Ali HassanColumn

کسی چارہ گر کی ضرورت ہے! .. علی حسن

علی حسن

 

وزیر خزانہ اسحاق ڈار یہی بتانے میں خوش ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاملات حل کرنے کے بارے میں خوش خبری دیں گے۔ ارے بھائی، قرضہ لینے کی کیا خوش خبری۔ آئی ایم ایف جو کچھ کرے گا ، کیا وہ اقدمات لوگوں کو در پیش مسائل اور مشکلات کو ختم کرنا تو درکنار، کم بھی کر سکیں گے۔ پاکستان میں اس وقت لوگ مجموعی طور پر انتہائی پریشانیوں سے دوچار ہیں اور انہیں ان پریشانیوں کا کوئی حل بھی نظر نہیں آرہا۔یہ ضرور ہوا ہوگا کہ حکومت اپنے حد تک اقدامات کر رہی ہے لیکن عوام کو پریشانی اور ذہنی خلفشار سے نجات دلانے کیلئے سرکاری ترجمان واضح بیانات دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ لوگوں کا یہ ذہنی خلفشار انہیں اس طرف دھکیل دے گا جہاں سے ملک معاملات سے لاتعلقی کا سلسلے کا آغاز ہوتا ہے۔ لوگوں کی ملک یا ملکی حالات سے لا تعلقی کسی بھی نوعیت سے ملک کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی۔ ملک بھر میں آٹا کا بحران ہے۔ تمام شہروں میں دکاندار من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ مسئلہ آٹا کا ہے، اس لیے لوگ کسی نہ کسی قیمت پر کم مقدار میں ہی خرید رہے ہیں کیوں کہ اس کے بغیر گزارہ ممکن ہی نہیں۔ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آٹے کی بظاہر قیمت کم کر نے کا دعویٰ کیا گیا لیکن کیا یہ قیمت زیادہ نہیں ہے۔ 20کلو آٹے کا تھیلا 2800 روپے سے کم ہو کر 2600 روپے کا ہوگیا۔ تمام صوبوں میں محکمہ خوارک قیمتوں میں اضافہ کا سبب یہ قرار دیا جارہا ہے۔ کوئٹہ میں محکمہ خوراک کے مطابق فلور ملز کو جنوری کا کوٹہ فراہم کیا جاچکا تھا جبکہ فروری کے کوٹہ کے اجراء کے مراحل میں ہے۔ سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ کوئٹہ میں
12جگہ قائم سیل پوئنٹ پر20 کلو آٹے کی 1510 روپے میں فراہمی جاری ہے جو 76 روپے فی کلو بنتا ہے لیکن یہ سراسر غلط بیانی ہے۔ملک بھر میں کہیں بھی آٹا اس قیمت پر میسر نہیں۔ سندھ میں محکمہ خوراک چکی والوں کو گندم کا کوٹہ اس وقت فراہم کرتا ہے جب اہلکاروں کی مٹھی گرم کر دی جائے۔ آٹا کم سے کم 1050 روپے میں دس کلو یا زیادہ سے زیادہ 1450 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ آٹا عوام کی بنیادہ خوراک ہے۔ جن کے گھروں میں دانے ہیں، انہیں کسی کی کوئی فکر ہی نہیں۔ پٹرول اکثر شہروں میں نایاب ہے یا کر دیا گیا ہے۔وزیر مملکت پٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ کہ ملک میں 20 دن کا پٹرول اور 29 دن کا ڈیزل کا ذخیرہ موجود ہے۔ یہ ذخیرہ ضرور موجود ہوگا لیکن عوام پٹرول کیلئے کیوں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں شہریوں کو پٹرول حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض پٹرول پمپ بند ہیں اور کچھ ایک ہزار روپے سے زائد کا پٹرول نہیں دے رہے۔کہا جا رہا ہے کہ یہ صورتحال کھپت سے کم سپلائی ہونے کے باعث ہے اور شہر میں پٹرول پمپ بند ہونے لگے ہیں۔ کراچی میں بھی پٹرول کی عدم
فراہمی کی شکایات ہیں۔ملک بھرمیں امراض قلب،انسولین، کینسر اور ڈپریشن کی ادویات کی شدید قلت کی شکایات بھی ہیں ۔ میڈیکل سٹورز والوں کا کہنا ہے کہ دوائیاں تیار کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے ادویات کی سپلائی نہیں کی جارہی۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کا کہنا ہے کہ ادویات ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی جبکہ کمپنیوں کا کہنا ہے کہ دوائیاں تیار کرنے کیلئے خام مال ہی دستیاب نہیں جس کی وجہ سے تیاری میں مشکلات ہیں، بازاروں میں ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین، انسولین اور آنکھوں کے قطرے بھی دستیاب نہیں۔ دل کے مریضوں کیلئے ڈسیپرین کی قلت ہے جبکہ ڈائریا کی دوائی حتیٰ کے زخموں پر لگانے والی پائیوڈین تک مارکیٹ میں باآسانی دستیاب نہیں ۔ دوائیوں کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ دکانداروں اور سپلائی کرنے والوں نے ذخیرہ اندوزی کی ہوئی ہے جو بھی اشیاء بازاروں میں دستیاب نہیں ہیں ان کی عدم دستیابی خلفشار کو ہی جنم دے گا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز وفاقی یا صوبائی سطحوں پر نہیں ہے۔ پوری سرکاری مشینری بے مصرف اور بے اثر سی نظر آتی ہے۔ ایسی صورت میں لوگ کیا کریں یا کیا کرتے ہیں۔ تنگ آمد جنگ آمد۔ لوگوں کا ایک گروہ ہے جسے تجسس ہے کہ لوگ کسی سخت رد عمل کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے۔ عام طور پر اس ملک میں پائے جانے والے تمام مسائل کا ذمہ دار لوگوں کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اپنی شکایت کرنے کے بعد حالات کی شکایت کرنے والے یہ ہی کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ لوگ کچھ نہیں کرتے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ لوگ کیا کریں۔ کس بل بوتے پر لوگ کوئی بھی قدم اٹھائیں اور کیا قدم اٹھائیں۔ سیاسی جماعتیں جن کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے ذہنی خلفشار کو زائل کرنے کیلئے رائے عامہ کو ہموار کریں ،اقتدار سے چمٹی رہنا چاہتی ہیں۔ حکومت مخالف جماعتیں عوام میں جانے کو تیار نہیں ہیں تعلیم یافتہ افراد اپنی موقع پرستی کا شکار ہیں۔ ملازمت کر رہے ہیں۔ کاروباری اور تاجر حضرات بھی تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وکلاء کچھ کر سکتے ہیں لیکن وہ بھی کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں۔ ایوب خان کے خلاف تحریک میں وکلاء دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود پانچ پانچ افراد کی ٹولیوں میں جلوس نکالتے تھے ۔ عوام سوائے کوسنے دینے کے کچھ اور نہیں کر سکتے ۔ کیا کوسنے دینے سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ لوگ دیکھ تو رہے ہیں کہ حکومت کس بے سرے انداز میں مشیران کے تعداد میں اضافہ کر رہی ہے۔ کیا اتنی بڑی اور لمبی چوڑی حکومت میں شامل لوگ کسی طرح بھی مسائل کے حل میں معاون ہو سکتے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مستقبل ہماری ناقص عقل کی وجہ سے ہی تاریک ہے۔
انتخابات نہ کرانے کے منصوبہ میں الیکشن کمیشن نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ایک اجلاس میں مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں جو یہ ثابت کرنے کیلئے ہیں کہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ صوبائی اسمبلیوں اور قومی سطح پر ضمنی انتخابات کے انعقاد کو کسی نہ کسی طور پر ملتوی کرنے کے بہانے تراشے جارہے ہیں۔ انتخابات کو انعقاد بہر حال ہماری موجودہ مشکلات کو حل نہیں دیتا ہے لیکن آئین کوئی متبادل بھی تو پیش نہیں کرتا ۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں اور ضمنی انتخابات منعقد کرانے اور معاونت کرنے سے وزارت دفاع، خزانہ، عدلیہ نے معذرت کرلی ہے۔ انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضہ ہے اور اگر وفاقی حکومت غیر جانبدار ہے تو ان اداروں کو معاونت کرنے سے انکار کرنے پر کسی نے تو اُکسایا ہوگا۔ جس طرح اور جس انداز میں مختلف عذر پیش کئے جارہے ہیں، حیلہ بہانے تراشے جا رہے ہیں، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ الیکشن کمیشن کو تالہ لگایا جائے، تمام حکومتوں میں شامل افراد کو ان کے گھروں کو راستہ دکھایا جائے۔ قومی خزانہ پر ایسے پہرے دار بٹھایا جائے جو ٹوٹتی ہوئی سانسوں کو بحال رکھنے کے علاوہ کسی حالت میں پیسہ خرچ نہیں کرینگے۔ غیر سیاسی افراد پر مشتمل مختصر حکومت ملک کے معاملات دیکھنے اور چلانے کیلئے بنائی جائے۔ اگر سیاسی افراد حکومت میں شامل نہیں ہوں گے تو ایوانوں میں زلزلہ نہیں آجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button