ColumnImtiaz Aasi

قابض اشرافیہ اور عوام .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں غریب دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہے اور اشرافیہ حکومتی مراعات سے مستفید ہورہی ہے۔ سیاسی جماعتوں پر قابض چند خاندانوں نے سیاسی جماعتوں کو لمیٹڈ کمپنیاں بنایا ہوا ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں وہ ان کے ذاتی مفادات کی مرہون منت ہوتی ہیں۔
گذشتہ چند سالوں میں کئی ارب روپے کی سبسڈی امراء طبقے کو دی گئی ۔سیاسی جماعتوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کاتعلق بڑے بڑے کاروباری طبقے سے ہوتا ہے، حکومت میں آنے کے بعد جو بھی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ان میں ان کا ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ عوام کی بدقسمتی یہ ہے انہیں کوئی لیڈ کرنے والا نہیں ملا ہے ۔عمران خان ہیں انہیں انتخابات کے سوا کوئی بات نہیں سوجھتی۔سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلیمان نے پندرہ بیس امراء کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال کر کئی سو ارب ڈالر ان سے وصول کرکے نئی مثال رقم کی ہے۔ عمران خان کو انتخابات کی بجائے سبسڈی سے مستفید ہونے والے امراء طبقے کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے تھا۔کہتے ہیںملک سیاسی اور معاشی بحران کاشکار ہے جس کی سب سے بڑی وجہ لوٹ مار اور ذاتی مفادات کے تحفظ کا نتیجہ ہے۔ملک میں جب تک سیاسی اور معاشی اصلاحات نہیں ہوتیں اس وقت تک ہمارا ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔یہ بات ہمارے لیے باعث شرم ہے کہ آئی ایف ایم کی ایم ڈی کو کہنا پڑا ہے کہ امیر طبقے سے ٹیکس وصول کیا جائے اور ان کو ملنے والی سبسڈی کو ختم کیا جائے۔ غریبوں سے ہمدردی رکھنے والے وزیراعظم شہباز شریف کے لیے بڑا امتحان ہے اور دیکھتے ہیں وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔کتنی حکومتیں اقتدار میں آئیں کسی کو اس طرف خیال نہیں آیا انہیں خیال آ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ سبسڈی سے مستفید حکمران طبقہ ہوتا اور ہو رہا ہے۔
ملک دیوالیہ ہونے کو ہے وزیراعظم گریڈ سترہ سے بائیس کے افسران کوایک سو پچاس فیصد ایگزیکٹو الائونس کی منظور ی دے رہے ہیںیعنی تنخواہ سے دوگنا الائونس صرف سیکرٹریٹ میں کام کرنے والے افسران کو ملے گا ۔حیرت ہے کیا ملک کے باقی سرکاری محکوں میں کام کرنے والے افسران اس ملک کے شہری نہیں ؟۔جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں اشرافیہ کے جن لوگوں سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں انہی کو نوازا جاتا ہے۔معیشت دانوں کی رائے میںملک کا اسی فیصد سرمایہ چند مخصوص لوگوں کے پاس ہے۔
سیاسی جماعتوں میں ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگوں کو شامل کرکے اقتدار میں آنے کے بعد انہی خاندانوں کو نوازا جاتا ہے جس سے ملک کا سرمایہ چند مخصوص خاندانوں تک محدود ہو گیا ہے۔ ہماری چھ عشروں سے زیادہ زندگی میں اس طرح کا سیاسی اور معاشی بحران دیکھنے میں نہیں آیا جس طرح کے بحران کا شکار ہمارا ملک ہے ۔تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے سوا کوئی جماعت الیکشن کے حق میں نہیں ہے ۔وہ ہو بھی نہیں سکتیں کیونکہ مسلم لیگ نون ،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے پاس اہم وزارتیں ہیں۔خیبر پختونخوا میں برسوں سے اقتدار سے محروم رہنے والی جے یو آئی کو صوبے کی گورنری سے نواز گیا ہے ۔یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کا گورنر مالی لحاظ سے بہت امیر ہوتا ہے کیونکہ بیرونی ملکوں سے سابقہ فاٹا کی ترقی کے لیے ملنے والے تمام فنڈز اسی کے پاس ہوتے ہیں۔
دو صوبوں کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد امید تھی کہ صوبوں میں آئین کے مطابق مقررہ وقت میں الیکشن ہوںگے۔ الیکشن کمیشن الیکشن کی تاریخ تجویز کرکے اپنی ذمہ داری سے بری الزمہ ہو گیا۔خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کا جواز اور پنجاب میں گورنر نے وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر دستخط نہیں کئے، کا جواز بنا کر الیکشن سے راہ فرار کی گئی ۔لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کرانے کا حکم دیا تو فیصلے کے خلاف اپیل میں چلے گئے۔اب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئینی اختیار بروئے کار لاتے ہوئے الیکشن کی تاریخ دی ہے تو دونوں اسمبلیوں کے سپیکر صاحبان سپریم کورٹ سے رجوع کر رہے ہیں غرضیکہ الیکشن کسی صورت نہ کرانے کی ٹھان لی ہے۔
ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات نہ ہونے سے بڑا ڈیزاسٹر کیا ہوگا۔صدر مملکت کا عہدہ عزت واحترام کا متقاضی ہوتا ہے جس طرح کی زبان صدر مملکت کے لیے استعمال کی جا رہی ہے افسوس ہی کیاجا سکتا ہے۔ویسے تو سیاست دان آئین کی گردان کرتے نہیں تھکتے جب آئین پر عمل درآمد کی بات ہو تو اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے۔نیب ترامیم کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا اب الیکشن کے انعقاد کا معاملہ عدالت عظمیٰ کے سر ڈالا گیا ہے۔آئین اور آئینی اداروں کی موجودگی کے باوجود سیاست دانوں کا عدالت عظمیٰ کی طرف دیکھنا سمجھ سے بالاتر ہے۔بس عمران خان کا خوف طاری ہے الیکشن ہوئے تو کہیں وہ اقتدار میں نہ آجائے۔
عمران خان کی مقبولیت کا مظاہرہ لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے وقت لوگوں نے دیکھ لیا ہے عوام بغیر کال دیئے دیوانہ وار اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔مریم نواز نے نواز شریف کے وطن واپس آتے ہی ملک کے حالات سدھر جانے کی نوید دی ہے ساتھ ان کا کہنا ہے پی ٹی آئی کے لوگ مسلم لیگ نون میں آنے کے لیے منتیں کر رہے ہیں۔ چلیں مان لیا یہ سچ ہے تو الیکشن سے راہ فرار کیسی ہے؟سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی جماعت اتنی مقبول ہے تو عام انتخابات بعد کی بات ہے ضمنی الیکشن سے پہلو تہی کیوں ہے؟پی ٹی آئی کے لوگوں کو گرفتار کرکے انہیں ہمدردیاں بدلنے کے لیے دبائو ڈالا جا رہا ہے ۔
نیب کے چیئرمین آفتاب سلطان اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے جن وجوہات کی بنا پر انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے حکمرانوں کے لیے باعث شرم ہے۔کوئی بھی باضمیر اور راست باز افسر قانون سے ہٹ کر کام نہیں کرتا یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض طالع آزماء اپنے مفادات کی خاطر سیاست دانوں کے حسب منشاء قانون اور قاعدے سے ہٹ کر کام کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔بہرکیف جب تک اقتدار پر قابض چند خاندانوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا ہمارے ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button