ColumnM Anwar Griwal

ضمنی الیکشن اور پی ٹی آئی کی سیاست!! .. محمد انور گریوال

محمد انور گریوال

 

حالیہ ضمنی الیکشن نے پاکستان میں نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔ لوگوں نے یہ منظر نہ پہلے کبھی دیکھا نہ سُنا۔ تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو عمران خان نے زخمی شیر کا رُوپ دھار لیا، ایک دن بھی نہ خود چین سے بیٹھے نہ حکومت کو بیٹھنے دیا۔ اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان بھی کیا۔ یہ اُن کے جمہوری حق ہیں۔ پھر حکومت نے سیاست کی بساط پر اپنا پتہ کھیلتے ہوئے پی ٹی آئی کے چند ممبران اسمبلی کے استعفے قبول کرکے سیٹیں خالی قرار دے دیں، حالانکہ یا وہ سب کے استعفے قبول کرتے یا کسی کے بھی نہیں۔ یوں ضمنی الیکشن کا میدان سج گیا۔ عمران خان کے اس اعلان سے قوم حیران رہ گئی کہ وہ مخالف ٹیم کے مقابلے میں اکیلے ہی بیٹنگ کریں گے۔ ملتان کے ایک حلقے میں شاہ محمود قریشی کے بیٹے نے سیٹ خالی کی تھی، جس پر انہوں نے اپنی بیٹی کو پارٹی ٹکٹ لے دیا۔ نتیجہ سب نے دیکھ لیا کہ ملتان اور کراچی سے ایک سیٹ کے علاوہ عمران خان نے میدان مار لیا۔
اس اہم جمہوری فیصلے کے پیچھے پی ٹی آئی کی کوئی منصوبہ بندی تو شامل ہے، جس کا شاید پارٹی کے جذباتی کارکنوں کو بھی علم نہیں، کہ جیتی ہوئی سیٹوں کا کرنا کیا ہے۔ کیا خان صاحب انہیں خالی کر دیں گے کہ دوبارہ ضمنی الیکشن کا ڈول ڈالا جائے، یا وہ سیٹوں کو لٹکائے رکھیں گے کہ نہ حلف اٹھائیں گے اور نہ مستعفی ہوں گے۔ کیا دوبارہ بھی خود ہی تنہا میدان
میں اتریں گے یا اپنی ٹیم کو بھیجیں گے، اگر خود ہی یہ معرکہ سر کریں گے تو پھر کیا ہوگا؟ پھر استعفیٰ، پھر الیکشن۔ پھر استعفیٰ پھر الیکشن، علیٰ ہٰذالقیاس ، یعنی چل سو چل۔سیٹیں لٹکائے رکھنے کے سلسلہ میں دو مثالیں ایسی ہیں جن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیٹوں کو ’’لٹکایا‘‘بھی جاسکتا ہے۔ ایک چودھری نثار علی خان کہ جنہوں نے قریباً تین سال تک پنجاب اسمبلی کے ممبر کی طرف سے حلف نہیں اٹھایا تھا۔ دوسرے اسحاق ڈار، جو ایوانِ بالا کے رکن تو تھے، مگر جب تک لندن میں رہے حلف کی نوبت نہ آئی۔
تحریکِ انصاف کا سب سے بڑا مطالبہ نئے الیکشن کا ہے، عمران خان کی عوامی مقبولیت شک و شبہ سے بالا تر ہے، حکومت سے الگ کئے جانے کے بعد اُن کے جلسے وغیرہ ظاہر کر رہے ہیں کہ وہی مقبول ترین پارٹی رہنما ہیں، اسی معاملے پر مہرِ تصدیق ثبت کروانے کیلئے انھوں نے خود الیکشن لڑا اور جیت کر دکھایا۔ اِس جیت میں اُن کی مقبولیت کے ساتھ حکومت کی نااہلی کا بھی بڑا عمل دخل ہے، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ عمران حکومت پر عدمِ اعتماد موجودہ حکومت کے خلاف ناکامی کا طوق بن چکا ہے، یہ لوگ اپنی مقبولیت کھو چکے ہیں۔ اتحادی حکومت سے نفرت کا فائدہ بھی عمران خان کو ہوا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ اب چھ سیٹیں خالی کرنا ہوں گی، گویا یہاں لگنے والا کروڑوں روپیہ کس کھاتے میں جائے گا۔ آخر وہ پیسہ جیتنے اور ہارنے والی سیاسی پارٹیوں نے بھی لگایا، کروڑوں الیکشن کمیشن (یعنی قومی خزانے ) کے بھی لگے ، یہ اربوں روپے تو ضائع ہوئے۔اِس وقت ملک میں معاشی حالت جو بھی ہے، اُسے تو حکومت کے کھاتے میں ڈال کر مسئلہ حل ہو سکتا ہے، مگر سیاستدانوں کو اندازہ نہیں کہ سیلاب تو ایک دہشت کی صورت میں آیا تھا، مگر سیلاب کے بعد کے حالات اُس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ جب سیلاب زدگان واپس گئے، تو کیا حالات ہیں، گھر گِر گئے، فصل تباہ ہوگئی، بے حد معاشی نقصان ہوا، مدد کرنے والے چند روز جذباتی ہوئے، پھر خاموشی کی بُکل مار کر بیٹھ گئے، کہ سیلاب آیا تھا، گزر گیا، اللہ اللہ ،
خیر صلّا۔ وہاں خوراک کی سخت قلت ہے، وہاں تعمیر کا کام بہت ہنگامی بنیادوں پر کئے جانے کی ضرورت ہے، وہاں بیماریاں پھیل رہی ہیں، موسم کے لحاظ سے گرم کپڑے چاہئیں۔ حکومت نے جو غیر ملکی مدد حاصل کی وہ کہاں ہے کسی کو علم نہیں۔ عمران خان نے جو اَربوں روپے اکٹھے کئے تھے وہ کس علاقے میں خرچ ہوئے کوئی نہیں جانتا۔اگر یہ کہا جائے کہ سیاستدانوں نے سیلاب زدگان پر کوئی توجہ ہی نہیں دی تو بے جا نہ ہوگا۔ اگر عمران خان نے سیلاب زدگان کی مکمل نظر انداز کرکے جلسوں پر تمام تر توجہ دی ہے، تو اُن کے چاہنے والوں کے پاس اس کے بھی بہت جواز موجود ہیں۔
تحریکِ انصاف کے قائد نے اپنی عوام کو آزادی کا سبق خوب ازبر کروا دیا ہے، لیکن خود پارٹی مکمل ذہنی غلامی کا شکار ہے، کہ خان صاحب کی زبان سے جو لفظ نکلا وہ حرفِ آخر ہے۔ اب ملتان سے شاہ محمود قریشی کی بیٹی الیکشن ہار ہی رہی تھی کہ کارکنوں کی طرف سے نیا بیانیہ جاری ہوگیا، کہ عمران خان موروثی سیاست کے خلاف ہیں، اس لیے کارکن ناراض ہو کر، (اور سبق سکھانے کیلئے) باہر نہیں نکلا۔ گویا کارکن کے شعور نے قریشی پارٹی کو شکست دے دی۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ آیا یہ ٹکٹ شاہ محمود نے زبردستی اُچک لیا تھا، یایہ بھی تو خان صاحب نے ہی جاری کیا ہوگا؟ خان صاحب کے خلاف تو چونکہ کچھ سننے کی ہمت نہیں، اس لیے شکست کا ملبہ قریشی کی موروثیت پر گرا یا جا رہا ہے۔ خان صاحب تو واقعی مقبولیت کے بامِ عروج پر ہیں، مگر اُن کے بغیر پارٹی کا وجود کیا ہے؟ اُنہیں اندازہ تھا کہ اگر علاقائی امیدواروں کو موقع دیا گیا تو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک کھلاڑی ہونے کے ناطے دوسرے کو برداشت کرنے کا درس جو کھیل میں دیا جاتا ہے، یہاں معاملہ بر عکس ہے، نہ کھیلیں گے، نہ کھیلنے دیں گے والی صورتِ حال ہے۔
الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کی طرف سے گالیوں کاسلسلہ خوب گرم ہے، مگر اُسی کمیشن کے تحت الیکشن لڑ لیا گیا، جن اسمبلیوں میں کئی ماہ سے قدم نہیں رکھا، اور رکھنا بھی نہیں، اُسی کیلئے اربوں روپے لٹا دیئے گئے، مشہورِ زمانہ دھرنے کے بعد چھ ماہ غیر حاضری کے باوجود تنخواہ وصول کر لی تھی۔یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ حکومت ختم ہونے سے اب تک گزشتہ چھ ماہ سے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے معزز ممبران تنخواہ بھی وصول کررہے ہیں یا دیانتداری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تنخواہ سے انکاری ہیں۔خان صاحب قوم کو آزادی دلانے کا عزم کئے ہوئے ہیں، مگریہ ضمنی الیکشن اُن کی آمریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگرچہ زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنے کی اجازت آئین نے دے رکھی ہے، کیا اگلے قومی الیکشن میں بھی خان صاحب اکیلے ہی بیٹنگ کریں گے؟

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button