ColumnImtiaz Ahmad Shad

رمضان کی عظمت،حرمت اور فضیلت ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

رمضان کی عظمت،حرمت اور فضیلت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف واکرم بنایا، اس کی فطرت میں نیکی اور بدی، بھلائی اور برائی، تابعداری وسرکشی اور خوبی وخامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں یکساں طور پر رکھ دی ہیں۔ پیغام خدا وندی واضح ہے۔ ’’اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ، چند روز ہیں گنتی کے۔‘‘
نفس کو برائیوں سے روکنے کا سب سے بڑا ذریعہ روزہ ہے۔ ایک صحابیؓ نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجیے جس سے حق تعالیٰ مجھے نفع دے‘‘، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’یعنی روزہ رکھا کرو، اس کے مثل کوئی عمل نہیں۔‘‘ اب رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، گویا یہ مہینہ نیکیوں کیلئے موسمِ بہار کی طرح ہے، اسی لیے رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت وعطا، اپنی ضمانت واُلفت اور اپنے انوارات سے نوازتے ہیں۔ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجرو ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں جب ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے تو اس کی برکت سے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جب رات کو قیام (تراویح) اسی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس سے بھی گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے، اس ماہ کی ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔
رمضان کا روزہ فرض اور تراویح کو نفل (سنت مؤکدہ) بنایا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے،روزہ افطار کرانے والے کی مغفرت، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے، چاہے وہ افطار ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ کرائے، ہاں! اگر روزہ دار کو پیٹ بھرکر کھلایا یا پلایا تو اللہ تعالیٰ اسے حوضِ کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ جس نے اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی مغفرت اور اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ دیں گے۔ پورا سال جنت کو رمضان المبارک کیلئے آراستہ کیا جاتا ہے۔ عام قانون یہ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک دیا جاتا ہے، مگر روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’روزہ صرف میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا۔‘‘ روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں: ایک افطار کے وقت کہ اس کا روزہ مکمل ہوا اور دعا قبول ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے روزہ افطار کیا اور دوسری خوشی جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوگی۔ روزہ دار کے منہ کی بو (جو معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے آتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور بندے کے حق میں دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
رمضان المبارک کے حوالے سے چند مخصوص باتیںجن کا حضور اکرم ﷺ خود بھی اہتمام کیا کرتے تھے اور اُمت کو بھی اس کی تعلیم اور تلقین فرماتے تھے: حضور اکرم ﷺ شعبان کی تاریخوں کی جس قدر نگہداشت فرماتے تھے اتنا دوسرے مہینوں کی نہیں فرماتے تھے۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رمضان کی خاطر شعبان کے چاند کا اہتمام کیا کرو۔ آپ ﷺ نے سحری کھانے کا حکم فرمایا کہ: ’’سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘ اور فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘ یعنی اہلِ کتاب کو سوجانے کے بعد کھانا پینا ممنوع تھا اور ہمیں صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک اس کی اجازت ہے۔آپ ﷺنے فرمایا:’’لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ (غروب آفتاب کے بعد) افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘
یہ مہینہ گویا ایمان اور اعمال کو ریچارج کرنے کیلئے آتا ہے۔ رمضان عربی کا لفظ ہے، جس کا اُردو میں معنی ہی شدتِ حرارت کے ہیں، یعنی اس ماہ میں اللہ رب العزت روزہ کی برکت اور اپنی رحمتِ خاصہ کے ذریعہ اہلِ ایمان کے گناہوں کو جلا دیتے اور ان کی بخشش فرمادیتے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں،اور ایک روایت میں بجائے ابوابِ جنت کے ابوابِ رحمت کھول دیئے جانے کا ذکر ہے۔‘‘ الغرض رمضان المبارک کی بڑی فضیلت ہے، اسی وجہ سے کہا گیا کہ اگر لوگوں کو رمضان المبارک کی ساری فضیلتوں اور برکتوں کا پتا چل جائے تووہ تمنائیں کریں کہ کاش! سارا سال رمضان ہوجائے۔ روزہ در اصل انسانی زندگی میں تربیت کا ایک بنیادی ذریعہ ہے۔نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ روزے دار کو اپنے اعمال، قول و فعل کی عام دنوں سے زیادہ احتیاط کرنی چاہیے۔ جیسے چغلی، غیبت، جھوٹ، لڑائی جھگڑے، کسی کو بُرا بھلا کہنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی روزے کی حالت میں تم سے لڑائی کرے، تو بس اتنا کہہ دو کہ ’’مَیں روزے سے ہوں۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا کہ ’’اللہ کو تمہارے بھوکا پیاسا رہنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ احادیث کی رُوسے پتا چلتا ہے کہ چاہے کوئی کتنا ہی بُرا برتاوکیوں نہ کرے، مگر روزے دار کو اپنے غصّے پر ضبط رکھنا چاہیے۔ در حقیقت روزہ تو باطنی بیماریوں جیسے غیبت، بد اخلاقی، بد کلامی وغیرہ کا خاتمہ کرتا اور نفس کو پاک کرتاہے۔ نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ ’’بہت سے لوگ ہیں، جن کو روزے سے محض بھوک و پیاس ملتی ہے۔‘‘یعنی انہیںروزے کی اصل روح، صبر و برداشت، تحمّل، سکون اور اللہ کا قرب حاصل نہیں ہوتا۔ لہٰذاماہِ صیام کو عبادات، برکات اور گناہوں کی بخشش کے طور پر لینا چاہیے، تاکہ دنیا و آخرت سنور جائے۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button