Columnمحمد مبشر انوار

مؤقف .. محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

اپنے گذشتہ کالم’’حیلے بہانے‘‘ میں لکھا تھا کہ اس وقت دو صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات کے حوالے سے حکومتی آئینی و سیاسی داؤ پیچ کا مقصد، انتخابات سے فرار ہے۔ بظاہر یہ میری رائے ہے جبکہ آئینی ماہرین کی اکثریت بھی اس حوالے سے متفق نظر آتی ہےکہ تحلیل شدہ اسمبلیوں کے انتخابات، آئین کی رو سے، نوے دن میں ہونے چاہئیں، البتہ عدالت عالیہ کے حکم پر گورنر پنجاب اورالیکشن کمیشن کی مشاورت سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ بظاہر اس مشاورت اور اس کے نتیجہ میں انتخابات کی تاریخ دینے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے لیکن اتحادی حکومتی اس وقت کسی بھی صورت انتخابات کا انعقاد نہیں چاہتی، خواہ اس میں اپنی متوقع شکست کا خوف سمجھا جائے یا منصوبہ سازوں کی منصوبہ بندی کی تکمیل ہو، عام انتخابات کو بہرکیف کھینچنا مقصود ہے۔ اس عدالتی حکم پر، گورنر پنجاب کی جانب سے، توقع اور سیاسی پس منظر کے عین مطابق،برادرم شہزاد شوکت نے انٹرا کورٹ اپیل بھی عدالت میں دائر کر دی ہے اور یہ مؤقف اپنایا ہے کہ چونکہ گورنر پنجاب نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پردستخط نہیں کئے لہٰذا نئے انتخابات کی تاریخ دینا ان کی ذمہ داری قطعی نہیں ہے تاہم عدالت کے حکم پر وہ الیکشن کمیشن سےمشاورت کر چکے ہیں۔ یوں گورنر پنجاب نے ایک طرف عدالتی حکم کی تعمیل بھی کر دی اور اپنی جماعت کے مؤقف کو بھی قائم رکھا، شنید تو یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ مشاورت بھی گفتند نشستن برخاستن سے زیادہ کچھ نہیں تھی کہ اصل مقصد عدالتی حکم کی تعمیل تھی ناں کہ آئین کی پاسداری۔ اس وقت صورتحال ایسی ہے کہ تمام متعلقہ ادارے، انتخابات کی ذمہ داری دوسرے ادارے پر ڈال کر بری الذمہ ہونے چاہتے ہیں لیکن ان کی حتیٰ المقدور کوشش یہی ہے کہ انتخابات کا انعقاد نہ ہو، اس میں خواہ انہیں آئین شکنی بھی کرنی پڑے تو خیر ہے کہ منصوبہ سازوں نے ماضی میں خال ہی آئین کی پاس داری کو مقدم رکھا ہے۔
برادرم شہزاد شوکت نے عبوری حکومت کے متعلق واضح طور پر کہا کہ گورنر نے عبوری حکومت سے حلف کے لیے اپنی آئینی ذمہ داری و تقاضہ پورا کیا ہے جبکہ انتخابات کی تاریخ دینے کے لیے آئین گورنر کو اس وقت پابند نہیں کرتا جب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر گورنر نے دستخط نہ کئے ہوں۔ ممکنہ طور پر یہ آئینی صورتحال ہو سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میںآئین کی شقوں سے کھیلنا یا اس میں موجود قانونی موشگافیوں سے راہ فرار اختیار مناسب ہے؟ قانونی ماہرین کی اکثریت متفق ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات آئین کے مطابق نوے دن کے اندر اندر ہونا لازمی ہیں بصورت دیگر متعلقہ ادارے اور ان کےسربراہان نہ صرف آئین شکنی کے مرتکب ہو جائیں گے بلکہ عبوری حکومتوں کی حیثیت بھی غیر آئینی ہو جائے گی لہٰذا اس پیچیدہ صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ادارے بالعموم جبکہ الیکشن کمیشن بالخصوص اپنی ذمہ داری کا احساس کرے اور ملک کو قوم کو اس صورتحال میں جانے سے بچائے۔ آئین صدر مملکت کو بھی یہ اختیار تفویض کرتا ہے کہ وہ آئین کی پاسداری میں،انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کریں اور اس مشاورت کےبعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے، بدقسمتی سے چیف الیکشن کمیشن نے گذشتہ برس اکتوبر، نومبر میں انتخابات کروانے کاعندیہ دیا لیکن موجودہ صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابات کروانے سے معذوری ظاہر کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن صدر مملکت سے مشاورت کا پابند ہے لیکن صدر کی جانب سے کی گئی دوسری کوشش میں الیکشن کمیشن مشاورت کے لیے گیا ہی نہیں ، جس کے بعد صدر مملکت نے انتخابات نو اپریل کروانے کی تاریخ دے دی ہے، جس پر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ صدر مملکت کا انتخابات کی تاریخ کا طریقہ اعلان مناسب نہیں اور انہیں وزیراعظم کو خط لکھنا چاہیےتھا، بہرطور صدر مملکت کے اس اعلان کے بعد ملکی سیاست کا درجہ حرارت مزید بڑھتا نظر آ رہا ہے۔
صدر مملکت کے اس اعلان کے بعد اگر ادارے اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں اور صدر مملکت کے احکامات کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہیںدیتے تو ریاست اور اس سیاسی نظام کی حالت کیا ہو گی؟ کیا اس کو کسی بھی صورت ایک نظام کہا جا سکتا ہے؟ کہ جہاں سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے نظر آ رہے ہیں، اگر عوام بھی اس صورتحال میں سڑکوں پر نکل آئی توکیا ملک کا امن و امان قائم رہ سکے گا یا یہ ریاست انار کی کا شکار ہو جائے گی؟ ذمہ داران کو اس حقیقت کا ادراک ہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ جبر، ضد اور انا سے اس ملک کو چلایا جا سکے گا؟ آئین کو سامنے رکھیں، آئینی ماہرین کی رائے کو سامنے رکھیں، توایسا محسوس ہوتا ہے کہ دلائل کے اعتبار سے فریقین آئینی موشگافیوں کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں اور ان کے مؤقف بظاہر درست ہیں لیکن نقصان ریاست اور عوام کا ہو رہا ہے۔ کیا ہمارے آئینی ماہرین یا ذمہ داران کسی بھی مرحلے پر اپنی انا، ضد اور آئینی موشگافیوں سے ہٹ کر ملکی مفادات کا مؤقف اپنا سکتے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button