ColumnImtiaz Ahmad Shad

اسلام میں عورت کا مقام .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

کسی بھی مثالی معاشرے کیلئے باصلاحیت اور باکردار عورت کا وجود ناگزیر ہے ۔ عورت نہ صرف بچے کی پیداش کا سبب بنتی ہے بلکہ اس کے معاشرے میں کردار اورصلاحیت کو بہتر بنانے کی ضامن بھی۔ گود سے گورتک تمام افعال جو معاشرتی فلاح اور افراد کی اصلاح کیلئے سرانجام پاتے ہیں وہ سب معاشرے میں موجود عورت کے کردار اوراس کی صلاحیت کے ساتھ منسلک ہیں۔معاشرے کے عروج وزوال کی داستانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے مگر معاشرے کی فلاح اوربگاڑ میں عورت کا بڑاکلیدی کردار رہا ہے ، جس بھی معاشرے میں عورت کو اپنا کردار ادا کرنے سے روکا گیا یا اسے نمودو نمائش کا ذریعہ بنایا گیا وہاں تباہی وبربادی کے سواکچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔قبل از اسلام وہ تمام قومیں جو اپنے عروج کو پہنچیں اورپھر زوال ان کا مقدر بنا، تاریخ گواہ ہے کہ جب تک انہوں نے عورت کو اپناکردار ادا کرنے اوراس کے حقوق سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیے رکھا، عروج ان کا مقدر بنتا گیا مگر جونہی عورت کو محض تسکین اورنمودونمائش کا ذریعہ سمجھا تو وہ قومیں ہستی سے مٹ گئیں۔عورت کو پیش پاافتادہ سامان خیال کیا جاتا۔ بازاروں میں اس کی خرید وفروخت عام تھی۔ اسپارٹا میں تو عورت کی اس حدتک تذلیل کی جاتی تھی کہ عورت ایک سے زیادہ مردوں سے شادی کرسکتی تھی ۔ بڑی بڑی عورتیں اس غلیظ عادت کا شکار ہوگئی تھیں۔اہلِ یونان اوراہل
ِ روم کو تاریخ کے اوراق میں بڑا مقام حاصل ہے ۔ ان دونوں قوموں کا زوال بھی اس وقت شروع ہوا جب عورت کو تماشائے بازار بنایا جانے لگا۔حالت یہ ہوگئی کہ غیر نکاحی تعلق کا رواج عا م ہوگیا اوریہاں تک کہ بڑے بڑے معلمینِ اخلاق اس عمل کو فخرسے کرنے لگے، غرض یہ کہ انسانی سوسائٹی میں عورت کا درجہ نہایت انحطاط پذیر تھا۔ تمام پیشواہان دین نے عورت کو اس حددرجہ حقیر سمجھا کہ اسے تمام خرابیوں کی جڑ قرار دینے لگے مگر وہ بھول گئے کہ ان کے اپنے وجود کا سبب عورت ہی بنی ۔عرب معاشرے میں بھی عورت کی تذلیل کچھ اس سے منفرد نہ تھی بچیوں کو زندہ درگور کرنا معمومل تھا ۔اس سے بڑھ کر عورتوں کے ساتھ ناانصافی اورانسانیت سوز برتائو اورکیا ہوسکتا ہے کہ568ء میں فرانس کے بعض ممالک میں اہلِ فرانس نے ایک جلسہ منعقد کیا جس میں خاص طور پر اس مسئلہ پر بحث وتمحیص ہوتی رہی کہ عورت کو انسان شمار کیا جائے یا کچھ اور۔آخر کار بحث اس امر پر ختم ہوئی کہ حاضرینِ جلسہ نے یہ اقرارکرلیا کہ عورت انسان ہے لیکن محض مرد کی خدمت کیلئے پیدا کی گئی ہے، اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے مگر عورت کے ساتھ برتا جانے والا غیر انسانی سلوک ،عورت کی حق
تلفی اورحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاناہر گز درست نہیں۔انسانی تذلیل کا یہ سلسلہ عرب وعجم کے گوشے گوشے میں واضح طور پر نظر آنے لگا ۔ معاشرے کی حالت کچھ اس حد تک بدتر ہوگئی کہ ماں، بیٹی، بہو سب کے سب رشتے ماند پڑنے لگے۔افراط وتفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی اس بے رحم دنیا کو صحیح راستہ دکھانے کیلئے اسلام ہی واحد دین تھا جس کی آمد انتہائی ناگزیر ہوچکی تھی۔چنانچہ اس اندھیر نگری میں روشن چراغ کی مانند اسلام نے پانے نور کا کچھ یوں اجالا کیا کہ تمام تاریک راہیں روشن ہوگئیں اورخصوصاً عورت کو وہ مقام حاصل ہوا کہ تاریخ میں اس کی اور کوئی مثال نہیں ملتی۔اسلام نے خواتین کو وہ تمام حقوق عطا کیے جن کے چھن جانے سے وہ معاشرے پر ایک بوجھ سمجھی جاتی تھی ۔ خانہ داری کے امور سے
لے کر اصلاح معاشرہ کے افعال کی انجام دہی تک بلکہ وراثت میں شراکت کے حقوق کو بھی حضورﷺ نے اس قدر بیان فرمایا کہ عورت کی تمام محرومیاں جو کبھی اس کا مقدر تھیں ختم ہوگئیں۔ دشمنانِ اسلام اورکچھ ہمارے نادان دوست جو اسلام میں ہوتے ہوئے بھی غیروں کی تقلید کو اپنا شعار زندگی بنائے ہوئے ہیں، بے جا طور پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے عورت کے حقوق چھین لیے اوروہ درجہ نہیں دیا جو اس کے لائق تھانیز پردہ ، طلاق اوردیگر چیزوں کو ایک مشکل امر اورانسانی سوسائٹی کیلئے خطرناک سمجھا ہے ۔ اگر یہ لوگ بنظر انصاف کتاب اللہ ، سنت رسولﷺاورسلف صالحین کی سیرت وآثار دیکھیں تو لامحالہ ان کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام نے عورت کے ساتھ انصاف کیااوراس کو مقام انسانیت کے ارفع درجہ پر پہنچایا۔خصوصاً اس وقت جب عورت زہریلہ سانپ اوربدتر شیطان سمجھی جاتی تھی ۔ چین میں اس کو قید خانے میں رکھا جاتا تھا ۔ فارس میں اس کی کوئی قدروقیمت نہ تھی۔مصر میں عورت کو حقیر جان کر انسانیت کے حقوق سے محروم کردیا گیا تھا۔ یورپ میں غلاموں اورخادمائوں کے ہم پایہ تھی اورممالک عربیہ میں متاع ومیراث سمجھ کر تقسیم کردی جاتی تھی۔اب اگر اسلام نے اس کو بلند مقام تک پہنچا کر انسانی حقوق عطا کیے ہیں ، اس کا احترام کرکے
اس کو علم وفضل کے زیور سے آراستہ کیا ہے تو واضح کیا جائے کہ اسلام نے عورتوں کے ساتھ انصاف کیا ہے یا ان قوموں نے جو اس کو استبدادیت کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے تھیں۔حضور ﷺ نے عورت کو وہ مقام عطا کیا جو شاید کئی بھی قوم تصور میں بھی نہ لاسکی۔
شریعتِ اسلامیہ نے مرد اورعورت کو جماعتی حقوق میں برابر کا درجہ دیا ہے ۔کچھ اسلام مخالف قوتیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اسلام عورت کو تعلیم حاصل کرنے سے محروم کرتا ہے مگر وہ یہ بات نظر انداز کردیتے ہیں کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے مرد اورعورت کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ زوردیتے ہوئے اسے مردوعورت پر فرض کردیا ۔اسلام نے تو عورت کی ذہنی وعقلی قوتوں کی ترقی کے تمام راستے کھول دیئے ۔لہٰذا یہ امر روش ہے کہ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جس نے عام تعلیمی نقطہ نگاہ مردوں اورعورتوں کو مساوی تعلیم دینے کا اصول مقرر کیاحالانکہ اس سے قبل تعلیم صرف طبقہ اغنیا اوراستبداد پسند قبائل تک ہی محدود تھی مگر اسلام نے یہ تفریق ختم کردی۔وطنِ عزیز میں بھی ایک ایسا مخصوص افراد کا گروہ ہے جو احکاماتِ شریعہ میں عورت کو قید کرتا ہے اوراس حوالے سے وہ متعدد بار خواتین کے مسائل کی آڑ میں اپنے مذموم عزائم کو پوراکرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔میں یہ سمجھنے سے قاصرہوں کہ یہ طبقہ قرآن وسنت سے راہنمائی لینے کی بجائے اغیار کی خواہشات کو پروان چڑھانے پر کیوں بضد رہتا ہے؟۔ دوسرے ہی لمحے میرے ذہن میں یہ خیال سراٹھاتا ہے کہ یہ سب کاروباری طبقہ ہے اوریہ قانون ساز فیکٹریوں میں بھی وہ مال تیار کرنا چاہتے ہیں جو یورپ کی منڈیوں میں مہنگے اورفوری دام بیچاجاسکے مگر میں ان عقل کے اندھوں کو(جو اپنے آپ کو عقلِ کُل تصور کرتے ہیں )یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام کے بارے میں غلط افواہیں پھیلانے کی بجائے ذرامطالعہ کریں۔عورت کو اعلیٰ وارفع مقام سے متعارف کس نے کروایا؟اسلام نے عورت کو صرف اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھے جس کا واضح اعلان قرآن مجید میں کیا گیا،’’اے پیغمبر!مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کی کریں اوراپنا سنگھار کسی پر ظاہر نہ کریں۔سوائے اس کے جواز خود کھلا رہتا ہے اوراپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رکھا کریں(سورۃ النور)افسوس کہ جس سے اس کی عزت وتکریم میں اضافہ ہوتا ہے اورجو لوگ یہ نظریہ قائم کیے ہوئے ہیں وہ کھلم کھلا قرآن مجید کے ان احکامات کا انکار کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button