Abdul Hanan Raja.Column

لڑا دے ممولےکو ۔۔ عبدالحنان راجہ

عبد الحنان راجہ

 

کیا یہ اچنبا نہیں کہ دنیا میں رائج تینوں طرح کے نظامات حکومت، بادشاہت، مغربی جمہوریت اور فوجی آمریت میں سے کوئی بھی پوری طرح پاکستان میں رائج نہیں۔ پاکستان میں عوام نے فوجی حکومتوں کے ادوار بھی دیکھے اور سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کے مزے بھی لیے بلکہ اب بھی لے رہے ہیں، مگر ہر دو ادوار میں اہل زر ہی اہل زور بنے اور اہل زور ہی اہل زر بنے۔
برصغیر میں تین طرح کی نظریاتی، مصالحاتی اور مفاداتی سیاست رائج ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں نظریاتی سیاست کے موسس تھے مگر انکا دور حکومت جمہوری روایات کے برعکس رہا۔ ان کے طرز حکومت بارے جانکاری کے لیے معروف قانون دان ایس ایم ظفر کی کتاب’’میرے مشہور مقدمے‘‘اور سابق آئی جی سردار محمد چودھری کی سرگزشت کا مطالعہ ضروری ہے، مگر پھر بھی بھٹو کا نظریہ چار دہائیوں تک زندہ رہا۔دوسری طرز مصالحاتی سیاست میں حالات کی نزاکت کو مد نظر رکھ کر سیاسی روابط کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ نظریات اور مصلحت کا ملغوبہ زیادہ تر مغربی ممالک میں یہ رواج پذیر ہے جبکہ تیسری قسم قومی کی بجائے ذاتی مفادات پر مبنی ہوتی ہے۔ ویسے بھی سیاست میں دشمنی تو ہوتی نہیں صرف مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔
70 کی دہائی کے بعد سے چند سال قبل تک بھٹو اور اینٹی بھٹو نظریہ ہی سیاست کا مرکز و محور رہا مگر عمران خان نے ان کو نظریاتی سیاست ترک اور مفاداتی و مصالحتی سیاست کے تحت یکجا ہونے پر مجبور کر دیا۔ اسی طرز سیاست نے ترقی پذیر ممالک میں کرپشن کو رواج دیا۔ اس کی حالیہ مثال ہمارے ملک میں 11 جماعتی اتحاد ہے کہ جہاں شریک حکومت سبھی جماعتوں کے نظریات و خیالات ایک دوسرے سے یکسر مختلف مگر اقتدار کی ہوس نے انہیں ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔ گو کہ کپتان کی جدوجہد کا مرکزی نقطہ سیاست سے بدعنوانی کا خاتمہ تھا اور اس کے لیے انہوں نے ملکی تاریخ کی طویل ترین سیاسی جدوجہد بھی کی مگر اقتدار کے حصول کے لیے انہیں اپنے منشور کے کئی نکات کے برخلاف کرنا پڑا اور پھر طاقتور قوتوں کے ساتھ اسی سمجھوتہ نے انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا۔ کپتان کی جماعت نے نظریاتی اور مصالحتی سیاست کی راہ اپنائی، گو کہ انہوں نے خود کو مفاداتی سیاست سے دور رکھنے کی حتی الوسعی کوشش کی، وہ آئے تو تھے کرپشن ختم کرنے، مگر بوجوہ نہ کر پائے۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی باررائج جمہوری نظام کو چیلنج کیا، آرٹیکل 62 اور 63 کے علاوہ آئین میں عوامی حقوق بارے پہلے 40 آرٹیکلز عوام کو ازبر کرائے۔ ڈاکٹر قادری نے ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار متبادل نظریہ’’چہرے نہیں نظام بدلو‘‘ متعارف کرایا، مگر انتخابی سیاست انہیں راس نہ آئی۔ سیاست میں ناکامی نے انقلاب پسند سکالر کو سیاست سے کنارہ کش ہو کر علمی و فکری میدان میں یکسوئی پر مجبور کر دیا ان کے نظریات اور افکار پر دنیا کی کئی جامعات میں انکی شخصیت پر پی ایچ ڈی کرائی جا رہی ہے۔ انکی کتب نہ صرف جامعہ الازہر بلکہ کئی خلیجی اور مغربی ممالک میں شامل نصاب ہیں۔ ایک وقت میں پاکستان تحریک انصاف بھی انکی ہم خیال تھی مگر 2014 کے طویل دھرنے اور اس وقت کے آرمی چیف سے ملاقات کے بعد کپتان نے اپنی راہیں جدا کر لیں اور کپتان نظام تبدیلی کی بجائے اسی نظام کے تحت کچھ لو کچھ دو کے فارمولہ پر قائل ہو گئے، جبکہ ڈاکٹر قادری کے ساتھ 3 گھنٹے 40 منٹ کی طویل نشست نے اسٹیبلشمنٹ کو حقائق کی نئی دنیا سے روشناس تو کرایا مگر بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کہ وہ پہلے کڑے احتساب کے بغیر انتخاب کے حق میں نہ تھے۔
اس ملاقات کا تفصیلی احوال کسی اور کالم پہ اٹھا رکھتے ہیں، دھرنے کے بعد پی ٹی آئی نظریاتی اور مصالحتی سیاست کی علمبردار بن کر سامنے آئی اور اسی مقام پر کپتان سے خطا ہوئی انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام سیاست کے تحت انتخابات اور پھر اقتدار کو قبول کر لیا اور نظام تبدیلی کی صبر آزما جد و جہد سے دست کش ہو گئے، انکی بدقسمتی کہ اقتدار ملنے کے بعد اول دن سے ہی انہیں بیوروکریسی کی جانب سے مسائل کا سامنا رہا، مگر طویل جدوجہد کے بعد ملنے والے اقتدار نے انہیں اپنے اندر پکنے والے لاوے اور جذبات کے طلاطم کو بہنے سے روکے رکھا، جس کا اظہار اب کپتان نے اپنی تقاریر اور انٹرویوز میں بھی کیا۔ جارح مزاج کپتان موجودہ طرز سیاست میں فٹ نہیں مگر اس کے باوجود ان کی فوری انتخاب کی رٹ سمجھ سے بالا ہے۔ ’’ لڑا دے ممولے کو شہباز سے‘‘ کے مصداق تبدیلی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے انہیں تخیلاتی دنیا سے نکلنا، زمینی حقائق کو تسلیم اور انتخابات سے قبل احتساب کی کٹھن مگر ثمر بار راہ پر نکلنا ہو گا۔ فوری یا چند ماہ بعد ہونے والے انتخابات کپتان کے لیے تو سود مند ہو سکتے ہیں ملک کے لیے نہیں۔ اس لیے انہیں اپنے سیاسی کزن اور ماضی کی غلطیوں سے رجوع کرنا ہو گا کہ سیاسی مکاروں سے لڑنا اور سامراجی نظام سے ٹکرانا تنہا ان کے بس کی بات نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button