ColumnMazhar Ch

واٹر برانڈزبھی غیر محفوظ ؟ .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

تازہ ترین رپورٹ کے مطابق حکومت نے پینے کے بوتل بند پانی (منرل واٹر) کے 20برانڈز کا پانی انسانی استعمال کیلئے غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز( پی سی آر ڈبلیو) کو ہدایت کی ہے کہ وہ منرل واٹر کے برانڈز کی سہ ماہی بنیادوں پر نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کے مفاد میں اس کے نتائج عوامی سطح پر تشہیر کرنے کا بندوبست بھی یقینی بنائے۔رپورٹ کے مطابق سال2022اکتوبر سے دسمبر تک،میں 22شہروں سے منرل واٹر کے برانڈز کے پانی کے 168نمونے جمع کیے گئے۔پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے منرل واٹر کے معیار کے ساتھ ان نمونوں کی جانچ کے نتائج کا موازنہ کرنے سے سامنے آیا کہ خوردبینی حیاتیات یا کیمیائی آلودگی کی وجہ سے 20واٹر برانڈز انسانی استعمال کیلئے غیر محفوظ ہیں،بیسٹ نیچرل ، کلیئر، پنار، نینو، آئس ڈراپ،ایکسی لینٹ نیچرل، پریمیم صفا،ویل، انڈس، منوا کشف، بارسے اور نایاب پیور لائف جیسے 12 برانڈز سوڈیم کی زیادہ مقدار کی وجہ سے غیر محفوظ قرار دیئے جب کہ ایکسی لینٹ نیچرل اور ایکواون طے شدہ حد سے زیادہ پوٹاشیم کی موجودگی کی وجہ سے غیر محفوظ پائے گئے۔پی سی آر ڈبلیو نے مزید آٹھ واٹر برانڈز الفا پریمیم ، اسبرگ، ایکواپیک، سپ اپ، ایور پیور، نوبل، نینو اور آشا کو مائیکرو بائیو لوجیکل طور پر آلودہ اورپینے کیلئے غیر محفوظ قرار دیا۔ پی سی آر ڈبلیو کی جانب سے عام شہریوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ تفصیلی رپورٹ دیکھیں تاکہ انہیںاپنے زیر استعمال منرل واٹر برانڈز کے پانی کے معیار کا پتا چل سکے۔
مارکیٹ میںرجسٹرڈمنرل واٹر برانڈز کے علاوہ غیر رجسٹرڈ منرل واٹر برانڈز کی بھر مار ہے۔ درمیانے درجے کے شادی ہالزاور دیگر عوامی تقریبات میں عام استعمال ہونے والے پانی کو نامانوس واٹر برانڈز کی شکل میں منرل واٹر بنا کرپیش کیا جاتا ہے۔ لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں سب سے زیادہ غیر معیاری اور غیررجسٹرڈ واٹر برانڈز بڑے سرکاری ہسپتالوں کے قریب اسٹورزپرفروخت کیے جاتے ہیں،اس کے علاوہ پارکوں اور تفریحی مقامات پر بھی فروخت کیے جانے والے بیشتر واٹر برانڈز بھی جعلی اور غیر رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ محفوظ نیچرل واٹر میں معدنیات کی متناسب مقدار موجود ہوتی ہے، منرل واٹر بنانے والی کمپنیاں پاکستان اسٹینڈرز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے مقرر کردہ پیمانوںکے مطابق معدنیات کی مقدار شامل کرنے کی پابند ہیں۔غیر معیاری اور غیر رجسٹرڈ کمپنیاں پی ایس کیو سی اے کے معیار کے مطابق پانی تیار نہیں کرتیں، کئی کمپنیاں تو بالکل ہی غیر محفوظ پانی کو بوتلوں میں بھرکر منرل واٹر کے نام پر بیچ رہی ہیں۔کنٹرول اتھارٹی کے مطابق پینے کے پانی میں آرسینک کی مقدار10مائیکروگرام فی لیٹر جبکہ سوڈیم کی مقدار 50ملی گرام فی لیٹر ہونی چاہیے۔ اسی طرح ایک لیٹر پانی میں ٹی ڈی ایس کی تعداد500ملی گرام ہونی چاہیے۔ ظاہری سی بات ہے کہ پیمانوں کے عین مطابق پانی تیار کرنا ہر چھوٹی موٹی اور غیر معروف کمپنی کے بس کی بات نہیں۔پینے کے پینے میں سوڈیم کی مقدار مناسب حد سے زیادہ ہونے سے بلند فشار خون کے ساتھ ساتھ گردوں کے مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔اسی طرح پانی میں موجود آرسینک جیسی مضر صحت دھاتوں کا زیادہ تناسب مختلف اقسام کی ذیابیطس، جلدی امراض، گردوں کی خرابی، امراض قلب، بلند فشار خون، بچوں میں پیدائشی نقائص اور کینسر جیسی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی اموات میں40فیصد اموات پیٹ کی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن کی بنیادی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔مالیاتی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو ملک کو آلودہ پانی کی وجہ سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کے باعث سالانہ 110ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔
تلخ حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کی بیشتر آبادی آلودہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔کچھ عرصہ قبل کئے گئے سروے کے مطابق ملک کے23 بڑے شہروں میںپینے کے پانی میں مضر صحت بیکٹریا،مٹی اورفضلے کی آمیزش کے علاوہ آرسینک جیسی دھات کی خطرناک حد تک مقدار پائی گئی ۔ سروے رپورٹ کے مطابق شہری علاقوں کی صرف 20سے 25فیصد آبادی کو صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پینے کے پانی کا شدیدبحران وقتاً فوقتاًپیدا ہوتا رہتا ہے۔سمندر کے کنارے آباد شہر کے باسیوں کی ایک بڑی تعداد پینے کے صاف پانی سے محروم ہونا ایک المیے سے کم نہیں، سمندر کے پانی کو ڈی سیلینیشن اور ریورس اوسموس کے طریقوں سے میٹھا بنا کر کراچی کی دو کروڑکے قریب آبادی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی ہے لیکن ارباب اختیار ان طریقوں پر غور کرنے پر بھی تیار نہیں۔ پاکستان میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ گھمبیر ہونے کی ایک بڑی وجہ زیر زمین پانی کی سطح کم ہونا بھی ہے۔ دیہی علاقوں میں بڑی تعداد میں لگائے جانے والے زرعی ٹیوب ویل کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ عالمی درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ اور بارشوں میں کمی سے بھی زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے لاہور سمیت متعدد شہروں میں واٹرفلٹر پلانٹس لگائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے عام شہریوں کوپینے کے صاف پانی تک رسائی قدرے بہتر تو ضرورہوتی جا رہی ہے لیکن کئی مقامات پر لگائے جانے والے فلٹر پلانٹس سے حاصل کیے گئے پانی کے نمونے کیمیائی اور حیاتیاتی طور پر مضر صحت پائے گئے ہیں۔سرکاری فلٹر پلانٹس کے حوالے سے عام شکایت یہ ہے کہ حکومت ایسے فلٹرز پلانٹس کے فلٹرز بروقت تبدیل نہیں کرتی۔ انفرادی سطح پر گھروں میںمعیاری فلٹر پلانٹ لگانا عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔صاف پانی کے حصول کیلئے لوگ بازار میں فروخت ہونے والے مختلف برانڈز کے منرلز واٹرپر انحصار کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے مارکیٹ میں فروخت ہونے والے منرلز واٹر کے دو درجن کے قریب برانڈز کیمیائی اور حیاتیاتی طور پر آلودہ ہیں ، اس کے علاوہ مارکیٹ اور عوامی جگہوں پر غیر رجسٹرڈ منرل واٹر کی بھرمار ہے اور سابقہ حکومت کی جانب سے ملک بھر ایک اعشاریہ دو ارب روپے کی لاگت سے 24واٹر ٹیسٹنگ لیبارٹریز قائم کی تھیںجن کا مقصد پینے کے پانی میں آلودہ مادوں کی جانچ پڑتال کرکے شہریوں تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانا ہے لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے ادارے کی کچھ لیبارٹریز عملی طور پر بند ہو چکی ہیں۔ صحت عامہ کی صورتحال کو بہتر بنائے بغیر معاشی ترقی کا حصول ممکن نہیں اور صحت عامہ کی صورتحال میں واضح بہتری کیلئے دیہی اور شہری علاقوں کی 70فیصد سے زائد آبادی کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی ناگزیر ہے۔ صوبائی حکومتوں کو شہری اور دیہی علاقوں میں آبادی کے حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب فاصلوں پر معیاری فلٹر پلانٹس لگانے کے کام کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنا چاہیے۔ مارکیٹ میں مضر صحت اور غیر معیاری منرل واٹر کی دستیابی روکنے کیلئے حکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button