ColumnImtiaz Aasi

قیدی اورانتظامی امور .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

قیدیوں اورحوالاتیوں کی سرگرمیوں کا ریکارڈ رکھنے کیلئے جیلوں میں ہسٹری کارڈ ہوتے ہیں جن پر قیدیوں کو فراہم کئے جانے والے کپڑوں اوران کی سرگرمیوں کوباقاعدہ ریکارڈ کیا جاتا ہے۔مشاہدہ کیا گیا ہے جو قیدی جیل افسر کو نذرانہ نہیں دیتے خواہ ان کا ریکارڈ تسلی بخش کیوں نہ ہو، انہیں انتظامی امور کے تحت دوسری جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ قیدیوں کے ہسٹری کارڈ دیکھے جائیں تو ان کی غالب اکثریت کے کارڈوں پرانتظامی امور لکھا ہوتا ہے ۔جیل حکام کیلئے کسی قیدی کو خراب کرنے کا یہ آسان طریقہ ہے ورنہ قانونی طور پر کوئی قیدی کسی غیر قانونی سرگرمی کا مرتکب ہو تو اسے ہسٹری کارڈ پر درج کیا جانا چاہیے ۔
فروری 2003 کی بات ہے یہ ناچیز سنٹرل جیل راولپنڈی کی سزائے موت کے بی کلاس کے سیل سے باہر چہل قدمی کر رہا تھا اتنے میں ہیڈوارڈر محمد صدیق آیا اورکہنے لگاچل بھئی تیراچالان ہے۔ میں حیرت زدہ نظروں سے ہیڈوارڈر کی طرف دیکھنے لگا پوچھا کس سلسلے میں چالان ہے وہ کہنے لگا بس اپنا سامان باندھ لو۔میرے استفسار پر اس نے بتایاکہ مرزا سرفراز اور قمر ستی بھی تمہارے ساتھ ہیں۔ خیر میں اپنے بی کلاس پہرے میںواپس آیا اور ساتھی قیدیوں کو بتایا میرا چالان ہے یہ سن کر وہ پریشان ہوگئے۔ہمیں ڈیوڑی میں لے جایا گیا جہاں بیڑیاں اور ہتھکڑیاں ہماری منتظر تھیں۔ بیڑیاں لگانے والا ہیڈ وارڈر حیرت سے کہنے لگا تم جیسے شریف قیدی کا چالان ہے ۔ہمت کرکے میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ملک فیروز کلیار کے دفتر کی کھڑکی تک چلا گیا ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھ لیا سر میری کیا خطا تھی جواب ملامیں نے تمہارانام نہیں بھیجاتھا منظوری آئی ہوئی تھی کچھ سکھ قیدیوں کو کوٹ لکھپت بھیجا جانا تھا لہٰذا آپ لوگوںکو بھی ساتھ ساہی وال بھیجا جا رہا ہے۔فجر کے وقت ہمیں جیل کی گاڑی نے سنٹرل جیل ساہیوال پہنچا دیا اس روز کسی کو پھانسی دی جانی تھی جیل کا پورا عملہ حاضر تھا۔میں ڈپٹی ملک فیروز صاحب کا تعارفی کارڈ ساتھ لے گیا تھاانہوں نے ہمارے پہنچنے سے پہلے فون کر دیالہٰذا ہم جیل والوں کی مارپیٹ سے بچ گئے۔جامہ تلاشی کے بعد مجھے ایک کمرہ میں لے گئے جہاں ایک افسر غالباً وہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے پہلے سے موجود تھے۔ ہسٹری کارڈ دیکھتے بولے تمہاری تو بہت پیشیاں ہیں عرض کی جناب میری تو کوئی پیشی نہیں ہے۔دراصل وہ ہسٹری کارڈ دوسرے قیدیوں کے تھے۔ہمارا کارڈ دیکھنے کے بعد کہنے لگے انتظامی امور لکھا ہے۔ہم انہیں کیا جواب دیتے خاموشی میں عافیت جانی جس کے بعد ہمیں جیل کے گھنٹہ گھر کی طرف لے جایا گیا۔مجھ سے پہلے جانے والے دونوں قیدیوں کی خوب درگت بنائی گئی۔مجھے اور میرے ساتھیوں کو قصوری احاطے میں ہمیں بند کر دیا گیا ۔سینٹرل جیل ساہی وال کی قصوری بہت وسیع و عریض ہے پنجاب کی جیلوں کے بدمعاش اور خود سر قیدیوں کو وہاں بند کیا جاتا ہے۔اگلی صبح ہمیں ملاحظہ میں پیش ہونا تھا۔ جیل کی بالٹی کی چائے پینے کے بعد اعلیٰ صبح گھنٹہ گھر کے قریب بوہڑ کے درخت کے پاس لا کھڑا کیا گیا کچھ قیدی گجرات جیل سے آئے ہوئے تھے ایک قیدی نے آزار بند کے ساتھ چرس باندھ رکھی تھی۔ ڈپٹی صاحب بہت ناراض ہوئے کہنے لگے تم سزائے موت کے قیدی ہو دنیا میں سزائے موت سے کوئی بڑی سزا ہے تم چرس ساتھ لے آئے ہو۔ خیراس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ناقابل بیان ہے۔ ہمیں سپرنٹنڈنٹ جنہیں جیل کی زبان میں صاحب کہا جاتا ہے، کے سامنے پیش کیا گیاجب کسی قیدی کو سپرنٹنڈنٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اس کا ہسٹری کار سپرنٹنڈنٹ کے سامنے رکھا ہوتا ہے۔ ایک نہایت خوبصورت باوردی نوجوان سپرنٹنڈنٹ کے روبرو پیش کیا گیا وہ بولے امتیاز تم مجھے شریف لگتے ہو تمہیں ان کے ساتھ کیوں بھیجا گیا ہے۔میں کیا جواب دیتا جیل سپرنٹنڈنٹ کے روبرو کوئی بولنے کی جرأت کیسے کر سکتا ہے ملاحظہ کے بعد ہمیں دوبارہ قصوری بلاک میں بند کردیا گیااس دوران جو گذری وہ تنگی کالم کی بنا بیان نہیں کر سکتا۔چند روز بعد ہمیں صاحب کے سامنے دوبارہ پیش کیا گیا تو کہنے لگے اسے قصوری سے نکال دو۔میرے دو ساتھی کئی ماہ تک قصوری میں بند رہے۔راولپنڈی جیل میں ہماری بی کلا س تھی ایک جیل افسر نے مشورہ دیا تم دورے پر صاحب سے سوال کرنا۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب ہفتہ وار دورے پر آئے تو ہم نے سوال کردیا جناب میری بی کلاس تھی۔وہ بولے اس وقت تمہارے سفارشی کہتے تھے اس کو قصوری سے نکال دو اب تم بی کلاس مانگتے ہو۔بی کلاس ویسے تو ہوم سیکرٹری دیتا ہے مقدر نے ساتھ دیا چالان نکالتے وقت وہ کچھ لکھ دیتے تو بی کلاس ختم ہو جاتی۔صاحب بولے میں بی کلاس تمہیں دے دوں گا پھر تم اے کلاس مانگو گے۔
چند روز سزائے موت کے انچارج اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ملک اشرف اور رانا لشکر دین نے مجھے سزائے موت کے سیل سے باہر نکال کر یہ خوش خبری دی کہ صاحب نے تمہیں بی کلاس دے دی ہے۔ میںخوشی کے مارے پھولا نہیں سما رہا تھابی کلاس پہنچا تو لاہور بورڈ کے ایک افسر میاں زمان وٹوپہلے سے موجود تھے۔ تین چار ماہ اچھے گذرگئے۔ساہی وال کی جیل بڑی سخت تھی کوئی غیر قانونی چیز اند ر نہیں لا سکتا تھا۔میری عمر رسیدہ والدہ اور بھائی تواتر سے ملاقات کیلئے آتے رہے۔جیل کے قیدیوں نے ہمیں پردیسی جان کر بہت عزت افزائی کی۔
قارئین آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور آیا ہوگا ہم نے ابھی تک جیل سپرنٹنڈنٹ کا نام کیوں نہیں لکھا۔وہ جیل سپرنٹنڈنٹ ملک مبشر صاحب تھے جنہیں حال ہی میں حق تعالیٰ نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کاعہدہ نصیب کیا ہے۔نئے آئی جی صاحب نے چارج سنبھالتے ہی قیدیوں کی تعلیمی معافیوںبہت بڑا مسئلہ حل کردیا ہے ۔آئی جی آفس میں قیدیوں کی معافیوں کے کیس سالوں پڑے رہتے تھے یہاں تک کہ قیدی رہا ہو جاتے تھے۔نئے آئی جی نے قیدیوں کو معافی دینے کا اختیار ریجن کے ڈی آئی جیز کو دے دیا ہے۔قیدیوں اور ملازمین کے مسائل کو حل کرنے کیلئے وٹس ایپ گروپ متعارف کرایا ہے۔ قیدیوں کے لواحقین اور ملازمین کوسفری اخراجات اور تھکان سے بچانے کیلئے آئی جی صاحب اقدامات اٹھارہے ہیں۔ ہمیں امید ہے وہ بے گناہ قیدیوں کو انتظامی امور سے محفوظ رکھنے کیلئے اقدامات کریں گے۔امید ہے جس جذبے سے ملازمین اور قیدیوں کی فلاح وبہبود کیلئے وہ کوشاں ہیں اسی جذبے سے جیلوں میں سب اچھا ختم کرنے کیلئے بھی انقلابی اقدامات کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button