ColumnNasir Naqvi

گلزار بخاری کے ساتھ ایک دوپہر .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

زمانۂ طالب علمی میں دیال سنگھ کالج کو ادبی ثقافتی سرگرمیوں میں بڑا فعال پایا۔ بزم و علم و ادب اور ڈرامیٹک کلب کے علاوہ بین الکلیاتی مقابلوں میں شرکت کے باعث ہمیں بھی وقت سے پہلے ہی عزت ملنے لگی تھی۔ اس لیے کوئی ایسی تقریب نہیں ہوتی تھی جہاں راقم کو اہمیت نہ دی جائے۔ اساتذہ کی شفقت اور پذیرائی سے ہماری حالات ’’بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ جیسی ہوا کرتی تھی۔ اس درسگاہ کی وجۂ شہرت یقیناً نصابی سرگرمیوں کے علاوہ یہی ادبی و ثقافتی غیر نصابی سرگرمیاں ہونی چاہیے تھیں لیکن بدقسمتی سے اس کی شہرت کچھ اور ہی تھی۔ مجھے فخر ہے کہ اردو اب کے ممتاز شاعر تاجور نجیب آبادی سے یہ سلسلہ عابد علی عابد، انجم رومانی، نجیب احمد، خالد احمد، گلزار وفا چودھری سے ہوتا ہوا آج کے معروف شاعر ناصر بشیر تک جاری ہے۔ اسی درسگاہ سے پی ٹی وی شعبہ سپورٹس کے سرپرست مصلح الدین، پاکستانی صحافت کے مرشد نثار عثمانی، غرضیکہ ہر شعبہ زندگی کے بڑے نام شامل ہیں۔ صرف تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو ان گنت شخصیات اسی ادارے سے وابستہ پائی جائیں گی۔ میرے دورِ طالب علمی میں منفرد اسلوب کے ممتاز شاعر انجم رومانی اور گلزار وفا چودھری موجود تھے۔ انجم رومانی جس قدر سنجیدہ تھے گلزار وفا چودھری اتنے ہی مجلسی اور دوستانہ طبیعت کے مالک تھے۔ لہٰذا ہفت روزہ یا پندرہ روزہ ادبی تقریبات کا اہتمام بڑے زور و شور سے کرتے ، ہمیں بھی مدعو کرتے لیکن اس وقت قدآور شخصیات کے مقابلے میں ایک طالب علم کی بھلا کیا بساط ہو گی، یہ آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔پھر بھی گلزار وفا چودھری کی محبت اور شفقت میں ہماری رسائی بھی سب تک ممکن تھی۔ مستنصر حسین تارڑ، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، شہزاد احمد شہزاد، نجیب احمد، خالد احمد، کشور ناہید، خدیجہ مستور اور احمد ندیم قاسمی سے پہلی پہلی ملاقاتیں انہی تقریبات میں ہوئیں جبکہ عباس نجمی، ڈاکٹر ناہید شاہد، لطیف ساحل، ندیم گیلانی اور بہت سے آج کے نامور ادیب و شاعر ہمارے ہم عصروں میں شامل ہیں۔ جب سے اب تک اس تعلیمی درسگاہ نے ہی نہیں، یہاں کی ادبی و ثقافی سرگرمیوں نے بھی بہت سے مختلف ادوار دیکھے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ افراتفری اور معاشی و سیاسی بحران کے دور میں اس ادارے کے صاحب ِ ذوق علم و ادب کے پرستار اساتذہ نے ہمت کر کے ’’لٹریری سوسائٹی‘‘ بنا کر ماضی کی یاد تازہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ گزشتہ دنوں اس سوسائٹی کے زیراہتمام کالج کے سابق استاد ممتاز شاعر گلزار بخاری کے اعزاز میں ایک دوپہر منائی۔ صدارت جاپان کے اوساکا یونیورسٹی کے استاد پروفیسر ڈاکٹر مرغوب حسین طاہر نے کی جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر رانا مجاہد حسین نے ادا کیے۔
گلزار بخاری کی شاعری پر ڈاکٹر ارشد اقبال ارشد، ناصر بشیر، عارف کلیم، شفیق احمد خاں نے موضوعات فکر، رجحانات پر مختلف زاویوں سے سیر حاصل گفتگو کی یعنی اس تنقیدی و شعری نشست کو ایک مثبت کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔ مقررین نے فکر، سوچ، اندازِ بیان اور الفاظ کے چنائو کو زبردست داد دیتے ہوئے کہ گلزار بخاری نے ستر کی دہائی سے لے کراب تک جتنی بھی شاعری کی وہ بامقصد ہی نہیں، اس قدر بھرپور ہے کہ کوئی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے غزل، نظم، رباعی، مرثیہ، آزاد نظم، جدید غزل، ہر میدان میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ پوری صلاحیتوں اور ذمہ داری سے اپنا منفرد مقام بنایا۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن میں ایک نعتیہ اور اس کاکوئی شعرآقائے دو جہاں ﷺ کی سیرت و عمل سے خالی نہیں بلکہ اس میں نسخۂ کیمیا قرآن حکیم اور افکار نبویﷺ کی خوشبو ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس موقعے پر گلزار بخاری کی پنجابی شاعری بھی زیربحث آئی۔ مقررین کا کہنا تھا ماں بولی پنجابی سے بھی انصاف ہونا چاہیے۔ اب تیسرا مجموعہ پنجابی کا ہونا چاہیے۔ تقریب میں صفدر علی کاظمی اور حسنین مظہری نے کلام گلزار بخاری اور مرغوب حسین طاہر ترنم سے سنا کر بھی داد حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صاحب صدر مرغوب حسین طاہر کی فرمائش پر گلزار بخاری نے بھی اپنا کلام ترنم سے سنایا حالانکہ وہ ان دنوں فالج جیسی بیماری کا شکار ہیں۔ خطبۂ صدارت میں ڈاکٹر مرغوب حسین طاہر نے گلزار بخاری کی شاعری کے مختلف پوشیدہ پہلوئوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ وہ صاحب اسلوب شاعر ہیں اور جوانی میں ان کا ترنم اس قدر خوبصورت تھا کہ خوش گلوئی کے باعث کلام و بیان اور فکروسوچ پر اس طرح توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے لیکن کسی بھی میدان میں اصل کو نقل سے مات نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ گلزار کی صلاحیتوں اور شاعری کا اعتراف کرنا پڑا۔ لٹریری سوسائٹی مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے ایک ایسے استاد شاعر کی پذیرائی کی جو اس کا مستحق تھا۔ اس طرح کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے تاکہ ادب کی خدمت کا وہ سلسلہ جاری رہ سکے جو ہماری میراث ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں نئی نسل سوشل میڈیا کی جنگ میں کتاب اور حقیقی ادب سے دور ہو چکی ہے۔ اس دوری کو ایسی مثبت سرگرمیوں سے ختم کیا جا سکتا ہے جو ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
خوبصورت بات ایک اور تھی کہ دوپہر کو ہونے والی اس تقریب میں شرکاء کی تعداد بہت مناسب تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے تحت قائم کی جانے والی ’’لٹریری سوسائٹی‘‘ کی ضرورت اور اہمیت کو اساتذہ کس حد تک وقت کا تقاضا سمجھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اچھی گفتگو یقیناً نسلوں کی پرورش ہی نہیں،معاشرتی روایات اور فلاحی ذمہ داری کی پاسداری کا سبب بنتی ہے جس کے نتیجے میں رواداری اور برداشت بھی پروان چڑھتی ہے اس موقعے پر گلزار بخاری نے اپنی میزبان سوسائٹی اور ڈاکٹر ارشد اقبال ارشد نے شرکاء اور مہمانِ خاص گلزار بخاری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ خبر بھی سنائی کہ دیال سنگھ کالج لٹریری سوسائٹی مستقبل میں بھی پوری ذمہ داری سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے گی جس میں شرکاء کا تعاون اشد ضروری ہے۔ آخر میں پیٹ پوجا کا بھی اہتمام کیا گیا اور مہمانوں کی چائے سے تواضح بھی کی گئی۔ میں سمجھتا ہوں موجودہ ’’ادب بے زار‘‘ دور میں ایسی تقریب چراغ سے چراغ جلانے کی تحریک پیدا کر سکتی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کا ماضی ادب و ثقافت اور روایات کے حوالے سے مضبوط ہے۔ جدید تعلیم اور اسے نجی شعبے کے حوالے کرنے سے سب سے زیادہ نقصان تربیت کے حوالے سے ہوا، مہنگی تعلیم اور ایک دوسرے پر برتری کی خواہش نے نئی نسل کو کتابوں کے ایسے بوجھ تلے دبا دیاکہ انہیں سر اٹھانے کی مہلت ہی نہیں، کسی تقریب اور کھیل کے میدانوں میں جانا ناممکن ہے۔ موجودہ حالات کے تقاصےبھی کچھ ایسے ہی ہیں لیکن گرائونڈ کی سرگرمیاں اگر جسمانی صحت و تندرستی بخشتیں ہیں تو غیر نصابی ادبی و ثقافتی ذہنی آسودگی کا باعث بنتی ہیں۔ زمانہ آمریت میں جنرل ضیاء الحق نے طلباء یونیز پر پابندی لگائی، لیکن کسی جمہوری حکومت نے اسے ہٹانا مناسب نہیں سمجھا حالانکہ یونین ،انتظامیہ اور طلباء کے درمیان پل کا درجہ رکھتی تھی اس نقصان میں سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا حصّہ ڈالا اور پھر سب کچھ محدود ہو کر رہ گیا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے حلف اٹھاتے ہی پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بناء پر راجہ پرویز اشرف، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور عمران خان بھی یہ کام نہیں کر سکے۔ میرے خیال میں ایک مضبوط، روشن خیال، اور فعال مستقبل کے لیے اپنے کل نئی نسل کو ادب و ثقافت ، تہذیب و تمدن اور مثبت روایات سے روشناس کرانے کا ایک ہی احسن طریقہ ہے کہ درس گاہوں میں دیال سنگھ کالج کی طرح لٹریری سوسائٹیاں بنائی جائیں اور جہاں پہلے سے موجود ہوں انہیں سربراہوں کی سرپرستی میں فعال کیا جائے کیونکہ غیر نصابی سرگرمیاں کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ گلزار بخاری کے اعزاز میں منائی گئی اس دوپہر کو ایک اچھی اور بھرپور روایتی ادبی تقریب کہا جا سکتا ہے لیکن اس میں نئی نسل یعنی طلباء و طالبات کی کمی محسوس کی گئی یقیناً ایسی ادبی تقریبات میں ان کی موجودگی کو بھی یقینی بنانا ہو گا ورنہ مثبت نتائج نہیں نکلیں گے۔ بہرکیف بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا ذمہ داروں کو نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے تاہم موجودہ دور میں لٹریر ی سوسائٹی ، دیال سنگھ کالج کی یہ تقریب غنیمت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button