ColumnJabaar Ch

ہندوستان کا انتخابی نظام .. جبارچودھری

جبارچودھری

 

یہ سن دوہزارپندرہ کی بات ہے جب میں ٹی وی چینل ایکسپریس نیوزکے کانٹینٹ اورایڈیٹوریل کاہیڈتھا۔سید فہد حسین جو،اب وزیراعظم کے معاون خصوصی ہیں ،وہ میرے ڈائریکٹر نیوزتھے۔ سید فہد حسین نے مجھے کہا کہ امریکی ادارے ایسٹ ویسٹ سینٹرکا ہندوستان کے ساتھ جرنلسٹ ایکسچینج کا ایک پروگرام ہے میری خواہش ہے کہ تم اس میں شرکت کے لیے سٹوری آئیڈیاز بھجواؤ۔اگر یہ ایشوز منفرد ہوئے اور ان پر واقعی رپورٹنگ کی گنجائش ہوئی تو آپ کو بھارت جاکر سٹوریزکرنے کا موقع مل سکتا ہے۔میری توشاید جیسے کوئی پروفیشنل حسرت پوری ہونے کے قریب آگئی تھی۔میں ہندوستان کی طرف سے تین بڑے ایشوزکو ہینڈل کرنے پر ریسرچ کرنا چاہتا تھااوروجہ یہ تھی ہم یہاں پاکستان میں ان تین ایشوز کی وجہ سے مصیبت میں ہی رہتے ہیں۔پہلی سٹوری میں یہ کرنا چاہتا تھا کہ کس طرح ہندوستان نے پولیوکا خاتمہ کیا ۔دوسرامیں یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا تھا کہ ہندوستان میں ریلوے منافع بخش اور کامیاب کیوں ہے اور ہمارے ہاں یہ اور دیگر کارپوریشنز سفید ہاتھی کیوں ہیں۔میں نے تیسری سٹوری کا جو آئیڈیا بھجوایاوہ ہندوستان کا انتخابی نظام اور وہاں کا الیکشن کمیشن تھاکیونکہ ہم یہاں دھاندلی کے الزامات سے ہی باہر نہیں نکل سکے اور ہندوستان جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور یہاں ہر وقت ہی کسی نہ کسی جگہ الیکشن ہوتے رہتے ہیں اس ملک میں انتخابی عمل ہمیشہ شفاف کیوں ہوتا ہے۔
میری سٹوریز کے تینوں آئیڈیازکو پسند کیا گیا اور ایسٹ ویسٹ سینٹر کی کوارڈی نیٹر سوزان کرائیفل کی ای میل موصول ہوئی۔مجھے سٹوری آئیڈیازکے منظورہونے کی اطلاع دی گئی۔یوں میں پاک بھارت جرنلسٹ ایکسچینج کا حصہ بن کرہندوستان چلا گیا۔سید فہد حسین ویسے تو پروفیشنل تربیت کے مواقع نیوزروم میں کام کرنے والوں کوہمیشہ دیتے تھے لیکن میں اس موقع کو ان کا اپنے اوپر ایک بڑا احسان سمجھتا ہوں کیونکہ بھارت جانے، وہاں اپنی سٹوریز کرنے اور بھارت کے مختلف میڈیا ہاوسز میں کام کرکے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔بہت سے صحافی یاردوست بنے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے۔ ہندوستان کے تمام بڑے میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والے بھارتی صحافیوں کے ساتھ پروفیشنل تعلقات استوار ہوئے۔
میں اور میرے ساتھ رضوان انوراور محمد ہارون ستمبردوہزار پندرہ کو دلی جاپہنچے۔دلی میں ہمارا میزبان کیرالہ کا ایک بڑامیڈیاگروپ منورما نیوز تھا۔ دلی کے بیوروچیف ٹی جے سری لال نے ایسی میزبانی کی کہ لگا اپنے ہی گھر میں ہیں۔سری لال اب سی این این نیوز ایٹین کیرالہ کو ہیڈکررہے ہیں۔
پولیوکی سٹوری بھی بہت ہی سبق آموزہے لیکن اس کا تذکرہ پھرکبھی۔جب میں منورما ٹی وی کے نیوزروم پہنچا تو پہلی خبرہی یہ ملی کہ الیکشن کمیشن کیرالہ میں انتخابی شیڈول کا اعلان کرنے والا ہے۔میری تو جیسے لاٹری نکل آئی ۔فوری سری لال سے کہا کہ باقی باتیں بعد میں پہلے الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس میں چلتے ہیں۔چیف الیکشن کمشنر نے شیڈول کا اعلان کیا۔اس وقت بھارت کے الیکشن کمشنر ڈاکٹر نسیم زیدی تھے۔پریس کانفرنس کے بعد ہماری درخواست پرڈاکٹر صاحب سے ملاقات کروائی گئی۔ میرا پہلا سوال تھا ڈاکٹرصاحب کیا ہندوستان میں انتخابی دھاندلی ہوتی نہیں یا آپ لوگ اس کا چرچا نہیں کرتے؟ڈاکٹر صاحب مسکرائے اور کہا کہ دھاندلی ہی ہونی ہے توپھر اس ادارے کامقصد کیا رہ جاتا ہے؟میری تسلی نہ ہوئی کیونکہ ہم نے تو اپنا الیکشن کمیشن دیکھ رکھا ہے جو اتنا کمزور ہے کہ کوئی بھی اس پر الزام لگاسکتا ہے ۔پھر سوال کیا کہ روکتے کیسے ہیں ؟آخر ایسا کیا ہے کہ الیکشن کمیشن سارا سال اسی کام میں لگا رہتا ہے ۔ایک کے بعد دوسری ریاست کے انتخابات تیاررہتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہمیں جو اختیارات آئین نے دے رکھے ہیں ہم ان کو ایمانداری اور پوری طاقت سے استعمال کرتے ہیں۔بے ضابطگیوں اور خلاف ورزیوں پر زیرو ٹالرنس اور صرف جرمانہ نہیں مقدمات اورجیل کی سزائیں ہوتی ہیں تو کوئی بھی سیاستدان اپنا کیریئر خراب نہیں کرنا چاہتا ۔
اگلے ہی دن بھارتی کانگریس کے دفتر میں غلام نبی آزاد اور سورج سنگھ سے ملے۔سوال وہی کہ دھاندلی کیوں نہیں کرتے؟جواب ملا کہ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن اتنا مضبوط کہ پاکستان والے سوچ بھی نہیں سکتے۔ہمارے ہاں انتخابات کے لیے پاکستان کی طرح نگران حکومت کی ضرورت نہیں پڑتی۔الیکشن کا شیڈول آتے ہی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم بے پرکا پرندہ بن جاتا ہے۔اس کے سارے اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس چلے جاتے ہیںاور بیوروکریسی کی جرأت نہیں ہوتی کہ کسی کام میں ٹانگ اڑاسکے۔
اس کے بعد بی جے پی کے ہیڈکوارٹر گئے وہاں تعلیم کی وزیرسمرتی ایرانی(کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی والی اداکارہ)پریس کانفرنس کررہی تھیں۔ اس کے بعد ان سے ملے۔سوال وہی کہ الیکشن اتنا شفاف کیسے ؟سمرتی مسکرائی اورکہا کہ چودھری صاحب کیا آپ کے نیتاؤں میں شکست تسلیم کرنے کی شمتا(ہمت)ہے ۔اس سے پہلے کہ میں کوئی جھوٹ بولتا انہوں نے خود ہی کہا کہ شکست کو تسلیم کرنا اور جیت پر مخالف کو مبارکباد دینا ہمارے انتخابی نظام کا طرہ امتیازہے۔ہمارے اندر شکست جھیلنے کا حوصلہ ہے اور انتظار کرکے دوبارہ تیاری کرنے کی ہمت۔ہم دھاندلی کا واویلا کرکے اپنی جنتا(عوام) کی توہین نہیں کرتے۔ہماراالیکشن کمیشن مضبوط بھی ہے اور اپنے اختیارات کو سمجھتا بھی ہے۔
ہندوستان کا انتخابی نظام اس لیے شفاف ہے کہ وہاں الیکشن کمیشن کی رٹ مضبوط ہے۔اور تمام سیاسی پارٹیاں اس رٹ کو چیلنج کرنے کی جرأت نہیں کرتیں۔ہندوستان میں چیف الیکشن کمشنر چھ سال کے لیے لگایا جاتا ہے اور آج تک کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کسی پارٹی نے اس پر ایسے الزامات لگائے ہوں جیسا ہمارے ہاں ہر روز ہوتا ہے۔ہمارے ہاں بھی الزامات میں سچائی کم اور جھوٹ زیادہ ہوتا ہے تاکہ الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالا جاسکے۔یہاں شکست تسلیم کرنے کا رواج ہی نہیں ہے۔ہمارے ہاں جیتنے والے کو مبارکباد دینے کے بجائے آدھی رات کو دھاندلی کے الزامات لگانے کے لیے پریس کانفرنس کی جاتی ہے۔یہاں اگر الیکشن کمیشن کمزور ہے تو ہرکوئی الیکشن لڑنے والاصرف جیتنے کی خبر ہی سننا چاہتا ہے۔
ہمارے ہاں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں ہوتے لیکن بھارت میں یہ انتخابات الگ الگ وقت میں ہوتے ہیں۔ بھارت میں ہروقت ہی کسی نہ کسی ریاست میں الیکشن ہوتے رہتے ہیں آج کل بھی ریاست گجرات میں انتخابات ہیں۔وہاں الیکشن کروانے کے لیے کوئی نگران حکومت بھی نہیں بنتی۔الیکشن کمیشن ہی سارے اختیارات استعمال کرتا ہے۔وزیراعلیٰ یا وزیراعظم عہدے پر موجود ہوتے ہوئے الیکشن لڑتے ہیں لیکن ان کی حیثیت صرف ایک عام سیاسی لیڈر کی ہوجاتی ہے۔ہمارے ہاں الیکشن کمیشن ڈرتاہے اور بھارت میں الیکشن کمیشن کا سب کو ڈرہوتا ہے۔
ہمارے ہاں اب عمران خان کے دواسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان سے یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا ہمارے ہاں بھی صوبوں اور وفاق کے انتخابات الگ الگ تاریخوں میں ہونے کاامکان پیدا ہورہا ہے۔ کیا یہ امکان حقیقت میں بدلے کا یہ ابھی واضح نہیں لیکن میری خواہش ہے کہ اس بار الیکشن کمیشن ایک طاقتور ادارہ بن کرشفاف الیکشن کروائے تاکہ ہم بھی ہندوستان کی طرح دھاندلی جیسے داغوں سے جان چھڑاسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button