Ali HassanColumn

ہوس کا بڑھتا ہوا رجحان .. علی حسن

علی حسن

 

پاکستان کے نو دولتیئوں کو پیسے بنانے اور جائیدادیں بنانے کا خبط ہے۔ اسی خبط کا نتیجہ ہے کہ ملک میں زرعی زمینوں کو سوچے سمجھے بغیر عمارتوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ یہ سوچنے کے لیے کوئی ادارہ اور حکومت تیار ہی نہیں ہے کہ جب زرعی اراضی کو بڑے پیمانے پر رہائش کی عمارتوں میں تبدیل کر دیا جائے گا تو عوام کی ضرورتوں کی اجناس اور سبزیاں وغیرہ کہاں سے آئیں گی۔ پاکستان میں دریا موجود ہیں اور دنیا کا بہترین آبپاشی کا نظام موجود ہے جسے انگریزوں نے تعمیر کیا تھا۔ زرخیز زرعی زمین بھی موجود ہے۔ لیکن پیسہ بنانے کی لت نے زرعی زمین کا رقبہ سکیڑنا شروع کر دیا ہے حالانکہ رہائش کے لیے غیر زرعی زمینوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں محنت زیادہ ہے۔ 2018 میں ایک چینل نے کراچی کی یہ خبر دی تھی کہ کلفٹن کے علاقے میں ایک با اختیار اور با اثر شخصیت نے اپنے مکان کے اطراف میں واقع 46 مکانات خرید لیے ہیں۔ یہ خبر آج کل دوبارہ سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ مکانات کے اس تمام رقبہ کو ایک ساتھ ملا کر کوئی بہت بڑا شاپنگ مال تعمیر کرنے کا ارادہ اور منصوبہ ہے۔ خریدے جانے والے مکانات کے خریدنے کی کہانیاں بھی مختلف اوقات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ قیمت خرید وعدے کے مطابق ادا نہیں کی گئی ، دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر یہ مکانات خریدے گئے یا خریدے جا رہے ہیں۔ ایسی ہوس کا مظاہرہ عام ہے جس سے ظاہر کیا جانا مقصود ہے کہ بس ہم ہی ہیں۔ کوئی مقابل نہیں ۔ زرعی زمینیں بھی خریدنے اور دبوچنے کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خواہش ہے کہ پچاس ہزار ایکڑ زمین ہو۔ ماضی کے جاگیر دار وں کو کیوں بھلایا جا رہا ہے۔ وقت جب کروٹ لیتا ہے تو سب کچھ پلک جھپکنے کی محلت میں ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ خیر۔
سعودی عرب میں مرحوم و مغفور بادشاہ شاہ فیصل حکمران تھے ۔ ان کی اہلیہ اپنا محل تعمیر کرا رہی تھیں۔ ان کے زمین کے ایک کونے میں کسی اور شخص کا مکان تھا۔ وہ اسے خریدنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اپنے کارندوں کے ذریعے اس کونے والے مکان کے منہ مانگی قیمت ادا کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن مالک تیار نہیں تھے۔ معاملہ مرحوم و مغفور شاہ فیصل کو گوش گزار کیا گیا۔ انہوں نے اس مالک کو طلب کیا اور اسے ضرورت کا احساس دلایا لیکن مالک تیار نہیں ہوا۔ کچھ عرصے بعد مرحوم بادشاہ نے اس مالک کو پھر طلب کیا اور دوبارہ گزارش کی، وہ پھر بھی تیار نہیں ہوا۔ مرحوم بادشاہ نے اب کی بار اس شخص سے کہا کہ یہ مکان آپ کی ملکیت ہے، اسے فروخت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بھی آپ کو ہے۔ اگر آپ نے فیصلہ ہی کر لیا ہے کہ اسے فروخت نہیں کرنا ہے تو نہ کریں اور آئندہ اگر میں بھی دوبارہ آپ سے مکان فروخت کرنے کا مطالبہ کروں تو آپ مجھے پھر انکار کر دیجئے گا۔ کراچی میں پچاس سال سے زائد عرصہ سے ایک رہائشی علاقہ ہے ۔ اس کا نام مجاہد کالونی ہے۔ پولس جس قہر اور جبر کے ساتھ یہ علاقہ خالی کرا رہی ہے وہ قابل مذمت ہے۔ لیکن کیا کیا جائے۔ یہ علاقہ خالی کراکے ایک نجی ہسپتال کو وسعت دینا مقصود ہے۔ ہسپتال کے مالک با اختیار افراد کے دوست ہیں۔ کئی کاروباری حضرات نے کئی رہائشی علاقوں کو طاقت کے زور پر خالی کرایا ہے اور اپنے مقاصد پورے کئے ہیں۔
سپر ہائی وے پر بحریہ ٹائون کے مالک بہت بڑی رہائشی آبادی کا ٹائون بنا رہے ہیں۔ انہوں نے جس جگہ سے ابتدا ء کی ہے وہ سپر ہائی وے پر ہی واقع ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ کام کی ابتداء کے بعد انہوں نے اپنے پڑوس میں قائم ایک مدرسہ اور مسجد کی زمین خریدنے کا سودا کرنا چاہا، اس کے ساتھ ہی قائم ایک ہوٹل کی زمین بھی خریدنا چاہی ۔ مدرسہ کے مہتمم پر جب بہت زیادہ دبائو ڈالا گیا تو انہوں نے تجویز پیش کی کہ مدرسہ کے قیام کے لیے جن جن اصحاب نے مالی تعاون کیا ہے یا چندہ دیا انہیں جمع کیا جائے اور ان کے پیسے انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس تجویز پر عمل در آمد ممکن ہی نہیں اس لیے مدرسہ کی زمین خریدنے کا خبط جاتا رہا۔ جہاں تک ہوٹل کا تعلق ہے وہ حاجی پیرل عرف حاجی پیر محمد گبول نامی صاحب کی ملکیت ہے، انہوں نے بھی اپنی زمین فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ گڈاپ کے اس علاقے میں گبول ذات سے تعلق رکھنے والے کئی صاحبان نے اپنی زمینیں فروخت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کئی حضرات کو تو پولیس کی مدد سے زیر کر لیا گیا۔ عدالتوں میں ان کے مقدمات ہونے کے باوجود زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ طاقت اور تعلقات نے زمین کے مالکان کو شکست دے دی۔
پاکستان میں اوسان خطا کرنے والا عجیب رجحان جڑ پکڑ گیا ہے کہ جس کی زمین پر چاہو، قبضہ کرلو، جس کی جا ئیداد پر قبضہ ہو سکے اس پر قبضہ کر لیا جائے۔ حکام، پولس، عدالتیں متاثرہ افراد کی مدد کرنے میں دانستہ کوتاہی برتتی ہیں جس کے بعد قبضہ سچا، باقی سب جھوٹا والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ کیا ہمیں ہوس زر، زن اور زمین سے چھٹکارا حاصل ہو سکے گا یا نہیں۔ اگر چھٹکارا حاصل نہ ہو سکا تو تباہی اور بربادی ہی مقدر ہو گی۔ منظر یہ تھا جب معتصم بااللہ آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے جواہرات رکھ دیے۔پھر معتصم سے کہا ! کھاؤ، پیٹ بھر کر کھاؤ، جو سونا چاندی تم اکٹھا کرتے تھے وہ کھاؤ۔ بغداد کا تاج دار بیچارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔بولا! میں سونا کیسے کھاؤں؟ہلاکو نے فوراً کہا : پھر تم نے یہ سونا اور چاندی کیوں جمع کیا؟
تاریخ کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی ؟شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یا نہیں ؟درباروں میں خوشامدیوں، مراثیوں، طبلہ نوازوں، طوائفوں، وظیفہ خوار شاعروں اور جی حضوریوں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ کبھی عذر قبول نہیں کرتی اور جن لوگوں کو اس حقیقت کا ادرک نہیں ان کا حال خلیفہ معتصم باللہ سے کم کیوں ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button