ColumnRoshan Lal

اعظم سواتی کی گرفتاری .. روشن لعل

روشن لعل

 

سینیٹر اعظم سواتی کا گرفتار کیا جاناچاہے کسی اور کے لیے اہم معاملہ ہو یا نہ ہو مگر عمران خان نے اس گرفتاری کو بہت بڑا مسئلہ فقرار دیا ہے۔ اعظم سواتی کی دوسری مرتبہ گرفتاری بھی اسی الزام کے تحت ہوئی ہے جس کی وجہ سے انہیں پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا۔ پہلی گرفتاری کے بعد اعظم سواتی نے خود کو حراست میں رکھنے والوں پرجنسی زیادتی جیسا سنگین الزام لگایا مگر اسے سچ ثابت کرنے کے لیے جو کچھ قانونی طور پر کیا جانا ضروری تھاویسا کچھ بھی نہ کیا ۔اسی وجہ سے یہ الزام سنگین ہونے کے باوجودالزام کی حد سے آگے نہ بڑھ سکا۔اس کے بعد اعظم سواتی کی ایک پرائیویٹ ویڈیو منظر عام پر آئی جسے متضاد بیانات کی وجہ سے جزوی طور پر اصلی یا نقلی قرار دینے کی بحث شروع ہوگئی۔ اسی تسلسل میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کی گئی ایک متنازعہ ٹویٹ کے الزام میں اعظم سواتی 27 نومبر کو اسلام آباد سے گرفتار کر لیے گئے۔اس گرفتاری کے بعد جسمانی ریمانڈ بھگت کر ابھی وہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں تھے کہ انہیں کوئٹہ منتقل کر دیا گیا کیونکہ ان کو جس الزام کے تحت اسلام آباد میں گرفتار کیا گیا اسی الزام کی بنیاد پر کوئٹہ سمیت کراچی ، جیکب آباد ، لسبیلہ، لاڑکانہ، سکھر، خیر پور، کندھ کوٹ سمیت کچھ دوسرے شہروں میں بھی ایف آئی آر درج ہو چکی تھیں۔ اعظم سواتی کے خلاف کل ملا کر اب تک جو بھی کاروئی ہو چکی ہے عمران خان نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ایسا صرف کسی فاشسٹ رویے رکھنے والی حکومت کے دور میں ہی ہو سکتا ہے۔ عمران خان نے حکومت پر فاشسٹ رویے رکھنے کا جو الزام لگایا اس کے حق میں اور مخالفت میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے ۔ عمران کی طرف سے حکومت کو فاشسٹ قرار دینے کا الزام حالانکہ بہت سنگین ہے مگر اس بیان کی بنیادکیونکہ سیاسی ہے اس لیے اسے عمومی طور پر اسے زیادہ سنجیدہ نہیں سمجھاگیا۔ عمران خان کے بیان کو چاہے کوئی سنجیدہ سمجھے یا نہ سمجھے مگر یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ فاشسٹ حکومت اسے کہا جاتا ہے جو آمرانہ رویے اختیار کرتے ہوئے عوام کو اس طرح کنٹرول کرے کہ معاشرے میں اختلاف رائے کے اظہار اور برداشت کا کوئی امکان باقی نہ رہ جائے۔اب اگر کوئی اس نتیجے پر پہنچنا چاہتا ہے کہ اعظم سواتی کے ساتھ ہونے والے سلوک کے متعلق عمران خان کے بیان کی صحت کیا ہے تو مزید کسی بحث میں الجھے بغیر وہ فاشسٹ حکومت کے مذکورہ تعارف کی روشنی میں نہ صرف موجودہ حکومت بلکہ عمران خان کی اپنی حکومت کے دوران کی جانے والی سیاسی گرفتاریوں کے واقعات کو دیکھ سکتا ہے۔
اب اگر کسی نے یہ نتیجہ اخذکرلیاہے کہ اعظم سواتی کے ساتھ موجودہ حکومت کا رویہ فاشسٹ ہے تو پھر وہ یہ بھی ضرور سوچے کہ عمران خان کی حکومت نے رانا ثنا اللہ کو منشیات کے جھوٹے کیس میں گرفتار کر کے جس رویے کا مظاہرہ کیا تھا اسے کیا نام دیا جائے۔واضح رہے کہ اعظم سواتی پر عائد الزامات اگر سچ ثابت ہو بھی جائیں تو ان کی سزا موت نہیں ہے مگر رانا ثنااللہ پر منشیات فروشی کا جو جھوٹا الزام عائد کیا گیا تھا اسے اگر کچھ بیساکھیوں کے سہارے مزید جھوٹ بول کر سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تواس کوشش کے نتیجے میں ملزم کو پھانسی کی سزا بھی ہو سکتی تھی۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب عمران خان کی حکومت نے رانا ثنااللہ کو منشیات کے جھوٹے الزام کے تحت گرفتار کیا اس وقت صرف پاکستانی اپوزیشن جماعتوں نے ہی احتجاج نہیں کیا تھابلکہ مختلف ملکوں کے اراکین پارلیمنٹ کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل پارلیمنٹیرین یونین نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔یادرہے کہ انٹرنیشنل پارلیمنٹیرین یونین کا مرکزی دفتر جنیوا میں ہے اور اس کا اہم ترین مقصد نہ صرف اراکین پارلیمنٹ بلکہ عام انسانوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی ہے۔انٹرنیشنل پارلیمنٹیرین یونین کی ایک کمیٹی نے اپنے طور پر چھان بین کے بعدنہ صرف رانا ثنا اللہ پر لگائے گئے الزامات کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ رکن پارلیمنٹ کو گرفتار کرتے وقت
لازمی ضابطوں کی پاسداری کرنے اور آزادانہ نقل و حرکت کے بنیادی انسانی حق کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اب اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ اعظم سواتی کو اسی طرح بے بنیاد الزام کے تحت جھوٹا مقدمہ قائم کر کے گرفتار کیا گیا ہے جس طرح رانا ثنااللہ کو حراست میں لیا گیا تھا تو انہیںاپنی باتوں میں وزن پیدا کرنے کے لیے انٹرنیشنل پارلیمنٹیرین یونین کا پلیٹ فارم ضرور استعمال کرنا چاہیے ۔
عمران خان، اعظم سواتی کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے جب حکومتی رویے کو فاشزم سے تشبیہ دیتے ہیں تو ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھی دیکھ لیںکہ ان کے اپنے دور حکومت میں کیپٹن صفدر کو بھی اسی طرح کے الزامات عائد کر کے پکڑا گیا تھا جن الزامات کے تحت اب اعظم سواتی کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن باتوں کو اپنی ٹویٹ کا حصہ بنانے کی وجہ سے اعظم سواتی کو جیل بھیجا گیا اسی طرح کی باتیں اپنی آن لائن تقریروں میں کرنے پر عمران خان کی حکومت کے دوران میاں نواز شریف کے خلاف مختلف شہروں میں مقدمات قائم گئے تھے۔
جن مقدمات کے تحت اعظم سواتی گرفتار ہیں اور جو مقدمات رانا ثنا اللہ، کیپٹن صفدراور میاں نوازشریف کے خلاف درج کیے گئے ان کی آڑ میںکھیلے جانے والے سیاسی کھیل کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے یہ تصور عام ہے کہ جن مقدمات میںحکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے لوگ مخالف فریق ہوں بڑی حد تک یہ مقدمے سیاسی مقاصدکے تحت قائم کیے گئے ہوں ۔ یہاں سیاسی مقاصد کے تحت سیاست دانوں کے خلاف درج ہونے والے مقدمات کا حوالہ دینے کے بعد اب ایک ایسے مقدمے کا ذکر کیا جارہا ہے جس میں ایک فریق انتہائی امیر کبیر سیاسی شخصیت اعظم سواتی جبکہ دوسرفریق ا کوئی سیاستدان نہیں بلکہ ایک ایسا غریب خاندان تھا جس کے مختلف افراد کو ایک بارہ سالہ لڑکے سمیت صرف اس وجہ سے حوالات میں بند کرادیا گیا تھا کیونکہ ان کی گائے اولذکرکے باغیچے میں داخل ہو گئی تھی۔ سواتی صاحب، رانا ثنااللہ، کیپٹن صفدر اور میاں نوازشریف پر جن رویوں کے تحت مقدمات بنائے گئے انہیں صرف مبینہ طور پر فاشسٹ رویے کہا جاسکتا ہے مگر سواتی صاحب نے جس رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک غریب خاندان کے لوگوں کو حوالات میں بند کرایا تھااسے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فاشسٹ رویہ تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
یہاں گرفتاری کے جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سب سے زیادہ تشویشناک ایک غریب خاندان کی گرفتاری کا واقعہ ہے۔ حکومت میں رہ کر بذات خود ایسی گرفتاریوں کا شوق پورا کرتے رہنے والے سابق حکمران کو اگر کسی اپنے کی گرفتاری کا دکھ ہے تو وہ یہ بات یاد رکھے کہ جب تک اس ملک میں عام لوگوں کو فاشزم کا شکار بنانے کی وسیع گنجائش موجود رہے گی اس وقت تک اعظم سواتی، رانا ثنا اللہ، کیپٹن صفدر اور میاں نوازشریف جیسے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا فاشسٹ رویوں کی زد میں آنے کا امکان بھی موجود رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button