
سی ایم رضوان
آج 26 فروری ہے۔ 26 فروری 2009 کو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اہم واقعہ رونما ہوا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس ایوان سے باہر منعقد ہوا تھا۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں جمعرات کی صبح بہت سے لوگوں نے یہ نظارہ دیکھا تھا کہ صوبائی اسمبلی کے دروازوں کو تالے لگا کر بند کر دیا گیا تھا اور کسی ایم پی اے یا کسی دیگر شخص کو اسمبلی کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اسمبلی کے اندر داخلے کی اجازت نہ پانے والوں میں اسی اسمبلی کے سپیکر رانا محمد اقبال بھی شامل تھے۔ اسمبلی کو چاروں طرف سے پولیس کی بھاری نفری نے گھیر رکھا تھا اور اسمبلی کو جانے والے راستوں پر بھی اسمبلی آنے والوں سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی۔ ان حالات میں پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے کچھ ارکان صوبائی اسمبلی کی عمارت کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ انہوں نے اسمبلی کے باہر ایک کرسی رکھی اس کرسی پر سپیکر کو بٹھایا گیا۔ ارکان اسمبلی زمین پر بیٹھ گئے اورغیر متعلقہ افراد کو ذرا فاصلے پر جانے کیلئے کہہ دیا گیا۔اس طرح پارلیمانی تاریخ کے اس منفرد اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔ اس وقت کی پنجاب اسمبلی کے سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ ? نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ یہ سب کچھ اس وجہ سے کرنا پڑا ہے کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر نے ارکان اسمبلی کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کے احکامات جاری کئے ہوئے ہیں۔ اسمبلی کی سیڑھیوں اور پارک میں ہونے والے اس اجلاس میں اس واقعہ کے خلاف ایک تحریک استحقاق بھی منظورکی گئی۔ اس کے علاوہ ایک قرارداد کے ذریعے صدر زرداری کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس اجلاس میں ایمرجنسی اٹھانے اور شریف برادران کی نااہلی کے فیصلے کو مسترد کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ادھر پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی رہنما راجہ ریاض کا موقف تھا کہ یہ مسلم لیگ نون کے ارکان اسمبلی کا اجلاس نہیں تھا بلکہ یہ لوگ ایک سیاسی جلسہ کرنا چاہتے تھے۔ اس پر گورنر پنجاب نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے انہیں روکا اور ان سے کہا کہ جب میں اجلاس بلاؤں گا اس وقت آپ آ کر بڑے شوق سے اظہار خیال کر سکتے ہیں لیکن اگر جلسہ کرنا ہے تو وہ سیڑھیوں پر کر لیا جائے کیونکہ ہاؤس کے اندر ایسا کرنے کی قانون اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت کی پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رانا مشہود احمد خان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اسمبلی کا اجلاس قواعد و ضوابط کے مطابق قانونی طریقے سے بلوایا گیا تھا لیکن گورنر پنجاب نے اس اجلاس میں رکاوٹیں ڈال کر نہایت غلط مثال قائم کی۔
پنجاب اسمبلی کی عمارت کو تالے لگائے جانے کے حوالے سے انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی عمارت کو تالے لگانا ایک غیر جمہوری فعل ہے ان کے مطابق ان اقدامات سے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کی بو آ رہی ہے۔ اس موقع پر ارکان اسمبلی نے اجلاس کے غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی ہونے کے بعد پنجاب اسمبلی کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ جس میں اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔سیاسی مخالفین کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا اور مینڈیٹ کے باوجود اس کو حکومت کرنے کا حق نہ دینا ہمارے سیاستدانوں کی پرانی روایت ہے اور اس روایت کو مزید مضبوطی، تسلسل اور مزید کرختگی دینے کیلئے اکثر غیر مرئی قوتوں کا حصہ بھی بقدر جثہ اور حسب حال شامل ہوتا ہے۔ عوام نے دیکھا کہ جس طرح 2009 میں میاں برادران کو ان کے پنجاب میں مینڈیٹ کے باوجود نااہل کیا گیا اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس اس وقت پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں میں کرنا پڑا پچھلے سال اسی طرح دو مرتبہ پنجاب اسمبلی پر تالے لگے اور دونوں بار مسلم لیگ نون کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوٹلوں میں منعقد کرنا پڑا اور پھر بالآخر عدالت عالیہ کے حکم پر پرویز الہٰی عدالتی وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے۔ ان کی وزارت اعلیٰ کے ابھی چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ ان کے’’غالب‘‘ اتحادی عمران خان کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں خود ایک سیاستدان ہوتے ہوئے بھی توڑنے کا خیال آگیا۔ پس انہوں نے جلد ہی یہ دونوں اسمبلیاں توڑ دیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ دونوں اسمبلیاں توڑ دینے کے ساتھ ہی وہ قومی اسمبلی سے بھی اپنی سیاسی جماعت کے ممبران قومی اسمبلی کے استعفے منظور کروالیں گے۔ پھر وفاقی حکومت کو مجبوراً پورے ملک میں جنرل انتخابات کروانے پڑ جائیں گے، لیکن اس کے برعکس پھر یہ ہوا کہ کسی نے انہیں قومی اسمبلی کے استعفوں سے باز رہنے اور قومی اسمبلی میں واپس جانے کا مشورہ دے دیا۔ بات ان کے دل کو لگی اور انہوں نے دوسری فرصت میں ہی قومی اسمبلی میں واپس جانے اور اپوزیشن لیڈر بننے کا ارادہ ظاہر کر دیا اب وفاقی حکومت یعنی پی ڈی ایم قیادت ان کے پیدا کئے گئے خطرے سے نبرد آزما ہونے کا لائحہ عمل بنا چکی تھی۔ لہٰذاسپیکر قومی اسمبلی نے ان کے قومی اسمبلی کے تمام ممبران کے استعفے منظور کر لیے۔ اب عمران خان بضد ہیں کہ وہ کم از کم ان دونوں صوبوں میں ضمنی انتخابات کروانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے اور اپنی مقبولیت پر انہیں بے حد یقین ہے کہ وہ دوبارہ ان دونوں صوبوں میں حکومت بنالیں گے۔ یوں ان کی مقبولیت کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ چاہے چند ماہ بعد پھر جنرل الیکشن میں بھی جانا پڑے۔ اس کیلئے انہوں نے ایک طرح سے دباؤ ڈال کر دونوں صوبوں میں نگران صوبائی حکومتیں بھی قائم کروادی ہیں اور ضمنی انتخابات کیلئے مکمل تیار بیٹھے ہیں حالانکہ اگر اب ان دونوں صوبوں میں ضمنی انتخابات ہو گئے تو بھی نہ صرف ملکی معیشت بلکہ خود عمران خان کی سیاست کیلئے یہ نیک فال نہیں ہو گا لیکن وہ اور ان کے ’’ معاونین‘‘ ہر قیمت پر ایسا کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کھل کر بات کر چکے ہیں کہ کچھ جج مسلم لیگ نون کے خلاف فیصلے دیتے ہیں مسلم لیگ نون کو ان پر کوئی اعتماد نہیں لہٰذا ان ججوں کو چاہیے کہ وہ نون لیگ کے کیسز سے علیحدہ رہیں۔ بات تو کسی حد تک ٹھیک ہے کہ اگر فیصلہ کرنے والا جانبدار ہو تو فیصلہ مشکوک ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود دوسرے ہی روز عدالت عظمیٰ نے دونوں صوبوں میں ضمنی انتخابات کیلئے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے انہی ججز کو لارجر بینچ کا حصہ بنا دیا ہے جو کہ نون لیگ یا پی ڈی ایم کے خلاف ہم خیال ہیں۔
سرگودھا میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ چار جج اور ایک (ر) جرنیل، یہ پانچ کا سازشی ٹولہ ملکی بدحالی کا ذمہ دار ہے۔ یہاں تک کہ مریم نواز نے سکرین پر جنرل فیض، جسٹس (ر) ثاقب نثار، جسٹس ر کھوسہ اور دو حاضر سروس ججز کی تصویریں چلوا دیں اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے گند کا ٹوکرا پھینک دیا تو ججز نے اٹھا لیا۔مریم نے کہا کہ ہمارے کان پک گئے سن سن کر کہ سازش ہوگئی سازش ہوگئی، حالانکہ سازش گھڑی چور کے خلاف نہیں نوازشریف کے خلاف ہوئی تھی، نوازشریف کے خلاف سازش میں یہی پانچ کا ٹولہ شامل تھا، یہی پانچ کا ٹولہ پاکستان کی بدحالی کا ذمہ دار ہے۔ جس کا سرغنہ جنرل (ر) فیض حمید تھا۔ مریم نواز نے یہ بھی یاد دلایا کہ جب 2014 کا عمران خان کا دھرنا ناکام ہو گیا تو عدلیہ میں سے جج اٹھائے گئے تھے، جو جو کرپٹ جج تھا ان کے ساتھ تھا، پھر مسلم لیگ نون کے سارے لیڈروں کو چن چن کر نااہل کیا گیا، جنرل فیض کو آرمی چیف بننے کیلئے مہرے کی ضرورت تھی، جب مارچ ناکام ہوا تو جسٹس کھوسہ نے کہا کہ پانامہ کا کیس میرے پاس لے کر آؤ۔ مریم کا کہنا تھا کہ ایک جماعت کے سربراہ نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے فیض حمید سے پوچھا نواز شریف کے ساتھ زیادتی کیوں کر رہے ہو تو فیض حمید نے کہا تھا کہ نواز شریف کا قد بہت بڑا ہو گیا ہے اس کو کم کرنا ہے، اب یہ فیض کی باقیات ہیں، جنرل فیض نے اربوں روپے ملک سے باہر منتقل کیے، اپنے اربوں کے پلازے کھڑے کر لیے اور پلاٹ لے لیے ان کو کیا پتا کہ پاکستان کہاں پہنچ گیا۔ کیا سپریم کورٹ کے کچھ ججز اب ایک فتنے کو تھپکی دیں گے، باقی اداروں نے عمران خان کے بارے میں سمجھ لیا کہ یہ فتنہ ہے، لیکن کیا اب اسے سپریم کورٹ کے چند ججز کی جانب سے ریسکیو کیا جائے گا، اگر ایسا ہوا تو پاکستان کہاں جائے گا۔ جب سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے اسی طرح کی سیاسی افراتفری اور بحرانوں سے دوچار چلا آرہا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں کے سیاستدانوں میں مکالمے اور ملک کی خاطر یک جہتی کی سخت ترین کمی ہے۔ اب ایک نو آموز سیاست دان ملک کو شدید ترین بحران سے دوچار کرنے جارہا ہے اور خدشہ ہے کہ اب ادارے ایک دوسرے کے خلاف لڑیں گے جس سے بحران مزید بڑھے گا لیکن ساتھ ایک امید بھی ہے کہ جو خنجر بغلوں میں تھے وہ اب ہاتھوں میں نظر آرہے ہیں شاید اس سے کوئی فیصلہ کن صورتحال سامنے آجائے۔