Ahmad NaveedColumn

علائو الدین خلجی اور قاضی مغیث الدین ۔۔ احمد نوید

احمد نوید

علائو الدین خلجی اور قاضی مغیث الدین

علائو الدین خلجی ان پڑھ تھا،لیکن اس نے ملک کے معاملات چلانے کیلئے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا اور علما کی مجالس میں بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ ایک روز اُس نے اپنی سلطنت کے قاضی مغیث الدین سے کہا کہ میں تم سے چند مسائل کے بار ے میں پوچھنا چاہتا ہوں ۔ چونکہ علائو الدین نے زندگی بھر علما سے ملنے سے گریز ہی کیا تھا ،اس لیے قاضی صاحب، علائو الدین کی بات سن کر دل ہی دل میں خائف ہوئے کہ خدا جانے کیا مصیبت نازل ہونے والی ہے، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے قاضی مغیث الدین نے ہاتھ باندھ کر بادشا ہ سے عرض کی ۔ ’’حضور ! مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا آخری وقت اب قریب آگیا ہے، اس لیے آپ کوئی مسئلہ پوچھنے کی زحمت نہ فرمائیں بلکہ شاہی ملازموں کو حکم دیں کہ ابھی اور اسی وقت میرا سر قلم کر دیں ۔ ‘‘
علائو الدین نے قاضی صاحب سے اس ڈر اور خوف کی وجہ پوچھی تو جواب میں قاضی مغیث الدین نے کہا ۔ ’’ حضور مجھ سے جو کچھ بھی دریافت فرمائیں گے ،میں اس کا صحیح صحیح جواب دوں گا اگر یہ جواب حضور کی مرضی کے خلاف ہوا تو پھر میرا زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا ۔اگر میں نے آپ کی خوشنودی کو پیش نظر رکھتے ہوئے غلط جواب دیا اور پھر بعد میں آپ نے دیگر علما ء سے میرے جواب کی تصدیق کرائی تو پھر مجھ پر جھوٹ بولنے کا الزام ثابت ہو جائے گا اور اس صورت میں بھی میرا حشر وہی ہو گا جو پہلی صور ت میں ہونا ہے ‘‘قاضی مغیث الدین کا یہ جواب سن کر علائو الدین مسکرایا اور اس نے قاضی مغیث الدین سے کہا ۔’’میں جو کچھ تم سے دریافت کروں تم اس کا جواب اسلامی شریعت کے مطابق دینا اور یقین رکھو، سچ بولنے کی وجہ سے تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچے گا ۔ ‘‘اس کے بعد بادشاہ نے قاضی مغیث الدین سے کچھ سوالات کیے۔
علائو الدین خلجی نے پہلا سوا ل کیا۔’’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بادشاہی اہل کارلوگوں سے رشوت کے طور پر کچھ رقم حاصل کر لیتے ہیں کیا اس طریقہ کار کو چوری کے مترادف سمجھنا چاہیے۔ کیا رشوت لینے والوں کو بھی سزاد ی جا سکتی ہے ، جو چوروں کو دی جاتی ہے ۔؟ قاضی نے جواب دیا۔’’شاہی اہلکار اپنی معمولی تنخواہ کے علاوہ جوان کی ضروریات کیلئے کافی ہوا گر کوئی رقم وصول کریں تو بڑی سختی کے ساتھ یہ رقم ان سے واپس لے لینی چاہیے ۔ ‘‘قاضی کا جواب سن کر علائو الدین کہنے لگا ۔ ’’میں نے بھی سزا کا یہی قانون رائج کیا ہے ۔ شاہی اہلکار جو رقم بد دیانتی سے حاصل کرتے ہیں میں بڑی سختی کے ساتھ ان سے واپس لے لیتا ہوں تا کہ لالچی اور ظالم اہلکار رعایا کو تنگ نہ کریں اور رشوت لینے کا رواج ختم ہو جائے ۔ ‘‘
اب علائو الدین نے تیسرا سوال کیا۔’’میں نے اپنی امارات کے زمانے میں دیو گڑھ سے جو مال و دولت حاصل کیا تھا اس پر کس کا حق ہے میرا یار عایا کا؟ وہ میری ملکیت ہے یا بیت الما ل کی امانت ؟‘‘ قاضی نے جواب دیتے ہوئے کہا۔’’اس تمام مال و دولت میں آپ کا حق اتنا ہی ہے جتنا ان لوگوں کا جنہوں نے یہ سب کچھ حاصل کرنے میں آپ کی مدد کی ۔ ‘‘علائوالدین کو یہ جواب بھی پسند آیا اور اس نے کہا ۔ ’’بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے جو رقم میں نے اپنی امارات کے زمانے میں حاصل کی اور جسے شاہی خزانے میں داخل نہیں کیا گیا وہ کس طرح بیت المال کی امانت ہو سکتی ہے ۔ ‘‘ اس پر قاضی صاحب نے پھر جواب دیتے ہوئے کہنا شروع کیا۔’’اس سلسلے میں تین طریقوںپرعمل کیا جا سکتا ہے۔ اگر خلفائے راشدین کی تقلید کی جائے تو اس طرح حاصل کی ہوئی دولت سے بادشاہ کو اسی قدر حصہ لینا چاہیے جتنا کہ ایک عام مسلمان اور اگر میانہ روی سے کام لیا جائے تو بادشاہ کو ان امیروں کے برابر حصہ لینا چاہیے جنہیں زیادہ حصہ ملتا ہو۔ اگر ملکی سیاسی مصلحتوں کا خیال کیا جائے تو بادشاہ امراء کے حصے سے کچھ زیادہ حصہ لے سکتا ہے تاکہ بادشاہ اور عام امراء کے مرتبے میں امتیاز کیا جائے اور شاہی رعب کو برقرار رکھا جائے اس سے زیادہ حصہ لینا بادشاہ کو کسی بھی طرح جائز نہیں بادشاہ کی اولاد کا حق امراء اور مسلمانوں کے برابر ہونا چاہیے ۔‘‘یہ جواب سن کر علائو الدین خلجی بہت برہم ہوااور کہا کہ ’’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ میرے حرم اور دیگر سلسلوں میں جو رقم صرف ہوتی ہے تم اسے ناجائز قرار دیتے ہو۔‘‘قاضی مغیث کہنے لگا۔ ’’حضور نے مجھ سے شرعی مسائل کے بار ے میں پوچھا تھا۔‘‘
علائو الدین نے اپنا پانچواں سوال کیا۔’’میرا معمول ہے جو لشکری ضرورت کے وقت حاضر نہیں ہوتا ،میں اس سے سزا کے طور پر تین سال کا معاوضہ واپس لے لیتا ہوں اور باغیوں اور سر کشوں کو میں ان کے ساتھی، ہمراہیوں اور بیوی بچوں سمیت موت کے گھاٹ اتار دیتا ہوں اور ایسے مجرموں کی تمام دولت حاصل کر کے شاہی خزانے میں داخل کر لیتا ہوں ۔ باغیوں سے میں کسی قسم کی رعایت نہیں کرتا اور ان کا نام و نشان مٹا کر ملک میں امن و امان کی فضا پیدا کرتا ہوں ، شرابیوں ، بدکاروں ، چوروں وغیرہ کو شدید سزائیں دیتا ہوں میرا خیال ہے تم ان سب باتوں کو شرع اسلام کے خلاف کہو گے۔ ‘‘علائو الدین کے یہ جملے سن کر قاضی مغیث الدین اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا ہوا اور کونے میں جا کر اپنے سر کو ہاتھوں پر رکھ کر زمین بوس ہوا اور بڑے ادب سے علائو الدین خلجی کو مخاطب کیا۔’’حضور نے جو باتیں بیان فرمائیں وہ شریعت کے احکامات کے خلاف ہیں ۔ ‘‘ علائو الدین خلجی یہ جواب سن کر بہت سٹپٹایا اور بوکھلا کر اس کمرے سے نکل کر حرم سرا کی طرف چلا گیا تھا۔ قاضی مغیث الدین پریشانی کے عالم میں وہاں سے رخصت ہوئے ،جلد از جلد گھر پہنچے۔ اب انہیں اپنی زندگی کا کوئی یقین نہ تھا۔ انہوں نے اپنے اہل و عیال سے ہمیشہ کیلئے رخصت طلب کی اور اپنے قتل کے شاہی فرمان کا انتظار کرنے لگے ۔ وہ اسی انتظار میں تھے کہ اگلے روز علائو الدین خلجی نے انہیں دربار میں طلب کیا اور خلاف توقع انہیں انتہائی لطف و کرم سے نوازا۔
اس واقعے کا پاکستان کے آج کے حالات سے مماثلت محض اتفاق ہے!اس لیے کسی علائو الدین خلجی کو تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button