ColumnNasir Naqvi

میرا زمانہ، میری کہانی .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

جس طرح ہر زمانے کی روایات اور نشیب و فراز مختلف ہوتے ہیں اسی طرح ہر انسان کی زندگی کے تجربات و مشاہدات بھی ایک جیسے ہرگز نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ ایک گھر، ایک خاندان، ایک شہر اور ملک میں بسنے والوں کو بھی کسی خاص حدود کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔ ہم اور آپ آئین و قانون، خاندانی روایات اور اخلاقی اقدار کے حوالوں سے یقیناً ذمہ داری کا مظاہرہ کر سکتے ہیں لیکن زندگی پھر بھی قدم قدم پر امتحان لیتی ہے اس لیے کہ معاشرے میں بسنے والے نہ چاہتے ہوئے بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ سمجھ دار لوگ دوسرو ں کے تجربات و مشاہدات سے استفادہ حاصل کرتے ہیں اور ذمہ دار لوگ جنہیں اللہ نے کوئی منصب و مرتبہ عطا کیا ہوتا ہے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے ان تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ انسان انسان کے کام آئے اوراسے جو دھکے اور مشکلات سہنی پڑیں وہ دوسروں کا مقدر نہ بنے۔اسے آپ صدقہ جاریہ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن ہم اور آپ اس بات کے گواہ ہیں کہ اس فراخدلی کا مظاہرہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اس کی دو وجوہات ہیں۔ اوّل یہ کہ ہر ایک میں سچ بولنے اور سچ لکھنے کی ہمت نہیں ہوتی، دوئم لوگ مصلحت پسندی کا شکار ہو کر معاشرتی تضاد بیانی کے پیش نظر اپنا آپ چھپانے کی کوشش کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ لہٰذا بہت سی نمایاں اور اہم شخصیات کی کہانیاں ان کے ساتھ ہی خاک میں مل جاتی ہیں حالانکہ اگر وہ کہانیاں اور داستانیں عام کی جاتیں تو بہت سوں کی تربیت ہو سکتی تھی، جیسے آج کی نئی نسل سوشل میڈیا اور جدید سہولیات کی موجودگی میں ماضی بعید ہی نہیں، ماضی قریب سے بھی واقف نہیں کہ آمرانہ دور اور موجودہ لنگڑی لولی جمہوریت میں کیا فرق ہے۔ جنرل محمد ایوب خان سے مشرف تک کون کون سے کارنامے انجام دئیے گئے۔جہاد افغانستان اور اسلام کے نام پر مردمومن جنرل ضیاء الحق نے کیا کیا ظلم ڈھائے۔ تحریر و تقریر کی آزادی کس حد تک تھی۔ دنیا میں پہلی بار قلم کے مزدوروں کو کوڑے کیوں مارے گئے؟ لہٰذا کسی بھی دور میں جب جب کسی اعلیٰ اور اہم شخصیت نے اپنی سوانح عمری لکھی تو اس میں اس زمانے کے قصے کہانیاں اور جدوجہد دوسروں کے لیے مشعل راہ نہ بھی ہوں توجہ دلائو نوٹس ضرور ہوتے ہیں لیکن یہ کام آسان ہرگز نہیں، عمر بھر کی کہانی اور کامیابی کی منزل تک پہنچنے یا پھر ناکامی و مشکلات کا تذکرہ کر کے لوگوں کو آگاہی دینے کے اس مشن کے
لیے صبر و تحمل، برداشت اور ثابت قدمی اوّل شرط ہے اس لیے کہ داستان حیات چند گھنٹوں، دنوں ، ہفتوں اور مہینوں میں نہیں لکھی جاسکتی اسے تسلسل کے ساتھ برسوں درکار ہوتے ہیں البتہ اس شعبے میں اس رعایت کی گنجائش موجود ہے کہ کوئی صاحب حیثیت کسی قلم کے مزدور کی خدمات قیمتاً حاصل کرے، دنیائے ادب میں یہ روایت بھی خاصی مضبوط ہے کہ لکھے کوئی، پڑھے کوئی، نثر، نظم، افسانے، کہانیاں سب کچھ لکھنے والے میسر ہیں، جن میں صلاحیتوں کا فقدان ہے لیکن مال و دولت کے باعث اپنا مشغلہ کسی باصلاحیت کی محنت سے نہ صرف پورا کر لیتے ہیں بلکہ شہرت کی بلندیاں بھی پا لیتے ہیں۔ زندہ دلوں کے شہر اور ادب و ثقافت کے مرکز لاہور میں ایسے ایک نہیں درجنوں موجود ہیں جن کے قلم کے شاہکار دولت مندوں کے سر چڑھ کر بول رہے ہیں لیکن جو پر عزم لوگ خود اپنی داستان حیات قلم بند کرتے ہیں، قابلِ عزت و احترام وہی ہیں۔
ایسی ہی ایک خاتون مہ پارہ صفدر ہیں جنہوں نے ریڈیو اور ٹی وی سے اپنا منفرد مقام بنایا، محترمہ نے پاکستان میں ہی نہیں، بی بی سی میں بھی خدمات انجام دیں، یقیناً ان کے تجربات اور مشاہدات دوسروں سے مختلف ہیں۔ انہوں نے بڑی محنت سے اپنے شریک حیات صفدر ہمدانی کی سرپرستی میں یہ کام کر دکھایا۔ ان کی سوانح عمری بہت سے حوالوں سے ایک منفرد ضخیم کتاب ’’میرا زمانہ، میری کہانی‘‘ کی
صورت میں منظر عام پر آ چکی ہے لیکن اسے کسی بڑے شہر کے بڑے اشاعتی ادارے نے شائع نہیں کیا بلکہ کم ترقی یافتہ، چھوٹے شہر جہلم کے پبلشر نے یہ کارنامہ انجام دے کر داد و تحسین حاصل کی ہے۔ ماہ پارہ صفدر روایتی عورت ہرگز نہیں، اس لیے اس کتاب میں وہ سب کچھ ہے جو ان جیسے علمی گھرانے اور شخصیت کی ذمہ داری تھی۔ صحافتی، ثقافتی، علم و ادب کے مرکز لاہور میں اس کی تقریب رونمائی ہمارے دوست ، جمہوری اقدار اور ترقی پسند سوچ کے مالک سہیل گوئندی نے ڈیمو کریٹ رائٹرز اور لاہور آرٹس کے اشتراک سے انتہائی پُر وقار انداز میں منعقد کی، جس میں شعر و ادب کی نمایاں شخصیات نے بھرپور دلچسپی لی۔ پہلے کتاب اور مصنفہ ماہ پارہ صفدر کے حوالے سے بات چیت کی گئی۔ پھر کتاب کے کچھ اقتباسات بھی سنائے گئے۔ماہ پارہ صفدر نے سوانح عمری کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو بھی کی اور ان کے شوہر نامدار صفدر ہمدانی کا آڈیو پیغام بھی سنایا گیا جو کئی حوالوں سے خاصا دلچسپ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم دونوں نے لکھنے پڑھنے کا کام ایک کمرے میں کرنا ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کتاب کا 85 فی صد کام خود ماہ پارہ نے مکمل کیا۔ ہاں شاعری کے حوالے سے میری مداخلت ضرور تھی کیونکہ میں نثر لکھنے کو مشکل ترین سمجھتا ہوں پھر انہوں نے بتایا کہ جب میں ریڈیو پاکستان میں تھا تو مجھے مس فٹ سمجھتی تھیں۔ پھر میں ریڈیو جاپان سے وابستہ ہو گیا وہاں بھی مجھے ان کی جانب سے مس فٹ ہی قرار دیا گیا اور وہ ثابت قدم رہیں۔ بی بی سی میں آ گیا تب بھی مجھے ماہ پارہ نے مس فٹ ہی کہا بلکہ سند جاری کر دی کہ اگر میں حضور اکرم آقائے دوجہاںﷺ کے زمانے میں بھی ہوتا، تب بھی مس فٹ ہی ہوتا۔ آخر میں سوال و جواب کا بھی سیشن ہوا جو شرکاء کی خصوصی دلچسپی کا باعث بنا۔ سوال ہوا کہ آپ ماشاء اللہ ابھی بھی شہزادی لگ رہی ہیں، آپ کا لب و لہجہ بھی انتہائی خوبصورت ہے پھر آپ نے اداکاری کی بجائے نیوز ریڈنگ کو ترجیح دی۔ یہ بھی پوچھا گیا کہ شادی کیسے ہوئی؟ آپ نے صفدر ہمدانی کو ڈھونڈا کہ وہ فدا ہو گئے؟ آپ کا مشکل ترین دور کون سا تھا؟ کون سی خبر آپ نہیں پڑھنا چاہتی تھیں لیکن پڑھنی پڑھی اور وہ خبر کیا تھی جو آپ پڑھنا چاہتی تھیں لیکن نہیں پڑھ سکیں۔ سوالات کرنے والے خواتین و حضرات پہلے ان کی خوبصورتی کی داد دیتے پھر ان کے منفرد لب و لہجہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہم اور ہمارے گھر والے اردو کی ادائیگی کے لیے بھی آپ کا خبرنامہ دیکھتے تھے بلکہ ماں باپ کا حکم تھا کہ آپ کو سن کر ہم لوگ اپنی اردو درست کریں۔ اس موقع پر ماہ پارہ بار بار ہنستی مسکراتی اور قہقہے لگاتی رہیں۔
جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا میں آپ سب کے حسن نظر کی شکر گزاری کے ساتھ مالک کائنات کی خصوصی شکر گزار ہوں کہ جس نے مجھے یہ سب کچھ دیا۔ میں تو صرف کیئرٹیکر ہوں جہاں تک میرے لب و لہجے کی بات ہے تو ظاہر ہے اس میں میرے گھرانے کا عمل دخل تو ہے ہی لیکن مجھے ہمیشہ سیکھنے کی جستجو رہی اوراب بھی ہے۔ میں آپ لوگوں کے سوالات پر مسکرا اور ہنس اس لیے رہی تھی کہ جب جواب سنیں گے تو آپ بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکیں گے، یقین جانیے میرا خیال بھی یہی تھا کہ مجھے اداکارہ ہی بننا چاہیے لیکن اللہ نے عزت نیوز ریڈنگ میں دے دی اس لیے اداکاری کا خیال چھوڑ دیا۔ شادی میری صفدر کی محبت کا نتیجہ ہے وہ ریڈیو پر پروڈیوسر اور میں نیوز ریڈر تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب صفدر نے فیصلہ کر کے اپنے والد محترم مصطفے علی ہمدانی سے میرا تذکرہ کر کے انہیں ہمارے گھر بھیجنے کی بات کی تو انہوں نے فرمایا چلو اگر تمہیں پسند ہے تو ہم چلے جائیں گے، اچھی ہے لیکن ایک بات ہے، وہ تمہیں ملے تو کہنا’’جدوجہد‘‘ تو درست پڑھا کرو۔ ہال میں ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا اور سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ پھر انہوں نے بتایا کہ سرکاری اداروں کا اپنا مزاج اور پالیسی ہوتی ہے بھٹو صاحب کے دور میں قومی اتحاد کا انتخابی نشان ہل تھا۔ حکم حاکم تھا کہ ’’ہل‘‘ سے پرہیز کیا جائے نہ ذکر کریں اور نہ ہی دکھائیں۔ ایک روز ریڈیو پر خبریں پڑھ رہی تھی، ہم ریہرسل کر رہے تھے کہ پروڈیوسر صاحب بھاگے بھاگے آئے اور انہوں نے ایک خبر آخری وقت پر ڈراپ کرا دی۔ خبر سنیے، خبر تھی ’’قومی ترقی اور مسائل کا حل اجتماعی سوچ اور مشترکہ حکمت عملی ہے لہٰذا مسائل کے حل کے لیے حکومت مربوط پالیسی تشکیل دے کر حل نکالے گی۔‘‘ پھر زور دار قہقہہ بلند ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ مشکل ترین دور جنرل ضیاء الحق کا تھا جب دوپٹہ ہم سب کے لیے مصیبت بنا ہوا تھا۔ دوپٹہ کاٹن کی بجائے مکس ریشوں کا ہوا کرتاتھا، سو جتن کرنے کے بعد بھی ٹکتا نہیں تھا۔ پنیں لگا لگا کر سر پر زخم بھی ہو جاتے تھے ایک روز میں نے اپنا دوپٹہ، سر اور گردن پر نماز کی طرح باندھ کر خبریں پڑھ دیں جب کوئی ری ایکشن نہ آیا تو میں نے اسے روٹین بنا لیا۔ تین چار روز بعد سیکرٹری انفارمیشن جنرل ضیاء الحق کے کارِ خاص جنرل مجیب الرحمن کا مجھے فون آیا کہ آپ یہ کیا کر رہی ہیں۔ دوپٹہ اوڑھتی ہیں کہ اس کا مذاق اڑا رہی ہیں؟ ذوالفقار علی بھٹو گرفتار تھے، پیشیا ں بھگت رہے تھے، ملک بھر میں یہ بحث تھی کہ بھٹو صاحب کو پھانسی ہو گی کہ نہیں؟ ہمارا اور ساتھیوں کا خیال تھا ایسا نہیں ہو گا لیکن وہ منحوس گھڑی آ گئی پھانسی کی خبر مجھے پڑھنی پڑی، جن حالات میں پڑھی اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر جانب عجیب سا خوف اور مایوسی تھی کوئی کچھ بول بھی نہیں سکتا تھا، پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ میں ٹی وی سٹیشن پہنچی تو پتا چلا صدر ضیاء الحق کا طیارہ گر گیا۔ ٹی وی پرعجیب سماں تھا، افراتفری کے ماحول میں تیاری کی ، سٹوڈیو گئی ابھی خبریں شروع ہونے ہی والی تھیں کہ نیوز ایڈیٹر دوڑے دوڑے آئے اور حکم دیا کہ خبریں آپ نہیں پڑھیں گی، اظہر لودھی آ رہے ہیں، میں نے پوچھا کیوں؟کہنے لگے خبر بہت سیریس ہے تم نے میک اپ کیا ہوا ہے؟ تب مجھے شدت سے احساس ہوا کہ میں نیوز ریڈر نہیں عورت ہوں۔ آخر میں ماہ پارہ صفدرسے ماضی کی یاد تازہ کرنے کے لیے اپنے مخصوص انداز میں خبریں پڑھنے کا مطالبہ کیا گیا لیکن انہوں نے ایک نظم آواز انتہائی خوبصورت ترنم سے سنا کر داد حاصل کر لی اور پھر سوال ہوا کہ آپ گلوکارہ کیوں نہیں بنیں؟ میزبان سہیل گوئندی نے شرکاء کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور یہ منفرد تقریب اختتام پذیر ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button