Abdul Hanan Raja.Column

یہاں کون وجدانی بات کرے .. عبدالحنان راجہ

عبدالحنان راجہ

 

کرپشن اور قرضوں کی دلدل میں دھنسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے کروڑوں عوام کی نمائندہ قومی اسمبلی کا ایک اجلاس کم و بیش پانچ کروڑ میں پڑتا ہے۔ اجلاس میں قانون سازی تو کیا ہونی ہے ہاں مگر دنگا فساد، گالم گلوچ، الزام تراشی اور بدتہذیبی اپنا اعزازیہ حلال کرنے کے لیے خوب ہوتی ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس براہ راست نشر کرنے کے بھی قابل نہیں۔یہ بات غور طلب کہ کیا ملک کے نظام انصاف، تعلیمی و سماجی نظام کی بہتری، اداروں میں اصلاحات، ٹریفک قوانین میں جدت، عام شہری کے جان و مال کے تحفظ اور اس طرح کی اصلاحات بارے اسمبلی میں کتنی ابحاث ہوتی ہیں؟
کیا عوام ملک کی چار صوبائی اسمبلیاں اور اس پہ سینٹ اس سے سوا جبکہ وفاقی اور صوبائی کابینہ کی مراعات اور ناز نخرے اپنے خون سے اس لیے دیتی ہے کہ یہ سرکاری مراعات سے غریب کے سینے پر مونگ دلیں، عیاشیاں کریں اور اپنے آپ کو قانون سے بالاتر جانیں؟ مسلسل سیاسی مداخلت سے حال یہ ہو چکا ہے کہ کوئی ادارہ ایسا نہیں جہاں روز مرہ کے معاملات شفاف اور آسان طریقہ سے ممکن ہو سکیں۔ سرکاری ادارہ جات میں شہریوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک معمول بن چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک طرف ہر حکومت ٹیکس وصولی کا رونا روتی ہے جبکہ ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کا حال یہ ہے کہ چند ہفتے قبل صوبائی حکومت نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ایکسائز ٹیکس عائد کیا مگر اس کی شرح کا کوئی تعین نہیں کیا۔ راولپنڈی سے چند دوستوں نے بتایا کہ ٹیکس چالان لینے کے لیے فائل کو پہیے جبکہ وہاں جا کر ذلت الگ سے۔ایسے حالات میں نئے ٹیکس دہندگان کہاں سے ملیں 36 لاکھ ہی خزانے کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔
شبر زیدی کے اس بارے انکشافات سب کے سامنے ہیں۔ اِدھر تاجر طبقہ بھی کسی سے کم نہیں وہ بھی شوگر اور بجلی مافیاز کی طرح ٹیکس چوری کو جائز اور ٹیکس کے نظام کو آسان بنانے کی ہر کوشش کو ناکام بناتا ہے۔ موجودہ نظام میں ٹیکس تو کیا جمع ہونا ہوتا ہے، آڈیٹرز اور عوام کی جہالت کا فائدہ اٹھانے والے صرف فارم بھرنے کے نام پر ہزاروں بٹور لیتے ہیں
اور سرکار کے خزانے میں اتنا ہی پہنچتا ہے جو مقتدر طبقات کی مراعات کے لیے کافی ہو کیونکہ ملک چلانے اور تعمیر و ترقی تو عالمی بنک، آئی ایم ایف، خلیجی و بعض مغربی ممالک کے ذمہ ہے، ہمارے حکمرانوں نے تو بس وہاں دست بستہ حاضری دینی اور احکامات لینے ہوتے ہیں۔ ٹیکس در ٹیکس کے ستائے عوام میں اب یہ تلخی بڑھتی جا رہی ہے کہ 500 ارب سے زائد کی پنشن اور مراعات،لاکھوں سرکاری گاڑیاں اور کروڑوں لٹر سالانہ مفت فیول، صدر، وزرائے اعظم اور اہم عہدوں سے سبکدوش ہونے والوں کے قیام و طعام بلکہ انکی آل اولاد بھی بذمہ عوام کیوں؟ کیا کسی امریکی، برطانوی یا دیگر ترقی یافتہ اقوام کے سربراہان کو اتنی مراعات اور پنشن کے نام پر عیاشی کی اجازت ہے؟ اور تو اور بڑے اور معزز افسران بھی بعد از ریٹائرمنٹ اوسطاً چار سے پانچ لاکھ ماہانہ میں پڑتے ہیں۔ یہ شعور اب بیدار کرنا واجب ہو گیا ہے کہ مراعات یافتہ طبقہ کو لگام دی جائے۔
دوران سروس اور بعد از ریٹائرمنٹ عیاشیاں بند ہونی چاہئیں، اس میں نچلے درجہ کے اہل کار و افسران شامل نہیں ہیں۔ بدقسمتی کہ صاحبان اختیار ہی قومی خزانے کو جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ 1175 سے زائد اراکین پارلیمنٹ کس مرض کی دعا یا خود مرض ہیں۔ بہر حال عوام کو اب مزید ان کی خدمات کی ضرورت نہیں کہ پارلیمانی نظام جمہوریت نے ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سینکڑوں وزراء کرام اور مشیران کا ٹولہ الگ سے ہم پر بوجھ ہے اور حد تو یہ کہ اتنے اراکین پارلیمنٹ، وزرا، مشرا کے باوجود ہماری جمہوریت نہایت کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔ درجن بھر سے بھی کم ممبران ہماری سیاست کو تہہ و بالا جبکہ دو سے تین ممالک کی ناراضگی ہماری اقتصادیات کو گھٹنوں کے بل لے آتی ہے۔ ممالک کو تو چھوڑئیے شوگر، آٹوز مافیاز اور آئی پی پیز حکومت کے قابو میں نہیں۔ قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے آگے بے بس ہیں۔ گزشتہ دور حکومت جب عمران خان نے شوگر اور پھر آئی پی پیز کی لوٹ مار پر گرفت کی کوشش کی تو نہ صرف چینی کی قلت پیدا بلکہ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کے بعد ہی عوام کی جانب سے خان صاحب کو کسی شے کا نوٹس نہ لینے کی اپیلیں کی جانے لگیں۔ خان صاحب کے پورے دور اقتدار میں باوجود کوشش کے عوام کو کنٹرول ریٹ پر آٹا تک دستیاب نہ ہو سکا اور 20 کی بجائے 15 اور 25 کلو کے بیگ من مانے نرخوں پر متعارف ہوئے۔بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں نے بھی حکومت کی ایک نہ سنی اور گزشتہ دس سالوں کی لوٹ مار کا حساب دینے کی بجائے حکومت کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں اور ریاست مافیاز کے ہاتھوں یرغمال ہو جائے تو پھر انتخابات حل نہیں رہتے ہاں مگر سیاست دانوں کا نظام الیکشن الیکشن کھیلنے اور اسی غارت گر جمہوریت میں ہی چلتا ہے۔ زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے کہ جہاں حکومت کا کنٹرول اور آئین اور قانون کی بالا دستی ہے، جب جواب نفی میں اور کئی دہائیوں سے نظام اسی ڈگر پر چل رہا ہے تو عوام ملک بچانے اور اپنا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے اس کے خلاف کیوں اٹھ کھڑے نہیں ہوتے؟ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ ملک کو قرضوں نے نہیں کرپشن نے تباہ کیا ہے۔
حکمرانوں کی نااہلیوں کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔ عوام اگر اب بھی بیدار نہ ہوئی تو ان کا حال بھی وہی ہونا ہے جو بلوچ سردار کھیتران کی نجی جیل میں یرغمالی خاتون اور بچوں کاہوا۔ یقین جانئے کہ اگر یہ فرسودہ نظام اور آزمودہ چہرے نہ بدلے گئے تو عوام اپنے جانی و معاشی قتل کا انتظار کرے کہ اخلاقی قتل تو پہلے ہی ہو چکاہے کسی نے کیا خوب کہا کہ
یہ ساری دنیا بہری ہے
یہاں کون وجدانی بات کرے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button