ رینگتی اور یہ حسب سابق اس بات سے لاتعلق رہتے کہ توشہ خانہ کے تحفوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ہوناچاہیے۔ توشہ خانے کے معاملے میں جو کچھ رانا ابرار خالد نے تن تنہا کیا وہ بہت بڑا کام ہے۔ اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جو کچھ ابرار خالد نے کیا اس کو مزید آگے بڑھایا جاتا مگر ایسا کرنے کی بجائے جو کچھ ہو چکا اسے مکھی پر مکھی مارنے کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ رانا ابرار خالد نے جو کچھ کیا وہ کام اس بات کا متقاضی ہے کہ تحفوں کے حصول میں جس نے بھی قا نون کی خلاف ورزی کی ہے اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اس معاملے میں جہاں جہاں قانون میں اصلاح کی ضرورت ہے اس کی نشاندہی کرنے کے بعد ضروری ترامیم پر زور دیا جائے۔ قانون کی بات کرنے کی بجائے یہاں یہ بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ توشہ خانے سے تحائف وصول کرنے کے معاملے میں کوئی بھی اخلاقی معیار پر پورا نہیں اترتا اور ایسا کہنے کے بعد اس حمام میں سب ننگے ہیں جیسے نعرے لگانے شروع کردیئے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ رانا ابرار خالد کی منظر عام پر لائی گئی باتوں کے نتیجے میں عمران خان کے خلاف جو توشہ خانہ ریفرنس دائر ہوا اس میں ان پر مختلف قوانین کی خلاف ورزیوں کا الزام ہے ۔ توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان پر الزام ہے کہ وہ کئی ملین روپے سے زائد کے تحائف اپنے اثاثوں اور واجبات کے گوشوارے میں ظاہر کرنے میں ناکام رہے ۔ اسی ریفرنس میں ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ بہت سے تحائف مفت میں گھر لے گئے۔وہ اس الزام کی زد میں بھی ہیں کہ انہوں نے تحفے اپنے پاس رکھنے کے لیے توشہ خانہ کے قواعد و ضوابط کے مطابق رقم ادا نہیں کی۔ان پر یہ الزام ناقابل تردید تصور کیا جاتا ہے کہ کچھ قیمتی تحائف کھلے بازار میں بیچنے کے بعد انہوں نے اس وقت انہیں خریدنے کی کاغذی کارروائی کی جب وہ توشہ خانے میں موجود ہی نہیں تھے۔ اب توشہ خانہ کے قوانین تبدیل کیے جاچکے ہیں، سابقہ قوانین کے مطابق قیمت ادا کرنے کے بعد تحفے اپنے پاس رکھنا کسی طرح بھی جرم نہیں تھا لیکن کسی دوست ملک سے ملنے والے تحائف کو مارکیٹ میں بیچنے کے بعد وصول کی گئی رقم کی نسبت ان کی انتہائی کم قیمت کا تعین کروانا بلاشبہ ایک جرم ہے ۔ توشہ خان کیس میں عمران خان پر اسی جرم کے ارتکاب کا الزام ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں تو سب نے ہاتھ دھوئے ہیں تو انہیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ توشہ خانہ کیس میںجو الزامات عمران خان پر عائد ہو چکے ہیں ان کی زد میں کوئی دوسرا سیاستدان نہیں آتاہے ۔
عمران خان پر عائد الزامات کا ذکر کرنے کے بعد یہ اقرار کرنا ضروری ہے کہ ان سے پہلے جن لوگوں نے توشہ خانے سے قیمتوں کے تعین کے بعد قانونی طور پر تحفے وصول کیے،انہوں نے بھی جائز دام نہیں بلکہ انڈر انوائسنگ کے تحت قیمتیں ادا کیں۔ اگر انڈر انوائسنگ کی کارروائیاں صرف توشہ خانہ تک محدود ہوتیں تو پھر توشہ خانہ سے ماضی میں مستفید ہونے والوں پر بھی لعنت ملامت ہی نہیں بلکہ قانونی اقدام کا مطالبہ بھی جائز سمجھا جاتا مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جہاں انڈر انوائسنگ یا اوور انوائسنگ نہ ہوتی ہو۔ پاکستان کا تو سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں قیمتوں اور معاوضوں کے تعین یا پرائس میکنزم کا نظام انتہائی غیر شفاف اور ظالمانہ ہے۔ قیمتوں اور معاوضوں کے غیر شفاف تعین کی سب بڑی مثالیں تعمیراتی شعبوں کے میگا پراجیکٹس میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ اس طرح کی دیو ہیکل مثالوں کے سامنے توشہ خانے کے تحفوں کی انڈر انوائسنگ کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ہاتھی کے مقابلے میں چیونٹی۔
رانا ابرار خالد نے توشہ خانہ کی چھوٹی سی مثال سامنے لا کر بلاشبہ بہت بڑا کام کیا ہے ۔ اس کام کو مکھی پر مکھی مارنے کے لیے استعمال کرنے کی بجائے زیادہ بہتر یہ ہے کہ مفاد عامہ کے وسیع تر مفاد کے تحت ان تمام شعبوں کی نشاندہی کی جائے جہاں خاص انتظامات کے تحت انڈر انوائسنگ یا اوور انوائسنگ کر کے ملکی خزانے کو کروڑوں اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ یہ کام کیونکہ مشکل ہے اس لیے یوں لگتا ہے کہ اپنے دامن میں چھلنیوں کی طرح کئی چھید رکھنے والے لوگ، خود کو تو چھاج کہیں گے جبکہ حسب سابق قانونی طور پر بے عیب اور عیب داروںکی لسی بناتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button