
کیا رسمی سوگ منانا کافی ہوتا ہے؟ .. علی حسن
علی حسن
اردو زبان کے معروف شا عر جوش ملیح آبادی فروری کی 22 تاریخ 1982کو 83 برس کی عمر پاکر دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ اپنے دور کے بڑے شعراء ہوں یا فنکار ہوں، کی یاد منانا تو اپنی جگہ رہا لیکن لوگوں کو یاد بھی نہیں رہتا۔ ذرائع ابلاغ بھی ان کی یاد نہیں مناتے۔ یہ تو بعد از موت کی بات ہے یہاں تو زندگی میں بھی زندہ درگور کر دیا جاتا ہے۔ مولانا کوثر نیازی مرحوم بھٹو دور میں وفاقی وزیر اطلاعات اور پھر مذہبی امور تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’ جنہیں میں نے دیکھا‘‘ میں پاکستان کے اہم ترین اور نہایت قابل احترام شاعر جوش ملیح آبادی کے دو ایسے خطو ط شائع کئے ، جنہیں پڑھنے کے بعد جوش صاحب جیسے عظیم الشان شاعر کی کسمپرسی پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ آپ بھی پڑھیں کہ جوش مرحوم نے کیا لکھا تھا۔ ’’میری زندگی کا یہ طویل ترین معاشی بحران ہے۔ اطلاعات کی وزارت سے میرا تبادلہ تعلیمات کی وزارت میں کردیا گیا اور مجھ سے کہا گیا کہ اس مئی کے پہلے ہفتے میں آپ کا تقرر نامہ جاری کردیا جائے گالیکن آج کی تاریخ تک (یہ 23 ستمبر کا خط ہے) میرا تقرر نامہ جاری نہیں ہوا چنانچہ اس دفتری تاخیر اور پنجاب کے طوفان کی وجہ سے مجھ کو پورے پانچ مہینے تنخواہ نہیں ملی جو شخص خدا کے فضل وکرم سے دولت مندنہ ہو اس کا تنخواہ سے ایک سر محروم ہوجانا ایسا حادثہ عظیم ہے جس کو وہ لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے جن کو اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہے۔ تنخواہ بند ہوجانے کے باعث، میں 8ہزار کا مقروض ہوچکا ہوں جس کے وزن سے میرے شانے ٹوٹے جا رہے ہیں۔ قرض سے رزق چل رہا ہے میں کھانا نہیں کھارہا ، خود کھانا مجھ کو کھارہا ہے،روز دھمکایا جارہا ہوں کہ ٹیلی فون، بجلی اور گیس کاٹ دی جائے گی اور روز دانت نکال نکال کر مہلت مانگ رہا ہوں۔ اس پر طرئہ یہ کہ باورچی تنخواہ کے تقاضوں سے بھونے ڈال رہا ہے۔دھوبی دھلائی مانگ مانگ کر پائے پر میرا سرما رہا ہے۔ مائی کے تقاضے کانٹے چبھورہے ہیں اور چوکیدار صاحب مجھ کو دارپر کھینچ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ میرا بیٹا تین چار سال سے مریض ہے اور اس قدر کہ بستر سے اٹھ نہیں سکتا میری بیوہ بیٹی شدید افلاس میں گرفتار ہے۔ بیٹی اور بیٹے کو جو سات سو روپے ماہانہ بھیجا کرتا تھا ۔اس کا دروازہ بھی بند ہوچکا ہے۔ میری بیوی خللِ دماغ میں گرفتار ہوچکی ہے اور سنتا ہوں کہ وہ راتوں میں اٹھ اٹھ کر مجھ کو سارے گھر میں تلاش کرتی پھرتی ہیں اور نہ ان کو یہاں بلاسکتا ہوں اور نہ وہاں جاسکتا ہوں میں پوچھتا ہوں کہ مجھ کو آخر کس لیے جلایا جارہا ہے؟ کیا اس خونی زمانے کو مجھ سے بہتر اور کوئی شکار نہیں مل سکتا؟ اے بے حس معاشرے اور اے سنگ دل کائنات!شاید رہنا کہ اس کرئہ ارض پر مجھ سے زیادہ کوئی انسان موت کا آرزومند نہیں ہے۔ ہائے میں کیا تھا اور آج کیا ہوگیا ہوں۔ غم جاناں نے بھی جی بھر کے ستایا لیکن غم دوراں کی طرح جان سے مارا تو نہیں‘‘۔
ایک اور خط بنام وفاقی وزیر اطلاعات،میں جوش مرحوم رقم طراز تھے ۔ ’’بندہ پرور پاکستان آکر میں جس قدر ذلیل و خوار ہوا ہوں اسے بیان کرنے سے
قاصر ہوں۔ ہندوستان میں تو میرا یہ عالم تھا کہ فون کئے بغیر پنڈٹ جواہر لال کے ہاں پہنچ جاتا اور وہاں جاکر اگر یہ معلوم ہوتا کہ وہ ابھی خواب گاہ میں ہیں تو ان کی خواب گاہ میں پہنچ جایا کرتا تھااور پاکستان میں اس قدر ہلکا ہوچکا ہوں کہ کئی مرتبہ آپ کی خدمت میں فون کرنے کے باوجود آپ سے ملاقات تو درکنار بات تک نہیں ہوسکتی۔ بندہ نواز! میں ناشکرا نہیں ہوں مجھ کو احساس ہے کہ صرف یہ آپ کی ذات مبارک ہے جس کے کرم کی بناء پر میں آج اطمینان سے بیٹھا ہوا ہوں۔ میرا دل آپ کا شکر گزار بھی ہے اور آپ کی شرافت کا پرستار بھی لیکن یہ دیکھ کر میرے دل کے ٹکڑے اڑے جارہے ہیں کہ آپ مجھ سے غافل ہوچکے ہیں اور نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ حسرت موہانی کا یہ شعر مجھ پر صادق آرہا ہے کہ ’’ایک ہی بار ہوئیں وجہ گرفتاری دل ، التفات ان کی نگاہوں نے دوبارہ نہ کیا‘‘۔ اپنی خودداری کو ٹھکراکر اس وقت حاضر ہوا اور دریافت کررہا ہوں کہ ’’عزم دیدار تو داروجان برلب آمدہ ، باز گردویابرآید چیست فرمانِ شما‘‘۔
پاکستان ایسا ملک ہے جہاں شاعر، ادیب، فنکار، اداکار، صحافی، کھلاڑیوں کی کوئی قدر ہی نہیں بلکہ انہیں زندگی کے سخت حالات کے دوران ہی فراموش کر دیا جاتا ہے۔ فنون لطیفہ سے منسلک بے شمار ادیب ، شاعر، گلوکار، فنکار، اپنے دور میں بے شمار واہ واہ کمانے والے گمنامی میں چلے جاتے ہیں۔ کئی تو کسمپرسی کے عالم میں علاج و دوا کے بغیر ہی مر کھپ جاتے ہیں۔ مختلف طرح کی بیماریوں کے باعث ان لوگوں کی ایسی حالت نہیں ہوتی کہ گھر کا کرایہ بھی ادا کر سکیں۔ وسائل ہی نہیں ہوتے۔ ان لوگوں کی رحلت کی خبریں جہاں دل کو اداس کر دیتی ہیں وہاں بہت سے سوال بھی پھر سے تازہ ہو جاتے ہیں کہ جو معاشرہ بوقت ضرورت اپنے فن کاروں کو چھت کا سایہ اور دو وقت کی روٹی فراہم نہیں کر سکتا وہ کیسا معاشرہ ہے؟کس قدر افسوس کی بات ہے کہ فن کاروں کیلئے نہ تو کسی قسم کی سوشل سکیورٹی کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی اْ ن میں سے زیادہ تر کو اپنے کام کا اتنا معاوضہ ملتا ہے کہ سالہا سال تک مسلسل مصروف رہنے کے بعد بھی فن کار اپنے گھر کا کرایہ تک ادا کرنے سے لاچار ہو جاتے ہیں، سرکار نے اس کام کیلئے کچھ کمیٹیاں تو بنا رکھی ہیں جن میں سے کئی ایک کا میں خود بھی ممبر ہوں مگر نہ صرف اس طرح کے وظائف کی رقم بہت کم ہے بلکہ یہ عام طور پر انہیں وقت پر ملتی بھی نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بڑھاپے میں اْن کے علاج معالجے کیلئے سہولیات نہ
ہونے کے برابر ہیں۔ محنتی فن کاروں کا کسمپرسی کے عالم میں رخصت ہونا یقیناً ہم سب کیلئے ایک سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ ہے ۔ یہ رونا دھونا کسی نوحہ سے کم نہیں اور اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اور کئی سوال چھوڑتا ہے لیکن اس ملک میں تو ہر شاعر، ادیب، فنکار، صداکار، اداکار، صحافی زندگی بھر کام کرتے ہیں ، زندگی میں انہیں اتنا قلیل معاوضہ ادا کیا جاتا ہے کہ آسودگی قریب نہیں پھٹکتی ہے۔ افلاس ان کے گھروں میں ڈیرہ ڈال دیتی ہے۔ زندگی میں تو جب یہ لوگ کام کرتے ہیں تو سب ہی واہ واہ کرتے ہیں لیکن جب وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں، یا بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں تو کوئی پوچھتا تک نہیں۔ واہ واہ کرنے والے غائب ہو جاتے ہیں۔ اپنے زمانے کے وہ معروف لوگ جن سے ہاتھ ملانے کا لوگ موقع ڈھونڈتے تھے ، ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی موت پر خوبصورت الفاظ پر مبنی تعزیتی بیانات ضرور جاری اور شائع ہوتے ہیں جیسے اسی مہینے (فروری) میں انتقال کر جانے والے شاعر امجد اسلام امجد، اپنے نام اور کام کی وجہ سے مشہور اداکار، صدا کار ضیاء محی الدین کیلئے ہوا۔ ہمارے ملک میں تو رسمی سوگ منا لیا جاتا ہے۔ مہذب دنیا میں تو حکومتیں ان لوگوں کو پلکوں پر بٹھاتے ہیں۔ امریکہ میں تو حکومت سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو پابند کرتی ہے کہ ایسے لوگوں کی باقائدہ دست گیری کی جائے۔ ہر کمپنی کسی نہ کسی شاعر، ادیب، فنکار، اداکار، صداکار اور صحافی کی دستگیری کرتی ہے۔ لندن میں تو ان مکانات پر تختیاں لگائی جاتی ہیں جہاں یہ لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ بھارت میں ان کھلاڑیوں کو پنشن دینے کا فیصلہ ہوا تھا جنہوں نے کسی بھی کھیل میں میڈل
حاصل کئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے افراد جس طرح کے تشویش ناک مالی حالات کا شکار ہیں ، وہ دل دکھانے کے سوا کچھ اور نہیں۔ لوگ مختلف جان لیوا بیماریوں کے ساتھ افلاس میں مبتلا ہونے کی وجہ سے توجہ، امداد، محبت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ انہیں کیوں اپنی لڑائی تنہا لڑنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے؟ کوئی وقت ایسا نہیں ہوتا جب کہا جائے کہ دیر ہوگئی۔ ابھی بھی وقت ہے، حکومت کو اس کی سرپرستی میں چلنے والے کم از کم دو اداروں سوشل سکیورٹی اور ا یمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ (ای او بی آئی) میں ایسی گنجائش پیدا کرنا چاہیے جہاں سے الفاظ ، آواز، قلم اور کھیل کے ذریعہ روزی کمانے والے اپنے وقت کے ان بادشاہوں کی باقاعدگی سے دستگیری ہو سکے ورنہ اپنے اپنے دور کے یہ نامور لوگ یوں ہی مرتے رہیں گے۔ ہماری حکومتوں کو تو کوئی فکر ہی نہیں ہوتی ، حکومتوں نے ایسے لوگوں کو ان کے ہی حال پر چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے ان نام ور لوگوں کا قصور بھی ہے کہ اپنے اچھے دنوں میں وہ خراب دنوں کی فکر ہی نہیں کرتے ۔ ان لوگوں نے خود بھی کبھی کسی ایسی تنظیم کی بنیاد نہیں ڈالی جو افلاس کے شکار ان نامور لوگوں کی امداد کر سکے ۔