ColumnJabaar Ch

توشہ خانہ اور خان صاحب! .. جبار چودھری

جبار چودھری

توشہ خانہ میں عمران خان صاحب ایک دن کیلئے نااہل ہوئے ، ایک سال کیلئے ہوئے یا ایک ٹرم کیلئے یہ سب ثانوی باتیں ہیں ۔مرکزی اور حقیقی بات یہ ہے کہ عمران خان اس کیس میں مجرم ثابت ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں پیش کیے گئے حقائق اور ثبوت ثابت کرگئے ہیں کہ بطوروزیراعظم اور ایک سیاستدان انہوں نے پاکستان کے مروجہ قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔انہوں نے لالچ میں وہ کام کیا ہے جو بطورسیاستدان ایک جرم ہے اور اس کی سزانااہلی ہے۔الیکشن کمیشن کو ہر سال اپنی آمدنی، اس کے ذرائع اوراخراجات بتانا ہر رکن اسمبلی کیلئے لازمی ہے اور عمران خان نے اس کام میں جھوٹ بولا۔ انہوں نے ٹیکس گوشواروں میں پچانوے لاکھ ٹیکس تو ظاہرکردیا لیکن الیکشن کمیشن میں آمدنی اور اس کا ذریعہ چھپالیا۔توشہ خانہ کا قانونی کیس صرف اتنا ہی تھا۔ اخلاقیات معاشرے کیلئے ہوتی ہیں کہ تحفہ بیچنا ہمارے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن وہ کام قابل سزاہرگز نہیں ہے اور نہ ہی عمران خان صاحب کو اس کام پرکوئی سزا ملی ہے۔ اب عمران خان خود ہوں یا ان کے حمایتی صحافی، تجزیہ کار یا اپنی سوچ گروی رکھ کرہربات اور تجزیے پراندھا یقین کرنے والے ان کے کارکن ۔وہ جوبھی دلیلیں دیں کہ الیکشن کمیشن جانبدار تھا۔یہ کوئی کیس تھا ہی نہیں ، یہ سب دلیلیں اپنے آپ اورحمایتیوں کو تسلی کے سوا کچھ نہیں۔
ممکن ہے اسلام آباد ہائیکورٹ اس مقدمے میں اسٹے دے کر عمران خان کو ریلیف دے ڈالے وہ اس عدالت کا اختیار ہے لیکن توشہ خانہ کے اس ریفرنس کو سمجھنا اور جاننا ضروری ہے۔عمران خان صاحب جب توشہ خانہ کی تشریح کرتے ہیں تووہ اس پورے معاملے کو ایک الگ ہی رخ پر لے جاتے ہیں ۔ وہ رخ وہی ہے جو ان کو اور ان کے کارکنوں کیلئے فائدہ مندہ ہوتا ہے۔آپ ان کی کوئی بھی بات سن لیں ۔ کوئی بھی انٹرویودیکھ لیں۔ یہاں تک کہ جمعہ کے دن فیصلہ آنے کے بعد جو بارہ منٹ کا پیغام انہوںنے کارکنوں کیلئے ریلیز کیا ان بارہ منٹس میں انہوں نے تیرہ بارجھوٹ بولا۔وہ جب شروع کرتے ہیں تو سب کو یہ سمجھاتے ہیں کہ توشہ خانہ ہوتا کیا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے جو بھی تحائف لیے وہ قواعد کے مطابق لیے ، پچاس فیصد رقم دے کر لیے اور پھر ساتھ ہی نوازشریف اور زرداری کی بات شروع کردیتے ہیں کہ اصل کیس تو ان کے خلاف بنتا ہے۔جی بالکل بنتا ہے ان کے خلاف بھی بلکہ ان کے خلاف تو کیس بن کر چل بھی رہا ہے ۔اس کیس پر بھی میں آتا ہوں لیکن پہلے خان صاحب کا کیس سمجھ لیتے ہیں۔
تحائف توشہ خانہ سے لینے اورانہیں بیچنے تک خان صاحب سچ بولتے ہیں لیکن ان کے کیس کی اصل کہانی شروع ہی اس کے بعد ہوتی ہے۔اصل کہانی کی طرف نہ خود خان صاحب آتے ہیں نہ سامنے والوں کو آنے دیتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ اصل کہانی وہی ہے جو عمران خان صاحب خود بیان کرتے ہیں یا پھر کوئی اصل کہانی موجود ہی نہیں؟اصل کہانی یہ ہے کہ توشہ خانہ سے جو تحائف وصول کیے ان کے پیسوں کی ادائیگی کس نے کی؟ کیا وہ پیسے خان صاحب نے خود اپنی جیب سے اداکیے یا پھر جس دکان پر وہ تحائف بیچے گئے اسی دکاندار نے وہ قیمت سرکاری خزانے میں جمع کروائی اور باقی رقم خان صاحب کے اکاؤنٹ میں ڈال دی؟سچ یہ ہے کہ خان صاحب چونکہ وزیراعظم تھے اور ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان جو سرکاری کام اوپر نیچے کرنے کے ماسٹر قرار پا چکے ہیں انہوں نے تحائف وصول کرلیے لیکن پیسوں کی ادائیگی ان کو بیچنے کے بعد اسی دکاندار سے کروائی جس کو مال بیچا گیا۔قانون کے مطابق توشہ خانہ سے وصول کرتے وقت ادائیگی لازمی تھی جو نہیں کی گئی، لیکن الیکشن کمیشن کے سامنے تو یہ معاملہ بھی نہیں تھا کیونکہ اس کام کی جانچ الیکشن کمیشن کا کام نہیں ہے ۔ یہ کام نیب یا ایف آئی اے کا ہے اور عنقریب وہ یہ کام بھی کرے گی۔
الیکشن کمیشن میں کیس یہ تھا کہ عمران خان صاحب نے تحائف بیچ کر جو دس پندرہ کروڑ روپے کمائے ان کو اپنی آمدن میں ظاہر کرنا وہ ’’بھول‘‘ گئے ۔یہ بھولنے والا سارا نقطہ ہی پورا کیس تھا۔الیکشن کمیشن نے جب جواب مانگا تو خان صاحب نے بیچنے کا اعتراف توکرلیا لیکن اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے والے معاملے میں یہ کہا کہ انہوں نے ایک سال بعد یہ ظاہر کردیے تھے ۔الیکشن کمیشن نے جب اسٹیٹ بینک سے خان صاحب کے اکائونٹس اور پیسوں کی تفصیل منگوائی تو وہاں کمال کی کمائی کے ثبوت موجود پائے گئے ،یعنی پیسہ اکاونٹس میں موجود تھا لیکن الیکشن کمیشن کو جمع کروائے گئے گوشوراوں سے غائب۔اب ہمارا قانون تو یہ کہتا ہے کہ اگر آ پ نے کوئی تنخواہ لینی تھی لیکن آپ نے وہ نہیں لی ۔خواہ کسی بھی وجہ سے نہیں لے سکے وہ تنخواہ ،وہ پیسہ آ پ کا اثاثہ ہے،اور اگر آپ اس اثاثے کو ڈکلیئر کرنا’’بھول ‘‘جائیں تو پوری زندگی کیلئے سیاست سے آؤٹ ہونا لازمی ہو جاتا ہے۔خان صاحب کی قسمت تو اچھی خاصی اچھی کہ تاحیات نااہلی سے صاف بچ نکلے۔
اب اگر کبھی آپ خان صاحب کی توشہ خانہ پر کوئی گفتگو سنیں تو یہ سوال اپنے سامنے ضروررکھیں کہ کیا خان صاحب صرف تحائف لینے اور توشہ خانہ کا حدوداربعہ سمجھانے میں ہی مصروف رہے یا اصل ’’کمائی‘‘ کو ڈکلیئر نہ کرنے کی کوئی وجہ بھی بتاتے ہیں۔اب آتے ہیں زرداری صاحب اور نوازشریف کے توشہ خانہ کیسوں کی طرف ۔یہ دونوں پر ایک ہی کیس ہے بلکہ اصل کیس یوسف رضا گیلانی پر ہے اور زرداری اور نوازشریف شریک ملزم ہیں۔یہ کیس نیب میں ہے اور نوازشریف اس کیس میں بھی اشتہاری ہیں۔ یہ کیس عمران خان صاحب کے اثاثے چھپانے یا الیکشن کمیشن میں ڈکلیئر نہ کرنے جیسا کیس بالکل نہیں ہے اور نہ ہی یہ کیس الیکشن کمیشن میں ہے۔ یہ کیس نیب میں ہے۔ہاں ابھی عمران خان کے فیصلے سے چند دن پہلے اس کیس کو ریفرنس بناکر زلفی بخاری صاحب سپیکر کے پاس چھوڑآئے ہیں تاکہ جلسوں میں تقریروں کے کام آسکے۔توشہ خانہ سے دوچیزیں لے جانا منع ہے۔ایک کوئی تاریخی نوادرات اور دوسرا گاڑیاں۔ آصف علی زرداری اور نوازشریف پر گاڑیاں توشہ خانہ سے لے جانے کا کیس ہے۔جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے تو جناب صدر پاکستان آصف علی زرداری اور ان کے دشمن یا دوست نوازشریف صاحب کو توشہ خانہ میں موجود کسی غیرملکی بادشاہ کی طرف سے دی گئی گاڑیاں بہت زیادہ پسند آگئیں تو انہوں نے یوسف رضا گیلانی سے گاڑیاں لینے کی خواہش کی۔ یوسف رضا گیلانی صاحب بادشاہ آدمی ہیں انہوں نے قوانین کو تہہ وبالا کرکے گاڑیاں بیس فیصد قیمت اداکرنے کے بعد نوازشریف اور زرداری صاحب کو دے دیں ۔
معاملہ آیا گیا ہوگیا ۔ دونوں صاحبان گاڑیاں استعمال کرتے رہے کہ عمران خان صاحب حکومت میں آگئے اور نیب کا سورج بھی سوانیزے پر رکھ دیا گیا۔ جب نوازشریف قید خانے میں تھے اس وقت نیب کو بتایا کہ اگر مقدمات کم پڑرہے ہیں تو توشہ خانہ کا مقدمہ بھی موجود ہے۔اس پر نیب نے نوٹس لیا۔انکوائری ہوئی۔الزام درست تھا۔ قوانین کو تبدیل یا خلاف قانون کام ہواتھا تو نیب نے یہ کیس بنا دیا اس کیس کا ٹرائل باقی ہے اور یہ ٹرائل ہونا چاہیے، بالکل ہونا چاہیے، یوسف رضا گیلانی ہوں ، آصف علی زرداری ہوں یا نوازشریف ، جس جس نے اس قومی امانت پر ہاتھ صاف کیے ہیں ان پرہاتھ ڈالا جانا چاہیے لیکن ان کی وجہ سے خان صاحب کا کیس کمزور بالکل نہیں ہوتا۔خان صاحب کا توشہ خانہ کیس بالکل الگ نوعیت کا ہے ۔اس کیس میں عمران خان صاحب ایک دن کیلئے نااہل ہوئے، ایک سال کیلئے ہوئے یا ایک ٹرم کیلئے ، یہ سب ثانوی باتیں ہیں۔ مرکزی بات اور حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اس کیس میں مجرم ثابت ہوچکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button