Columnمحمد مبشر انوار

تعمیری تنقید ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

 

قانون قدرت ہے کہ جتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے،جوابدہی کا تناسب بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے جبکہ اس ذمہ داری سے انسان کے پاس دو امکان ہوتے ہیں کہ آیا اس ذمہ داری سے کماحقہ عہدہ برآء ہوکر اپنے لیے نیک نامی سمیٹے یا پھر اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بدنامی مول لے۔تاریخ اپنے دامن میںایسے افراد کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے اور آنے والوں کیلئے سبق دیتی ہے کہ ماضی میں جن کو ذمہ داریاں تفویض ہوئیں یا جنہوں نے عہدوں کے حصول میں جوڑ توڑ کئے،ان کا انجام کیا ہوا اور وہ شخصیات جنہوں نے عہدوں کیلئے ہوس کااظہار نہیں کیا بلکہ ان کی قابلیت و اہلیت دیکھتے ہوئے انہیں ذمہ داریاں دی گئی ،وہ رہتی دنیا تک کیلئے ایک مثال بن گئے۔حضرت آدم کو زمین پر اتارتے ہی، اس کرہ ارض پر اللہ کی بندگی کے احکامات بھی نازل ہو گئے ،وہ آفاقی قوانین کہ جن پر عمل پیرا ہو کر بنی نوع انسان کی فلاح و ترقی ممکن تھی،وہ روز اول سے ہی اس کرہ ارض پر نافذ العمل ہونے کیلئے اتار دئیے گئے اور انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر یہ اختیار اسے سونپ دیا گیا کہ وہ احکام الٰہی کی پیروی کرتے ہوئے ابدی زندگی میں سرخرو ہو جائے یا دنیاوی زندگی کی لذتوں کو اپنا محور بنا لے۔احکام الٰہی کی پیروی ،دنیا داروں کیلئے نسبتاً مشکل اور کٹھن کام ہے جبکہ آفاقی قوانین کی پیروی کرنے والے بظاہر اس دنیا میں سختی و تنگدستی کی زندگی گذارتے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت جو سکون و اطمینان انہیں میسر ہے، اس کاعشر عشیر بھی دنیاوی آسائشوں کے اسیروں کو میسر نہیں۔قبل از اسلام بھی ایسے حکمران رہے کہ جن کی سلطنتیں انتہائی وسیع و عریض رہی لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں سے کماحقہ عہدہ برآء ہو کر سرخرو رہے جبکہ ایسے حکمران بھی گذرے کہ جن کے ظلم و ستم اور بربریت کی داستانیں آج بھی موجود ہیں لیکن تاریخ ان حکمرانوں ؍ذمہ داروں کو کبھی بھی اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتی تاہم ان سب حقائق کے باوجود ان ظالم و جابر حکمرانوں کے پیروکار ہمیں نظر آتے ہیں اور ازل سے جاری اس جنگ کا ایندھن بننے والے بھی تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اسلام کا بنیادی جزو ،مساوات ہے کہ جس میں کسی عربی کو کسی عجمی پر یا کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری نہیں جبکہ برتری کا معیار صرف اور تقوی ہے البتہ ریاکاروں کا معاملہ الگ ہے اور اللہ رب العزت ایسے ریاکاروں کو جزا اسی دنیا میں دے کر آخرت سے بیدخل کرنے کا اظہار کرتا ہے تاہم صرف اللہ ہی ہے جو توبہ کو قبول کرنے والا ہے۔ غلامان رسولؐکا یہ طرہ امتیاز رہا ہے کہ سرکار ؐ کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ،انہیں جو ذمہ داری بھی تفویض ہوئی،اسے اپنی پوری ایمانداری سے نبھاتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے اور ان کی مثال امت مسلمہ کے حکمرانوں کیلئے آج بھی مشعل کی مانند ہے لیکن افسوس کہ اکثریت اس سے روشنی لینے سے تامل کا شکار ہے۔غلامان رسولؐ ،ذمہ داریوں کے بوجھ سے بخوبی واقف تھے اور ایک طرف قابلیت و اہلیت ہونے کے باوجود بھی ذمہ داری قبول کرنے سے کتراتے تو دوسری طرف کبھی بھی انہوں نے خود کو کسی ذمہ داری کیلئے پیش نہیں کیا کہ ان کے پیش نظر ہمیشہ یہ بات رہی کہ جو شخص خود کسی عہدے کا متمنی ہو،اس سے بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ علاوہ ازیں! خلفائے راشدین کے ادوار میں عمال حکومت بذات خود بددیانتی سے گریز کرتے کہ ان کی تربیت آقائے دو جہانؐ نے فرمائی تھی تو دوسری طرف حاکم وقت بھی آپؐ کے ہی تربیت یافتہ تھے لہٰذا دو طرفہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام کارفرما نظر آتا ہے اور عمال کے اثاثہ جات کی نگرانی بھی انتہائی سختی سے کی جاتی۔ قبل از ذمہ داری اور سبکدوشی کے بعد اثاثوں کی تفصیلات دیکھی جاتی اور اگر کہیں عدم توازن نظر آتا،یا عمال وضاحت نہ دے پاتے تو اثاثہ جات بحق سرکار ضبط ہوجاتے اور مال غنیمت کا حصہ بنتے جبکہ عمال کو اس کی سزا ملتی۔یہ اس نظام حکومت کا اعجاز تھا کہ خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کے وصال پر مدینہ سے سینکڑوں میل دور ایک چرواہے نے اپنی بھیڑ کے بھیڑئیے کے ہاتھوں اٹھائے جانے پر روتے ہوئے حضرت عمرؓ کے وصال کااعلان کر دیا تھا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے لیکن تاریخ کا سبق ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا البتہ جو سیکھا جاتا ہے،وہ صرف اتنا ہے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لئے جائیں یا بقول مغل شہنشاہ بابر کہ زندگی دوبارہ نہیں ملے گی۔
موجودہ دور تہذیب یافتہ اور جمہوری کہلاتا ہے البتہ اس کے ثمرات صرف غیر مسلموں تک محدود ہیں کہ اس نظام کے بنیادی خدوخال اسلامی اصولوں سے ہی اخذ کئے گئے ہیں جبکہ مسلم دنیا ان قواعد و قوانین کی وراثت سے لاتعلق ہو چکی ،لہٰذا مسلم دنیا میں زمانہ جاہلیت کے رسوم و رواج عود آئے ہیں ۔ نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کہ دنیاوی جاہ و جلال کی جستجو میں ہر حد سے گذرنے سے گریز نہیں کیا جاتا، طاقت و اختیار کا نظام تو غیر مسلموں کو اپنایا گیا ہے لیکن اس کے حصول میں وہ طریقہ کار کہیں نظر نہیں آتا کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ ہر جماعت پوری شد و مد سے لگاتی ہے،جمہوری کھیل کھیلنے میں ہر سیاسی جماعت تیار ہے لیکن جمہوریت کی اساس جمہور پر تکیہ کرنے کی بجائے ،کھیل کو مروجہ اصولوں کے مطابق کھیلنے کی بجائے دھونس،دھاندلی اور جبر کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا حتی کہ بیساکھیاں اٹھائے لولا لنگڑا اقتدار حاصل کرنے کو فوقیت دی جاتی ہے۔یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے کہ بیساکھیاں مہیا کرنے والے اقتدار کے ساتھ اختیار بھی منتقل کریں؟شیر کے منہ کو خون لگ جائے تو وہ کب خون بہانے سے ٹلتا ہے؟ پاکستان میں شیر کے منہ کو خون لگانے میں سیاسی اشرافیہ کا معتد بہ کردار موجود ہے ،جس سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے ایسے ایسے رتن پال رکھے ہیں کہ جن کا فرض اولین و منصبی ہی یہی ہے کہ ہر وقت سبحان اللہ و ماشاء اللہ کی گردان اپنے محبوب رہنماؤں کے ارشادات پر اپنے لبوں پر سجائے رکھیں،کوئی ایسی شخصیت جو صاحب اقتدار یا اختیار کے فرمان سے اختلاف کی جرأت رکھتی ہو،یہ چرب زبان ،خوشامدی اسے اس خوبصورتی سے کھڈے لائن لگانے کے ماہر ہیں کہ وہ بیچارہ دوبارہ تین میںنہ تیرہ میں نظر آتا ہے مبادا وہ بھی کان نمک میں نمک بن جائے یا گھر سدھار جائے۔ بدقسمتی سے ایسے لوگ انتہائی نایاب ہو چکے ہیں جو اپنی قیادتوں سے اختلاف کی جرأت کریں ،جو اِکا دُکا باقی ہیں،ان کا دم غنیمت ہے لیکن ان شخصیات کا سیاست و اپنی جماعتوں میں عمل دخل انتہائی کم ہو چکا ہے۔کہنے کو تو یہ جمہوری دور ہے لیکن دستور زباں بندی ایسا ہے کہ مخالفت میں ایک لفظ بھی برداشت نہیں ہوتا اور ایسے کسی بھی شخص کو سانس لینے کی بھی اجازت نہیں،یا تو وہ اپنی سوچ بدلے وگرنہ اس کا روزگار چھیننے سے زندگی چھیننے تک ،اشرافیہ جا سکتی ہے،جس کا اظہار ہم گذشتہ کئی سالوں بلکہ دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔
تنقید برائے تنقید کبھی بھی مثبت اثرات نہیں لاتی بلکہ معکوس نتائج دیتی ہے جبکہ تعمیری تنقید برائے اصلاح ہوتی ہے بشرطیکہ جس پر تنقید ہو رہی ہو،وہ اصلاح احوال کی طرف راغب ہو۔ بدقسمتی سے ہمارا نظام ایسا ہے کہ کوئی بھی ذمہ دار جب منصب پر براجمان ہوتا ہے تو اسے ایسی تنقید سے شدید چڑ ہوتی ہے اور چونکہ ’’اختیار‘‘ اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے،انتظامیہ پراس کی گرفت ہوتی ہے،وہ بآسانی ایسے ناقد کو سبق سکھا سکتا ہے اور سکھاتا ہے تاہم جب اپنے منصب سے رخصت ہونے کا وقت آتا ہے تو نہ صرف آفاقی اصول؍قوانین یاد آتے ہیں بلکہ وطن کو درپیش مسائل کا درد؍کرب ،اس کے الفاظ میں یوں جھلکتا ہے کہ جیسے موصوف سے بڑھ کر کوئی اس وطن کا ہمدرد ہے ہی نہیں،اس کے ساتھ ساتھ وہ نئے منصب دار کو نصیحت کرنا نہیں بھولتا کہ اس وطن کی خاطر ہم نے نہ پہلے کسی قربانی سے دریغ کیا ہے اور نہ آپ کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ کرنا۔کب تک ہم اس منافقت کا شکار رہیں گے؟کب تک ہم اپنے عہدہ داروں کی اصلاح احوال پر تنقید کر پائیں گے کہ تعمیری تنقید کا فائدہ تو اسی صورت ہے کہ جس پر تنقید کی جا رہی ہے،وہ بااختیار ہوتے ہوئے،اس تنقید کو سنے اور جوابدہ ہو۔بااختیار ہوتے ہوئے تو ایسے منصب دار خود کو مقدس ترین سمجھتے ہیں پھر اصلاح احوال کیلئے تعمیری تنقید کیسے ہو سکتی ہے؟

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button