ColumnNasir Sherazi

اسلام آباد صاحب اولاد؟ .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

راولپنڈی اور اسلام آباد جڑواں شہرکہلاتے ہیں، دونوں ایک ہی روزپیدا نہیں ہوئے تھے بس ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اس مناسبت سے انہیں جڑواں کہا جاتا ہے۔ چاربرس قبل دونوں بھائی بھائی بن گئے بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ دونوں میں مشترک کچھ نہ تھا لیکن کہیں سے حکم آیا دونوں نے بجا آوری کی یہ سب کچھ ملک و قوم کے اعلیٰ ترین مفاد میں کیا گیاتھا، ایسا نہ کیا جاتا تو خدا جانے ہم کس مفاد سے محروم رہ جاتے۔
پنجاب میں پگڑی بدل بھائی اوردوپٹہ بدل بہن بنانے کا رواج بہت پرانا ہے مگر ان دو بھائیوں کے درمیان ایسا کچھ نہ ہوا، بس یوں سمجھ لیجئے دونوں نے ایک دوسرے سے منہ زبانی یہ رشتہ استوار کیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسلام آباد اپنا دوپٹہ راولپنڈی کے سرپر اوڑھاتا اور راولپنڈی اپنی ٹوپی اسلام آباد کے سرپہناتا، یوں ہوجاتا تو شاید اسلام آباد کی مدت پوری ہوجاتی یہ عدت میں نہ بدلتی جبکہ راولپنڈی کے سامنے بھی درجنوں سوالات نہ کھڑے ہوتے۔
ابتدائی دو برس تو دونوں ایک دوسرے کے صدقے واری ہوتے اور ایک دوسرے کی بلائیں لیتے نظر آئے پھر اچانک کچھ کھچائو آگیا، دونوں نے ایک دوسرے کی آن بان شان میں قصیدہ گوئی ختم کردی، بہت شورتھا ایک کتاب کے ایک ہی صفحے پر ہونے کا، یہ کتاب ہر موقعہ بے موقعہ کھولی جاتی دنیا کودکھائی جاتی پھر ایک صفحے کو چوم چاٹ کر بند کردی جاتی، ایک روز ایک سہانی شام اسلام آباد نے جو یہ کتاب کھولی تو یہ اہم صفحہ غائب پایا بہت تلاش کیا مگر نہ ملاڈھونڈ نہ پڑی تو گھرکی بات چوراہے تک آگئی، ہر نظر میںایک سوال تھا لیکن جواباً کہاگیا یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہے، ہم دونوں بھائی آج بھی ایک ہی کتاب کے ایک ہی صفحے پر ہیں، قوم کا ماتھا اُس روز ٹھنکا جس روز خبر آئی کہ اب تو کتاب ہی غائب ہے، کونسا صفحہ اورکس صفحے پردونوں کا ساتھ ہونا، اعتماد کا فقدان ہوا تو تحریک عدم اعتماد آگئی مگر خود اعتمادی کا ایک طرف یہ عالم تھا کہ زور دے کر کہاگیا کہ کچھ ہونے والا نہیں، اپوزیشن اپنا شوق پورا کرلے، پھر ایک روز ’’تڑک ‘‘کی زور دار آواز کراچی سے خیبر تک سنی گئی جس کے نتیجے میں دونوں بھائیوں کی راہیں جدا ہوگئیں۔ ایک نے کہا ان تلوں میں تیل نہ تھا، دوسرے نے بتایا پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی نکل چکا تھا، جب سے اب تک ایک طرف سے الزامات کی بوچھاڑ ہے دوسری طرف سے خاموشی ہے، کبھی کبھار خاموشی سے اکتاکر ایک تارے پر ایک راگ سنادیا جاتا ہے جس سے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں ارتعاش پیدا ہوجاتا ہے لیکن کوئی بڑی لہر اٹھتی ہے نہ جوار بھائے کا خطرہ ہے، جو لہریں کبھی منہ زور نظر آتی تھیں، اب ساحل کی طرف پلٹ گئی ہیں، پسپائی ہی پسپائی ہے۔
علیحدگی کے بعد اسلام آباد نے متعددمرتبہ رجوع کرنے کی کوششیں کی ہیں ، بادل نخواستہ ملاقات تو ایوان صدر اسلام آباد میںہوئی جس کاکوئی نتیجہ نہ نکلا لیکن اسلام آباد نے ہمت نہ ہاری پے درپے پیغام بھیجے جاتے رہے پیامبر کوئی ڈھنگ کی خبر نہ لائے، گذشتہ دنوں بھائی راولپنڈی، لاہور کے دورے پر آئے جہاں انہوں نے اپنے دوستوں، رشتہ داروں سے الوداعی ملاقات کی، اس موقعہ پر اسلام آباد نے بھی ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن اسے بتایاگیا کہ راولپنڈی کی لاہور میں ملاقاتوں کا شیڈول اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر اسلام آباد اچانک بغیر کسی شیڈول کے لاہور پہنچ گیا، بتایاگیا کہ زخم دیکھنے اور زخمی کی مزاج پرسی کے لیے آئے ہیں لیکن ایک پنتھ دو کاج کا ایجنڈا تھا، پیغام بھیجا کہ ہم آپ کے دروازے پر ہیں ملاقات کے روادار نہیں تو دروازے میں کھڑے کھڑے ہی بات سن لیں جس طرح دو ناراض دوست یا دو ناراض سہیلیاں ایک دوسرے سے مختصر سی ملاقات کرتے ہیں، جو راوی چاربرس ایسے موقعوں پر چین ہی چین لکھتا رہا آج بے چین نظر آیا اس نے لب سی رکھے ہیں، کچھ بتانانہیںچاہتا بس اشاروں ہی اشاروں میں کہتا پھرتا ہے کہ اسلام آباد نے راولپنڈی کو ایسی پیشکش کی ہے جیسی فلم ’’گاڈ فادر‘‘ میں گاڈ فادر صاحب اپنے مخالف کو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں تمہیں ایسی پیشکش کرتاہوں جسے تم ٹھکرا نہ سکو گے، پیش کرتے ہوئے اسلام آباد نے راولپنڈی سے کہا کہ جنہیں تم اپنا سمجھتے تھے انہوں نے تم سے دھوکہ کیا ہے اور تمہیں اکیلا چھوڑ دیا ہے میں اور تم دوبارہ بھائی بھائی بن جاتے ہیں ایک دوسرے کا کہا سنا معاف کردیتے ہیں میں ماضی کی غلطیوںکی معافی چاہتا ہوں اس مرتبہ اپنا دوپٹہ تمہارے سر پر نہیں تمہارے قدموں میں ڈالتا ہوں تم اپنی ٹوپی بے شک میرے سر پر نہ رکھو لیکن ناراضی ختم کردو، یہ کہتے ہوئے اسلام آباد نے اپنا دوپٹہ راولپنڈی کے قدموں میں ڈال دیا، راولپنڈی سپاٹ چہرے کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھتا رہا سنتا رہا پھر اُس نے اپنے قدموں میں پڑا ہوا سہ رنگا دوپٹہ اٹھایا اور اس کا گولا بناکر اسلام آباد کی طرف اچھالتے ہوئے کہا کہ آپ نے اس کام میں بہت دیر کردی، آپ کی دھواں دارتقریروں ، الزامات کی بارش اور ہماری پریس کانفرنس کے بعد اب سب دروازے بند ہوچکے ہیں، اس کے ساتھ ہی راولپنڈی نے ٹھاہ کرکے اپنا دروازہ بند کرلیا، اسلام آبادایک مرتبہ پھرمنہ لٹکائے واپس ہوا ہے، اس نے واپس آکر اپنے اہل خانہ سے دروازے میں کھڑے کھڑے ملاقات کی تفصیل بیان کی جس کے بعد کچھ لمبے کچھ گول مٹول چہرے لٹک کر مزید لمبے ہوگئے ہیں جبکہ گھر کی فضا مزید سوگوار ہوگئی ہے۔
راولپنڈی شہر کے ایک حلقے سے قومی اسمبلی کی ایک نشست جیتنے والی پارٹی کے سربراہ گذشتہ تین ماہ سے خبر دیتے آرہے ہیں کہ آئندہ آنے والے آٹھ دن بہت اہم ہیں یہ آٹھ روز گذرنے کے بعد وہ پندرہ دن کی تاریخ دے دیتے ہیں، دوروز قبل بھی انہوں نے فرمایا کہ بس اب کچھ ہونے والا ہے انہوں نے آخری تاریخ نومبر کی پچیس تاریخ دی ہے کچھ عجب نہیں اس رز آنے والی رپورٹ میں لکھا ہو کچھ نہیں ہوا بس ہوا ہی تھی۔
اسلام آباد کی زبردست خواہش ہے لڑکا یا لڑکی تولد نہیں ہوتی تو بیشک تیسری جنس ہی ہوجائے وہ چاہتے ہیںکچھ نہ کچھ ضرور ہو تاکہ عمربھر کے لیے اُسے بانجھ ہونے کا طعنہ نہ سننا پڑے۔
ایک خاتون حصول اولاد کے لیے ایک بزرگ کے پاس تعویز لینے گئی، بزرگ نے تعویز خاتون کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ تعویز تو میں نے دے دیا ہے، صرف تعویز پر تکیہ نہ کرنا، اولاد کے لیے جو کچھ کرنا ضروری ہوتا ہے وہ بھی کرنا۔ یاد رہے تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، یہاں تو دوسرا ہاتھ کئی ہاتھ کے فاصلے پر جاچکا ہے پس تالی بجے گی نہ اسلام آباد صاحب اولاد ہوتا نظر آتا ہے، کہ روز بازی پلٹ دینے کی خبر دینے والے بازی گروں کا دماغ پلٹ گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button