
اپیکس کمیٹی کو کیا کرنا چاہیے؟ ۔۔ ضمیر آفاقی
ضمیر آفاقی
اپیکس کمیٹی نے اپنے حالیہ اجلاس میں دہشت گردوں کے خاتمے کی بات بہت ہی شدت کے ساتھ کی ہے یہ درست ہے مگر کیا حالات کامدراک کئے بنا ہم کوئی بھی کام صرف سختی کے ساتھ کر سکتے ہیں جبکہ ضرورت ذہنوں اور رویئوں کو تبدیل کرنے کی ہے، آج کا کالم اپیکس کمیٹی کیلئے ہی ہے۔
یوں تو پاکستان کو کئی اعزاز حاصل ہیں زرعی اجناس سے لیکر مدفوں خزانوں تک،ہم ایک منفرد ملک ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کا شمار نوجوانوں آبادی والے پانچویں بڑی تعدادکے حامل ملک میں ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ 15 سے24 سال کے ایج گروپ کو بین الاقوامی طور پر نوجوانوں کی آبادی کا گروپ قرار دیتا ہے۔ جبکہ پاکستان دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے ایج گروپ 15 سے 29 سال کو نوجوانوںکی آبادی کا گروپ تصور کرتا ہے۔ اگر ہم پاکستان میں نوجوانوں کی حقیقی آبادی کا تعین کریں تو مختلف رپورٹس اور اعد و شمار کے مطابقپاکستان میں نوجوانوں کی تعداد اقوامِ متحدہ کے طے شدہ ایج گروپ کے مطابق 42 ملین زائد اور دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے ایج گروپ کے مطابق 60 ملین سے اوپر بتائی جاتی ہے۔ ا س وقت دنیا میں 15سے24 سال کی عمر کے نوجوانوں کا 3.54 فیصد اور15 سے29 سال کی عمر کے نوجوانوں کی کل تعداد کا 3.38 فیصد پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔خطے کی صورتحال کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ جنوب ایشیاء جہاں نوجوانوں (15-24) کی عالمی تعداد کا 26.43 فیصد موجود ہے۔ اس خطے کے 8 ممالک کے نوجوانوں (15-24)کی کل تعداد کا 13.41 فیصد پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان ، بھارت ، پاکستان،مالدیپ، نیپال اورسری لنکا میںدنیا بھر کے ( 15 سے29 ) نوجوانوں کا 25.64 فیصد آباد ہے اور پاکستان میں سارک ممالک کے مذکورہ نوجوانوں کی کل آبادی کا 13.20فیصد موجود ہے۔
اعداو شمار کے گورکھ دھندے کے بیان کرنے کا مطلب ان کی حالت زار پر گفتگو کرنا اس لیے بھی ضروری خیال کیا جارہا ہے کہ حکومتی قومی یوتھ پالیسی(جو ہر حکومت میں گزشتہ کئی برسوں سے چلی آرہی ہے) کی دستاویزکے حرف ِآغازہے میں یہ کہا گیا تھا کہ نوجوان ہمارا مستقبل۔ نوجوان ہمارا اثاثہ ہیںکوئی بھی ذی شعور، قومی یوتھ پالیسی کے ا س حر ف ِآغاز کی اہمیت سے انکار نہیںکرسکتاکیونکہ نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی کا پیمانہ اور واقتعاً اثاثہ ہیں، جنہیں ملکی ترقی میں ریڈھ کی ہڈی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی بہترین تعلیم و تربیت اور ان کی نشو نما کے راستوں کو کھولنا تفریح اور کھلے ماحول اور مقامات کا ہونا ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے کا باعث بنتا ہے۔پاکستان کیلئے نوجوانوں
کے اس اثاثہ کی اہمیت اس لیے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کل آبادی کا نصف سے زائد نوجوانوں پر مشتمل بتایا جاتا ہے یعنی 15 سے 30 سال کے افراد کی عمر کی تعداد 40 فیصد سے زائد ہے۔ ہمارے اس مستقبل کی حالت زار بارے سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 15 سے 24 سال کی عمر کے 9 فیصد نوجوان بے روزگار ہیں۔ دوسری جانب عالمی اداروں کے مطابق یہ شرح 16 فیصد ہے۔ ایسے حالات میں پاکستانی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جو استعداد رکھتی ہے وہ سکون ، روزگار اور تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بیرون ملک کا رخ کرنا اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہیں۔ اور جو وسائل نہیں رکھتے ان کا انتہا پسند رجحانات یا دیگر آلودگیوں کی طرف گامزن ہونے کا اندیشہ برقرار اس لیے رہتا ہے کہ یہاں ایسے گروہ، جتھے اور جماعتیں موجود ہیں جو ان کی تاک میں رہتے ہیں (ہر دھرنے لانگ مارچ اور جلسے میں انہیں دیکھا جاسکتا ہے)۔
پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے جہاں دہشت گردی امن و امان کی ابتر صورت حال بے روزگاری ، بھوک اور بیماریوں کی فروانی ہے وہاں حکومتی اور سماجی سطع پر اس طرح کی کوششوں کو فروغ دیا جانا ضروری ہے کہ یہ نوجوان مثبت سرگرمیوں میں حصہ لے کر معاشرے میں فعال کردار ادا کر سکیں یہ بات بھی بڑی خوش آئند ہے کہ ہمارے ہاں سماجی سطع پر اس بات کا شعور دن بدن اجاگر ہوتا جا رہا ہے کہ نوجوانوں کی تربیت کے بنا ملک ترقی نہیں کر سکتا اس حوالے سے کئی سماجی ادارے اور تنظیمیں سر گرم عمل ہیں جو نوجوانوں کی صلاحیتوں کو مثبت رنگ دینے کیلئے مختلف طرح کے پروگراموں کا انعقاد کر رہی ہیں حالانکہ یہ کام حکومت کاہے ۔ معاشروں کو پر امن بنانے اور ترقی کی طرف گامزن کرنے کیلئے تبدیلی نوجوانوں میں امید کی شمع روشن کر کے ہی لائی جاسکتی ہے معاشرے میں مثبت تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں کا خیال ہے کہ امن ، محبت اور رواداری کے حامل معاشرے کے قیام کیلئے سکولوں کی سطح سے لیکر کالجز اور یونیورسٹی تک کے طلباء میں تمام تعصبات اور نفرت سے پاک محبت بھری تعلیمات جس میں امن محبت اور رواداری کا درس ملتا ہو ،کا شعور اجاگر کرنے سے ہم اسی کی دہائی سے پہلے والے معاشرے کا مقام حاصل کر سکتے ہیں جب ہر طرف امن اور سکون تھا ، کھیلوں کے میدان اور پارک نواجونوں کی مثبت سرگرمیوں سے آباد تھے۔تعلیمی اداروں میں بزم ادب کی محفلیں اور تقریبات سے محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم رہتی تھی ہمیں ایسی ہی تبدیلی کے خواہاں ہونا چاہیے جس کیلئے ان کی کوششیں ناگزیر ہیں ،مختلف کالجز اور یونیورسٹیوں میں ’صوفی شعرا کے کلام پر مبنی سیمنار ،مشاعرے اور تقریبات کا انعقاد کروانا چاہیے ، صرف کرکٹ کے جنوں سے نکل کر ہر طرح کی کھیلوں سے میدانوں کو آباد کرنا ہوگا اگر ہم اپنے نوجوانوں کا رخ ٹھیک کر لیتے ہیں تو ہمارا آج کا نواجون ایک بہتر پاکستان کا معمار بن سکتا ہے ان کی تخلیقی صلاحیتیوں کو اجاگر کرنے کیلئے ہمیں بحیثیت معاشرہ ہر سطح پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ہمارا نوجوان جس کے اندر ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں یہ ملکی حالات سے کس قدر فیڈ اپ ہے اس کا اندزہ اس بات سے لگائیے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان موقع ملتے ہی یہاں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔پاکستان اوور سیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں اب تک 36 ہزار سے زائد پاکستانی نوجوان، جن میں ڈاکٹرز، انجینئر اور اساتذہ شامل ہیں، بیرون ملک اپنی خدمات فراہم کرنے کیلئے ہجرت کر چکے ہیں جبکہ غیرسرکاری اندازوں کے مطابق یہ تعداد 45 ہزار سے زیادہ پہنچ چکی ہے۔
یہاں کے حالات کے باعث مایوسی بہت زیادہ ہے، گن ، منشیات کے کلچر کے ساتھ دہشت گردی اور فرقہ واریت جس سے انتہا پسندانہ رویے فروغ پا رہے ہیں اور ہمارا نوجوانوں ان کا ایندھن بھی بن رہا ہے اوراس کی توانائی بھی ضائع ہو رہی ہے۔ مثبت توانائی میں اسی وقت تبدیل ہو سکتی جب یہ نوجوان تمام الائشوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ذہن لیکر اور متحد ہو کر اپنے ملک کیلئے کام کرنے نکلیں گے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ان کیلئے ایسے پروگرام ،تقریبات اور سیمینار تشکیل اور ترتیب دئے جائیں جو ان کی ذہن سازی میں ممدو و معان بن سکیں اور ایسی تعلیمات کا احیاء کیا جائے جس میں محبت امن اور ردوادری کا پیغام ہو۔دنیا کی ترقی یافتہ قومیں اور ملک اپنے معاشرے کی ترقی، استحکام اور امن کے قیام کیلئے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کیلئے خاص اقدامات کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر نوجوان درست ڈگر سے ہٹ جائیں تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے اور ترقی کی رفتار بھی رک جاتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے نوجوانوں پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔