ColumnImtiaz Aasi

عمران خان پر حملہ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

عوام کے مقبول ترین لیڈر اور سابق وزیراعظم عمران خان کو قتل کرنے کا منصوبہ ناکام ہوگیاہے ۔پاکستان کی سیاسی تاریخ وزراء اعظم پر حملوں سے عبارت ہے۔لیاقت باغ راولپنڈی میں وزیراعظم نواب زدہ لیاقت علی خان شہید کر دیئے گئے ان کو شہید کرنے والے افغان باشندے سید اکبر کو موقع پر گولی مار کر سانحہ کے پس پردہ حقائق کو چھپا دیا گیا۔سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹواسی میدان میں شہید کر دی گئیںاس موقع پر کرائم سین کے شواہد ختم کر دیئے گئے ۔غیر ملکی اداروں کی تحقیقات کے باوجود بے نظیربھٹو کے اصل ملزمان گرفتار نہ ہو سکے۔ا س سے پہلے وہ سانحہ کارساز میں بال بال محفوظ رہی تھیںحالانکہ جنرل پرویز مشرف نے انہیں وطن واپس آنے سے منع کیا تھا۔ اب عمران خان کے کنٹینر کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ حقیقی آزادی مارچ کی قیادت کر رہے تھے۔وزیرآباد کے ظفر علی خان چو ک میں پیش آنے والے سانحہ نے عمران خان کوایک نیا حوصلہ اور ولولہ دیا ہے وہ گولی کھانے کے باجود ہنستے مسکراتے عوام کو مکا دکھا رہے تھے جو اس امر کاغماز تھا کہ انہیں بزدلانہ حملوں سے مرعوب نہیں کیاجا سکتا۔
عمران خان پر حملے کی خبر سے چاروں صوبوں کے عوام احتجاج کے طورپر سڑکوں پر نکل آئے۔ جمہوریت کے دشمنوں کو عمران خان بڑے عرصہ سے کھٹک رہے تھے۔شہید بے نظیر بھٹواور عمران خان پر حملے میں خاصی مماثلت نظر آتی ہے، محترمہ پر حملہ کرنے والوں کی تعداد دو تھی ان پر حملہ سے پہلے فائرنگ کی آواز سنائی دی تازہ ترین واقعہ میں ملزمان نے پہلے فائرنگ کرکے عوام کی توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش کی۔سانحہ وزیرآباد میں عمران خان پر حملے کے دوران ایک شخص کی شہادت اور دیگر رہنماوں کے زخمی ہونے پرہر آنکھ اشکبار ہے۔اس سے پہلے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ تو کئی بار اس عہد کو دہرا چکے تھے کہ عمران خان کے فتنے کا خاتمہ ضروری ہے۔ عمران خان کو حملے کے خدشات کی اطلاعات تھیں اس کے باوجود وہ لانگ مارچ سے مسلسل خطاب کرتے آرہے تھے۔
سیاسی تاریخ میںماضی میں اس طرح کے اور کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔بھٹو دور میں جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی ڈاکٹر نذیر کو ڈیرہ غازی خان کے جلسہ میں شہید کر دیا گیا تھا۔اسی دور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق کو شہید کیا گیا۔چودھری ظہور الٰہی اسی دور میں شہید ہوئے ۔بھٹو دور کامشہور واقعہ ہے ۔اے این پی کے لیاقت باغ میں ہونے والے جلسہ میں کئی لوگ شہید ہوئے تھے۔اے این پی 1973 کے آئین کے خلاف جلسوں کا انعقاد کر رہی تھی۔بھٹو کی حکومت کے خاتمہ کے بعد جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے سانحہ لیاقت باغ میں ملوث پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنماوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا تھا۔یہ اور بات ہے کہ الذولفقار تنظیم نے پی آئی اے کا طیارہ اغوا کرکے کابل پہنچایا تو اغوا کاروں کے مطالبہ پر پیپلز پارٹی کے گرفتار لوگوں کو رہا کرکے کابل بھیجا گیا ۔عمران خان پر حملے کے بعد اندرون اور بیرون ملک تحریک انصاف کے ورکروں نے احتجاج کیا بہت سے شہروں میں سٹرکیں بلاک کر دی گئیں۔2018 کے انتخابات میں عمران خان اتحادی جماعتوں کے اشتراک سے وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے تھے۔بعض طالع آزماوں کی سازش کے نتیجہ میں انہیں عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹادیا گیا۔اقتدار سے ہٹنے کے بعد ان کی مقبولیت کو چار چاند لگ گئے اور وہ عوام کے مقبول ترین لیڈر کے طور پرابھرئے ہیں۔چلیں شہید لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو کے اصل ملزمان گرفتار نہیںہو سکے البتہ عمران خان پر حملہ کرنے والے ملزمان میں سے ایک کو موقع پر پکڑ لیا گیاہے لیکن حیرت تو اس پر ہے کہ عام طور پر کوئی اس طرح کا واقعہ پیش آجائے تو ملزمان تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے عمران خان پرحملہ کرنے والے ملزم کو پنجاب پولیس نہایت عجلت میںٹی وی چینلز پر دکھا کر نہ جانے کیامقاصد حاصل کرنا چاہتی تھی۔ایک اہم بات یہ ہے کہ منصوبہ سازوں نے عمران خان پر حملہ پنجاب کے حدود میں کرکے انہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہوئے۔غور طلب پہلو یہ ہے کہ پنجاب میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کامقصد اس واقعے کاملبہ پنجاب حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ایک ملزم کی موقع پر گرفتار ی سے اس واقعہ کے پس پردہ محرکات کا پتہ چلانے میں خاصی مدد ملے گی۔ٹی وی سکرینوںپر ملزم نوید کا یہ بیان کہ وہ لاہور سے عمران خان کا پیچھا کر رہا تھا اور اذان کے وقت ڈیک بجایا جا رہا تھا ۔ملز م کا یہ بیان عمران خان لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے طوطا کہانی ہے۔اس موقع پر پی ٹی آئی رکن ابتسام نے بڑی بہادری سے مسلح ملزم کوقابو کرکے بہادری کا مظاہر ہ کیاہے۔اس حملے میں فیصل جاوید کے علاوہ بزرگ سیاسی رہنما حامد ناصر چٹھہ کے فرزند احمد چٹھہ شدید زخمی ہیں۔سانحہ وزیرآباد میں عمران خان کے پائوں میں گولی لگنے کے باوجود انہوں نے لانگ مارچ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہی نے اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان پر حملے کے خلاف پنجا ب بار کونسل نے جمعہ کے روز عدالتی بائیکاٹ کیا۔
درحقیقت عمران خان پر حملہ کرکے انہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کی ناکام کوشش کی گئی وہ اس عہد کے مقبول ترین لیڈر ہیں عوام ان کی کال پروقت ضائع کئے بغیر سٹرکوں پر نکل آتے ہیں۔حالیہ ضمنی الیکشن میں عمران خان کی کامیابی نے حکومتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے ۔دراصل عمران خان کے کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف بیانئے نے انہیں عوام میں مقبول کر دیاہے۔عمران خان کے علاوہ کوئی وزارت عظمیٰ سے ہٹایا جاتا تو خاموشی اختیار کرلیتا عمران خان نے چپ سادھنے کی بجائے عوام میں جانے کا فیصلہ کرکے اپنے مخالفین کو حیرت زدہ کر دیا ۔خبروں کے مطابق عمران خان پر حملہ کا مقدمہ ابھی تک درج نہیں ہو سکا۔ قانونی نقطہ نظر سے ایف آئی آر میں تاخیر کا فائدہ ہمیشہ ملزمان کو ہوتا ہے ۔ہم مسلمانوں کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہے۔مولا علی ؓ کے قول کے مطابق موت زندگی کی خود حفاظت کرتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button