CM RizwanColumn

یوم یکجہتی کشمیر ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج پانچ فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ 33 برس سے جاری ہے۔ آج کے دن ہرسال پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مظلوم اور نہتے کشمیری حریت پسند عوام سے اظہار یک جہتی کیلئے مارچ اور ریلیاں نکلتی ہیں۔ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر انسانی کڑیاں بنائی جاتی ہیں، حریت پسند کشمیری عوام کیلئے خصوصی ترانے اور زمزمے گائے جاتے ہیں۔ ان کی لازوال قربانیوں اور جذبہ سرفروشی کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اور گوگل پر ٹرینڈ بنائے جاتے ہیں۔ کشمیر ڈے کے وٹس ایپ سٹیٹس لگائے جاتے ہیں۔ کوئی کشمیر کے جھنڈے کا متلاشی ہوتا ہے تو کسی کو کشمیر ڈے کے حوالے سے نئی ڈسپلے پکچر بنانا ہوتی ہے لیکن دوسری طرف غاصب بھارتی حکومت روزانہ کی بنیاد پر ظلم و بربریت اور انسان دشمنی کی نئی مثالیں قائم کر رہی ہوتی ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ عالمی برادری اپنے انسان دوستی کے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ہر بڑی طاقت کو غاصب بھارتی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات، اپنے مالی اور سٹریٹیجک مفادات کی فکر ہوتی ہے کوئی ایک طاقتور ملک بھی سوائے چین کے اس حوالے سے غیرت کھانے کو تیار نظر نہیں آتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک بھی مفاد پرستی اور غفلت کی دھند میں کہیں دور ظلمتوں میں گم ہو کر بیٹھ رہے ہیں۔
بلا خوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ مظلوم کشمیری دنیا بھر میں سب سے زیادہ پاکستانی عوام اور حکومتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہر طرح سے، ہر سطح پر اور ہر پلیٹ فارم پر ان کی آزادی کیلئے کوشش کریں لیکن افسوس کہ عوامی امنگوں کے برعکس ہماری ہر حکومت کے اظہار یکجہتی کشمیر کے طریقے بھی روایتی ہیں اور کشمیر پالیسی بھی روایتی ہے جن کا عالمی نظام اور اس کے ٹھیکیداروں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ البتہ اس دن پورے پاکستان میں عوام وخواص کی سطح پر ایک احساس ضرور نظر آتا ہے کہ کشمیر کی آزادی ایک انسانی اور عالمی اخلاقی مسئلہ ہے۔ پاکستانی عوام کے احساسات و جذبات کو اگر محسوس کیا جائے تو حکومت پاکستان کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے کشمیری عوام پر ظلم و ستم بند ہو جائیں اور وہ آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہو جائیں مگر افسوس کہ لوگوں کے یہ جذبات حکومت تک پہنچ بھی رہے ہیں لیکن وہ کسی پالیسی کا حصہ نہیں بن رہے۔ خاص طور پر پانچ اگست 2019 کے بعد سے حالات کی سنگینی اس امر کی متقاضی ہے کہ ہمیں کچھ ٹھوس اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں محکوم اور مظلوم کشمیریوں سے محض علامتی یکجہتی کوئی موثر حکمتِ عملی نہیں ہے۔ روایتی اور شریفانہ طرز احتجاج کی بجائے اب عالمی سطح پر نئے بیانیے کی ضرورت ہے جو ان زمینی حقائق کا جواب دے سکے جنہیں مودی نے بدلا ہے۔ اس ظلم کے بعد بھی اگر مسئلہ کشمیر پر ہر سال صرف بات ہی ہوتی ہے تو اس بات کا کوئی اثر کیوں نہیں ہوتا اور اگر کوئی اثر نہیں ہوتا تو بات سے آگے بھی کوئی اقدام ہونا چاہیے،جہاں تک پاکستان کے عوام کا تعلق ہے تو پاکستانی عوام کسی موقع پر بھی سوشل میڈیا پر اپنی رائے دینے سے نہیں کتراتے۔ وہ تو یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ خدا کی قسم اس طرح کی یکجہتی سے کشمیر آزاد نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں پانچ فروری کے دن کو منانے کا تعلق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1990 میں شروع ہونے والی عسکری تاریخ سے ہے۔ پاکستان میں اس وقت کے امیر جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد نے 1990 میں پہلی مرتبہ یہ مطالبہ کیا تھا کہ کشمیریوں سے تجدیدِ عہد کیلئے ایک دن مقرر کیا جائے۔ قاضی حسین احمد کے مطالبے کو نہ صرف پنجاب، وفاق بلکہ باقی صوبوں نے بھی اہمیت دی اور پہلی مرتبہ یہ دن 5 فروری 1990 کو منایا گیا اور اس وقت سے اب تک یہ دن منایا جاتا ہے۔ پاکستانی عوام کی کشمیری حریت پسند عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ اندازہ تو ہو جاتا ہے کہ پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں سے یک جہتی کا اظہار کرنے کے نت نئے طریقے نکال لیتے ہیں مگر اس سے زیادہ وہ عوامی سطح پر کر بھی کیا سکتے ہیں۔
دوسری جانب اب بھارت کی امن دشمن، بے اصولی پر مبنی غیر سنجیدہ عسکری و سفارتی حرکات کی وجہ سے نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ جنوبی ایشیاء میں ایک سنگین صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ اس پر امریکہ بالخصوص امریکی سینیٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں جس بڑے پیمانے پر تبدیلیاں شروع کر دی ہیں اُس کے بعد خطے میں جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ لہٰذا امریکی صدر اور امریکی سینٹ جنوبی ایشیاء میں قیام امن کیلئے سنجیدہ کوشش کریں۔ماضی میں اگرچہ پاکستان نے بار ہا ایسی کوششیں کیں کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے لیکن مودی ہندوتوا کی پالیسی پر گامزن ہے لہٰذا امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کیلئے کوششیں تیز کرے اور پھر یہ کہ مذاکرات سہ فریقی ہونے چاہئیں جن میں کشمیری بھی مذاکرات کی میز پر موجود ہوں۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی اپنے دور میں کہا تھا کہ کشمیر دنیا کا خطرناک ترین ریجن ہے لہٰذا اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے موجودہ امریکی سینیٹرز کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت صورتحال انتہائی مخدوش ہے اور کشمیری عوام ایک مشکل کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ان حالات میں انٹرنیشنل کمیونٹی بالخصوص امریکہ اور دیگر طاقت ور ممالک مسئلہ کشمیر کے حل اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالی بند کرانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور بربریت کی وجہ سے صورتحال انتہائی کشیدہ ہو چکی ہے جبکہ کشمیری عوام دلیری سے بھارت کے ظلم و جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں اور کشمیری شہداء نے اپنے خون سے تحریک آزادی کو سینچا ہے۔
گزشتہ پانچ سال سے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور لاک ڈاؤن کے نفاذ کی وجہ سے کشمیر کے تنازع کی اہمیت، شدّت اور حساسیت اور بھی بڑھ گئی ہوئی ہے۔ پانچ سال قبل جب بھارت نے 5 اگست 2019 کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اس کی خصوصی حیثیت سے محروم کردیا تھا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کو تقسیم کرتے ہوئے اسے 2 وفاقی اکائیوں میں تبدیل کردیا تھا جس کا اطلاق 31 اکتوبر 2019 سے ہوگیا تھا، ساتھ ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کرتے ہوئے مکمل لاک ڈاؤن کردیا تھا جو تب سے اب تک جاری ہے۔وہاں کے عوام کو مواصلاتی نظام کی بندش کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوگیا ہے اور شہری اپنے اوپر ہونے والے بھارتی افواج کے مظالم کی اطلاع دینے سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اہل خانہ سے رابطہ قائم کرنے سے بھی محروم ہوگئے ہیں، تاہم کبھی کبھار محدود عرصہ کیلئے خطے میں محدود موبائل ڈیٹا اور انٹرنیٹ سروس کو عارضی طور پر بحال کیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد پھر وہی ظلم جاری رہتا ہے۔ آج بھارتی مظالم کے خلاف 33 واں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے اور 33 برس گزرنے کے بعد آج بھی تحریک آزادی کشمیر ایک فیصلہ کن اور انتہائی نازک مرحلے پر میں داخل ہونے کے باوجود دنیا کے اہل حل و عقد کا گریبان جھنجھوڑ کر سوال کناں ہے کہ مظلوم کشمیریوں کو اور کتنے سال ظلم کی چکی میں پیسا جائے گا اور عالمی طاقتوں کا ضمیر کب جاگے گا۔ کشمیر میں جاری بدترین کرفیو اور لاک ڈاؤن ہے اور ہماری شہ رگ ہمارے روایتی اور ازلی دشمن کے پنجوں میں جکڑی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button