Ali HassanColumn

تعلیم یافتہ سفید پوش ڈاکو .. علی حسن

علی حسن

 

ڈپٹی کمشنر نو شہرو فیروز محمد تاشفین عالم اپنے افسران بالا کو مطلع کئے بغیر اچانک غائب ہو گئے ہیں۔ حکومت سندھ نے انہیں مفرور قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت کو لکھا ہے کہ وہ چانک غائب ہو گئے ہیں اس لیے انہیں ملازمت سے معطل کیا جائے۔ تاشفین سے قبل حکومت سندھ نے عدنان رشید نامی ڈپٹی کمشنر مٹیاری کو ان کی رہائش گاہ سے آدھی رات چھاپ مار کر گرفتار کیا۔ ان کی گرفتاری محکمہ انسداد رشوت ستانی کے ذریعہ پیش آئی۔ کیا ہوا کہ ایک ڈپٹی کمشنر گرفتار ہوگئے اور دوسرے مفرور قرار دیئے گئے۔ عدنان کے خلاف تو بھاری سرکاری رقم میں خرد برد کا سنگین الزام ہے جبکہ تاشفین کے بارے میں صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت کو جو خط لکھا ہے اس میں ان کے خلاف بھی سرکاری رقم میں سنگین بے ضابطگی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
موٹر وے حیدر آباد تا سکھر ایم 6 کی زمین کی خریداری کیلئے ڈپٹی کمشنر نوشہرو فیروز کو این ایچ اے سے 3 ارب 60 کروڑ روپے 2018 میں فراہم کئے گئے تھے تاکہ وہ سڑک کی تعمیر کیلئے زمین کی خریداری کی ادائیگی کر سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے زمینداروں کے نام پر کروڑوں روپے کی ادائیگیاں خلاف ضابطہ کی جس کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔انکوائری کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ چیف سیکریٹری سندھ سہیل راجپوت کو جمع کرادی تھی۔ ادائیگیوں میں گڑ بڑ ہونے کی اطلاع ملنے پر چیف سیکریٹری نے چند روز قبل انکوائری کمیٹی نوشہرو فیروز بھیجی تھی۔ انکوائری کمیٹی میں اسپیشل سیکریٹری بلدیات نور احمد سموں اور ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ سماجی بہبود عطا اللہ شاہ شامل تھے۔ ابتدائی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زمین کی خریداری کیلئے اربوں کی ادائیگی خلاف قواعد کی گئی۔ رقوم حاصل کرنے والے زمینداروں کی زمینوں کے کھاتے بھی مشکوک ہیں۔ زمین کی ادا کردہ قیمتیں اصل قیمت سے زیادہ ہونے کا شک ہے۔انکوائری کمیٹی نے سفارش کی کہ زمینوں کے کھاتوں کی اصلیت اور مارکیٹ قیمت کی تصدیق کرائی جائے۔اکثر ادائیگیاں کراس بینک چیک کے بجائے خلاف قواعد اوپن چیک کے زریعے ہوئی ہیں۔ چیف سیکریٹری نے تفصیلی چھان بین کیلئے اعلیٰ افسران کی نئی تین رکنی انکوائری ٹیم نوشہرو فیروز بھیج دی ہے۔ اس تین رکنی کمیٹی کی آمد کے ساتھ ہی تاشفین فرار ہو گئے۔
سرکاری کاموں کیلئے حکومت زمینوں کی خرید ڈپٹی کمشنر حضرات کے ذریعے کر تی ہے۔ ڈپٹی کمشنر قانون کے مطابق زمینوں کی قیمت مقرر کرنے اور قیمت کی رقم ادا کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔ اسی رقم میں خرد برد کرنے میں مٹیاری اور نو شہرو فیروز کے ڈپٹی کمشنر ملوث پائے گئے۔ سرکاری کاموں کیلئے زمینوں کی خرید کا طریقہ کار کے قدیم عرصے سے مروج ہے۔ لینڈ ایکیوزیشن کا قانون موجود ہے لیکن سرکار کیلئے زمین کی خریداری کے ذمہ داران
ایمانداری کو اکثر بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور خریداری کرنے والے افسران خیانت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر سرکاری مشینری کا اہم ترین اہل کار ہوتا ہے۔ وہ کلکٹر کی حیثیت میں ضلع کا سرکاری ریونیو جمع کرنے کا فرض انجام دینے کے ساتھ ساتھ ضلع کا مکمل نظام چلانے اور اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کی حیثیت کا تعین انگریز کے زمانے سے ہی ہے اور اسی طرح اس کی اہمیت ہے۔انگریز کے زمانے سے لے کر قیام پاکستان کے بعد بہت عرصے تک یہ سی ایس پی افسر کہلاتے تھے۔ بھٹو حکومت نے سی ایس پی کو ختم کر کے ڈی ایم جی گروپ بنا دیا۔ عام طور پر ڈی ایم جی گروپ کے افسران ڈپٹی کمشنر لگتے ہیں۔ انہیں حکومت کی آنکھ اور خان بھی کہا جاتا ہے۔
تاشفین عالم اور عدنان رشید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے خیانت سر زد ہوئی ہے۔ ان کی اس خیانت داری میں ان کے ضلعوں میں سیاست کرنے والے اصحاب بھی ملوث بتائے جاتے ہیں۔ عدنان نے محکمہ انسداد رشوت ستانی کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس نے ایک رکن قومی اسمبلی کے سیکریٹری کو چالیس کروڑ روپے ادا کئے۔ سیکریٹری نے اس کے خلاف کیس مقدمہ کے بغیر ہی ضمانت قبل از گرفتاری کرا لی ہے۔ مٹیاری کے رکن صوبائی اسمبلی جو صوبائی حکومت میں وزیر بھی ہیں کوپچاس کروڑ روپے ادا کئے گئے جو انہوں نے ملاح ذات سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کے ذریعہ وصول کی۔ خود عدنان نے اعتراف کیا کہ چالیس کروڑ روپے کا حصہ انہوں نے وصول کیا۔ بنک منیجر نے سات کروڑ روپے وصول کئے۔ مٹیاری ضلع میں اور بھی افراد کو بھاری بھاری رقمیں ادا کی گئی ہیں۔ ایک صاحب کو پچاس کروڑ اور ان کے بیٹے کو بھی پچاس کروڑ روپے بطو ر نذرانہ یا تاوان کی صورت میں پیش کئے گئے ہیں۔یہ وہ رقوم ہیں جو زمین کے مالکان کو ادا کی جانی تھی لیکن سارا کاروبار جھوٹ پر مبنی تھا اس لیے عدنان نے بھی بنک والوں کے ساتھ مل کر نقد رقمیں نکالی اور لوگوں کی جیبوں میں ڈال دیا۔ یقینی طور پر اپنی جیب میں بھی ڈالے ہوں گے۔ ان ضلعوں میں عام آدمی بھی ڈپٹی کمشنر حضرات کی اس کارروائی کو ڈاکہ زنی کا نام دیتے ہیں۔ بنک والوں نے بڑی بڑی رقمیں نقدی کی صورت میں کیوں ادا کیں۔ سادہ سا جواب ہے کہ بنک والوں نے بھی اپنی’’ خدمات‘‘ کا معاوضہ وصول کیا۔
پاکستان میں خیانت اور کرپشن کسی وباء کی طرح اتنی عام ہو گئی ہے کہ جہاں جس کا بس چلتا ہے وہ سرکاری رقم کو لاوارث کی رقم سمجھ کر اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ تاشفین عالم کو ضلع نو شہرو فیروز میں پیپلز پارٹی کے ایک رہنماء نے مجبور کیا کہ انہیں خطیر رقم فراہم کی جائے جو کہا جاتا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے فراہم کئے۔ حکومت کو تو سیلاب کے وقت تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنر حضرات کو فنڈ جاری کئے تھے جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ رقم کا آڈٹ نہیں ہوگا اور کوئی حساب طلب نہیں کیا جائے گا۔ بعض ڈپٹی کمشنر حضرات نے اس رقم کو اللے تللے خرچ کیا۔ ایک ڈپٹی کمشنر نے تو سرکاری ریکارڈ میں بتایا ہے کہ انہوں نے سیلاب متاثرین کو کئی لاکھ روپے کے خشک میوہ جات کھلا دیئے تھے۔
جب شکایات ملی تھیں تو حکومت نے ابتدائی تحقیقات کے بعد عدنان کو تو حراست میں لے لیا تھا لیکن تاشفین فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ابھی تک یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ تاشفین جن کا تعلق پشاور سے ہے، علاقہ غیر میں چلے گئے ہیں یا بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں۔ سندھ کے کئی افسران مختلف اوقات میں بیرون ملک بھی فرار ہو چکے ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول کے سربراہ منظور کاکا کینیڈا فرار ہو گئے۔ حکومت کے ایک اور افسر ثاقب سومرو بھی ان کے خلاف تحقیقات کی ابتداء ہوتے ہی بیرون ملک فرار ہو گئے تھے ۔ افسران کی ایک بڑی تعداد نے تو دوسرے ممالک کی شہریت بھی حاصل کی ہوئی ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو اپنے لیے دبئی بنایا ہوا ہے کہ یہاں سرکاری رقوم میں خیانت اور لوٹ مار کر کے رقوم کو بیرون ملک بھی منتقل کیا جاتا ہے۔ ہنڈی کا کاروبار کرنے والے پیسہ منتقل کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ایسے لوگوں کیلئے آسانیاں ہیں۔ اسٹیٹ بنک کی پابندیوں اور حکومت کی سختیوں کے باوجود کوئی جتنی رقم جہاں بھی بھیجنا چاہے کسی مشکل کے بغیر بھیج سکتا ہے۔ جب کسی ملک کے اہم لوگ بھی منی لانڈرنگ میں ملوث ہوں تو چھوٹے درجے کے لوگ کیوں نہیں ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔ حکومت کو خیانت کی وباء کے خلاف سخت اقدامات کرنا چاہیے اور اپنے ملازمین کی اسکریننگ کرنا چاہیے تاکہ حیدرآباد سکھر موٹر وے کے فنڈز میں گھپلے جیسے واقعات دوبارہ رونما نہیں ہو سکیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button