ColumnZameer Afaqi

پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال دلوں کا مسیحا مگر؟ ۔۔ ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں قائم امراض دل کا بڑا اور جدید ہسپتال ہے جس میں دل کے جملہ امراض کا علاج بہترین ڈاکٹرز کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔ یہ پنجاب میں امراض دل کا سب سے بڑا جبکہ ملک کا دوسرا بڑا ہسپتال ہے جو553 بیڈز پر مشتمل ہے اس کے علاوہ پچیس سے لیکر پچاس ریلیکس صوفہ بھی رکھے گئے ہیں۔اس ہسپتال کا سنگ بنیاد 1989 میں رکھا گیا تھا۔پاکستان میں میڈیکل کے شعبے میں لاہور شہر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔تمام سرکاری ہسپتالوں کی خدمات قابل اعتراف ہیں۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی نہ صرف پنجاب،بلکہ ملک بھر سے آنے والے مریضوں کیلئے شفایابی کا باعث ہے۔یہ دل کے مریضوں کا خاص ہسپتال ہے۔مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافے کے پیش نظر حکومت نہ صرف پنجاب ،بلکہ پاکستان کے مختلف شہروں میں اسی طرز کے دل کے ہسپتال بنا رہی ہے۔اس سے متعلقہ شہر اور گردونواح کے لوگ اپنے ہی شہر میں بالکل پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور کی طرز پر سہولت حاصل کرسکیں گے۔کچھ شہروں میں تو باقاعدہ آغاز بھی ہو چکا ہے۔اگرچہ ملک کے تمام بڑے شہروں کے دیگر ہسپتالوں میں دل کے امراض کے شعبہ جات موجود ہیں۔ لیکن پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی دل کے امراض کا مکمل ہسپتال ہے۔اسی میں مریضوں کا علاج چار طرح کی کیٹگری میں کیا جاتا ہے۔پہلی قسم کی کیٹگری میں مریضوں کو مکمل طور پر پرائیویٹ خدمات حاصل ہوتی ہیںاور بغیر انتظار کئے ان کو علاج معالجے کی تمام سہولتیں حاصل ہوجاتی ہیں۔ اس میں ڈاکٹروں کو پرائیویٹ خدمات کا علیحدہ سے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ہسپتال انتظامیہ اس سے حاصل ہونے والی رقم نہ صرف ہسپتال کی توسیع، انتظامی امور کی بہتری کیلئے خرچ کرتی ہے، بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم کو غریب مریضوں کے علاج معالجے کیلئے بھی بچا کررکھتی ہے۔دوسری قسم کی کیٹگری میں مریضوں کو کچھ انتظار بھی کرنا پڑتا ہے اور علاج پر آنے والے اخراجات کا کچھ حصہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔تیسری کیٹگری میں سرکاری ملازمین کا علاج کیا جاتا ہے، جس کے اخراجات متعلقہ محکمہ ادا کرتا ہے۔چوتھی اور آخری کیٹگری میں وہ لوگ آتے ہیں،جن کی خدمت کیلئے خاص طور پر یہ ہسپتال بنایا گیا ہے۔اس کیٹگری کو’’Poorکیٹگری‘‘ کا نا م دیا گیا ہے مگراِسے بدل کر کوئی بہتر نام رکھا جانا چاہیے،جس میں انتہائی ضرورت مند اور بے وسیلہ افراد آتے ہیں لیکن افسوس ناک امر یہ ہے اس کیٹیگری میں اچھے خاصے متمول،صاحب حیثیت لوگ بھی اپنا نام درج کرانے میں کوئی شرم یا عار محسوس نہیں کرتے جس سے مستحقین کا حق مارا جاتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اس کیٹگری میں آنے والے مریض کسی بھی طرح کی خدمات کے حصول کیلئے بہت لمبا انتظار کرتے ہیں۔مختلف طرح کے ٹیسٹوں جن میں انجیوگرافی، انجیو پلاسٹی ایکو گرافی ،ای ٹی ٹی جیسے اہم ٹیسٹ اور دل کے آپریشن وغیرہ کیلئے بھی بار بار چکر لگانے پڑتے ہیں۔
جب سے اس ہسپتال کا انتظام و انصرام چیف ایگزیکٹیو آفیسر پروفیسر بلال محی الدین،ایم ایس محمد تحسین نے سنبھالا ہے اور ان کی معاونت ڈاکٹر محمد عامر رفیق اے ایم ایس انچارج ایمرجنسی کر رہے ہیں پی آئی سی کے معاملات کافی بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ایمرجنسی میں ایک ہزار ،او پی ڈی میں تین ہزار پانچ سومریض روزانہ آرہے ہیں، روزانہ 10 سے 12 کارڈیک سرجری ،پرائمری PCIs 10 سے 15 روزانہ (دل کے دورے کے پہلے 90 منٹ میں انجیو پلاسٹی کی جاتی ہے) روزانہ 150 انجیوجینیسیس،روزانہ 50 سے 60 انجیو پلاسٹس کیے جاتے ہیں ،150 ایکو کارڈیو گرافی روزانہ کی جارہی ہیں۔روزانہ 20 سے 30 مریضوں کا تھیلیم سکین کیا بھی کیا جا رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پرقریباً 30 CT انجیوگرافی بھی کی جارہی ہیں۔ جبکہ کچھ نئے منصوبوںپر بھی کام جاری ہے جس میں ،دعوت خانہ کی تعمیر ،پارکنگ کمپلیکس ،بجلی کی بچت کیلئے سولرائزیشن ،ایک اور وارڈ بنا کر مزید بستر،سٹور کمپلیکس قابل زکر ہیں۔
یہ بھی ایک اچھی خبر ہے جس کا کریڈیٹ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو جاتا ہے جو عوام کوصحت کی بہترسہولیات فراہم کرناچاہتے ہیں جنہوں نے دل کے امراض میں مبتلامریضوں کو ریلیف دینے کیلئے بڑااورانتہائی احسن فیصلہ کیاہے اس ضمن میں ایک اہم اجلاس میں مندرجہ زیل فیصلے سامنے آئے ہیں،پنجاب کے تمام دل کے ہسپتالوں میں مریضوں کو ہفتے کے ساتھ دن چوبیس گھنٹے پرائمری انجیوپلاسٹی کی سہولت دینے کیلئے اقدمات کا آغاز کر دیا گیاہے۔صوبائی وزیر صحت ڈاکٹرجاویداکرم کی زیرصدارت محکمہ سپیشلائزڈہیلتھ کئیراینڈمیڈیکل ایجوکیشن کے اہم اجلاس میں سیکرٹری صحت پنجاب ڈاکٹر احمد جاویدقاضی،سپیشل سیکرٹری سید واجدعلی شاہ،ایڈیشنل سیکرٹری خالدپرویز،ڈپٹی سیکرٹری ڈاکٹر عائشہ، سی ای او پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پروفیسرڈاکٹربلال محی الدین،ایگزیکٹو ڈائریکٹر راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پروفیسر ڈاکٹرانجم جلال،ایم ڈی چلڈرن ہسپتال لاہورپروفیسر ڈاکٹرمحمدسلیم،ایم ایس جناح ہسپتال ڈاکٹر امجد، ایم ایس پی آئی سی ڈاکٹر تحسین، پاکستان سوسائٹی آف انٹرونیشنل کارڈیالوجی سے زبیراکرم اور وڈیولنک کانفرنس کے ذریعے فیصل آبادانسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی،ایم ایس پی آئی سی بہاول پور،پرنسپل ڈی جی خان میڈیکل کالج،شیخ زیدہسپتال رحیم یار خان، وائس چانسلرکنگ ایڈورڈمیڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹرمحمودایاز ودیگر افسران نے شرکت کی۔نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نے پہلے کابینہ اجلاس میں ہی دل کے مریضوں کو پرائمری انجیوپلاسٹی کی سہولت 24/7 دینے کافیصلہ کیا تھا۔ پوری دنیا میں دل کے مریضوں کے علاج کیلئے پرائمری انجیوپلاسٹی جدیدٹیکنالوجی ہے۔پنجاب کے تمام دل کے ہسپتالوں کی انتظامیہ کو اس حوالے سے فوری طوری پر اپنی سفارشات بھیجنے کا بھی کہا گیا ہے تاکہ پنجاب کے دل کے ہسپتالوں میں مریضوں کو پرائمری انجیوپلاسٹی کی سہولت 24/7 دینے کیلئے تمام تروسائل دئیے جا سکیں۔دل کے امراض میں مبتلامریضوں کے علاج ومعالجہ میں پرائمری انجیوپلاسٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں 7، شیخ زیدہسپتال رحیم یارخان میں ایک، فیصل آبادانسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں چار، بہاول میں دواور ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں چارمشینیں مکمل فعال ہیں۔ پنجاب کے دل کے ہسپتالوں میں مریضوں کو پرائمری انجیوپلاسٹی کی سہولت 24/7 دینے کے حوالے سے موثرآگاہی مہم بھی چلائی جائے گی۔نگران حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانے والی صحت کی سہولتوں کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے پی آئی سی کی موجودہ انتظامیہ انتھک محنت کر رہی ہے لیکن افسوس ناک امر یہ بھی ہے کہ ایک انتہائی احساس نوعیت کے اس ہسپتال میں چھپی کالی بھیڑیں جن کی کرپشن، بد انتظامی اور نا اہلیوں کے خلاف انکوائریاں چل رہی ہیں وہ خود کو بچانے کے لیے ہسپتال کی ساکھ کو ہی دائو پر لگانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے پائے جاتے ہیں جن میں سر فہرست، اپنے ہی افسران کے خلاف مختلف محکموں میں درخواستیں دینا، بے بنیاد خبریں شائع کرانا جیسے قبیح عمل سے ایک طرف ہسپتال کی ساکھ دائو پر لگا دی جاتی ہے تو دوسری جانب دل کے مرض میں مبتلا مریضوں کے لیے بھی پریشانی پیدا ہوتی ہے، کیونکہ اکثر سینئر ڈاکٹرز صاحبان اور افسران کو عدالتوں اور محکموں کے چکر لگانے پڑتے ہیں جس سے وہ اپنے فرائض منصبی صحیح طرح سر انجام نہیں دے پاتے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان ’’درخواست بازوں‘‘ کو نکیل ڈالی جائے جو ساری خرابی کی جڑ ہیں۔اس ضمن میںایم ایس ڈاکٹر محمد تحسین کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں اس وقت آکسیجن نیٹرز کی شدید قلت موجود ہے آکسیجن نیٹرز نہ ملے تو دل کی سرجری رک جائیں گی،جس کا نقصان بہر حال دل کے مریضوں کو ہو گا اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کی احساسیت کو دیکھتے ہوئے آکسیجن نیٹرز کی کمی کو فوری پورا کیا جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button