ColumnNasir Naqvi

کھلتے بند ہوتے دروازے! .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

سوشل میڈیا پر یہ پیغام دیکھا جاسکتا ہے کہ صاحب منصب اور بڑے آدمیوں کے لیے نہ صرف عدالتوں کے دروازے ہر وقت کھلتے ہیں بلکہ خانہ کعبہ کا دروازہ بھی ان ہی کے لیے کھلتا ہے غریب اور عام آدمی تو صرف چکرہی لگاتا دکھائی دیتا ہے ۔ہماری کیسی بدنصیبی ہے کہ دنیاوی رسم و رواج میں کمزور انسان تو فٹ بال بناہوا ہے اللہ جو سب سے بڑا انصاف کرنے والا ہے اس کے گھر میں بھی صاحب حیثیت کا ایسا قبضہ ہے کہ وہ بھی غریب اور کمزور کو چکر پر چکر لگوا کر نہ صرف خوش رکھتا ہے بلکہ اپنی خوش بختی پرفخر بھی محسوس کرتا ہے۔اسے ماہر زبان میں یقیناً خوش قسمتی ہی کہا اور سمجھا جاسکتا ہے جس کے لیے دروازہ کھلا وہ بھی اور جس نے محض چکر لگائے کیونکہ طواف کعبہ ہی سنت اور فریضہ ہے باقی سمجھیں کہ دکھاوا ہی ہے اگر کوئی سمجھے تو۔۔۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی ایسے نظارے دیکھے گئے بلکہ اب تو یہ رواج چل نکلا ہے کہ چاہے عدالت عظمیٰ ہو کہ عالیہ دروازے رات کے اندھیرے میں بھی کھل جاتے ہیں اچانک روشنیاں کی جاتی ہیں اور عدالتیں نہ صرف سج جاتی ہیں بلکہ ضرورت مند کو انصاف بھی مل جاتا ہے اس لیے کہ انصاف کو کسی گھڑی بھی روکا نہیں جاسکتا، لیکن ایسا سب کے لیے ہرگز نہیں، یقیناً آج نہیں تو کل شاید کوئی تبدیلی آجائے، فی الحال تو غریب اور کمزور انصاف کے لیے زندگی بھر چکر لگانے پر مجبور ہے اس کی بدقسمتی کہ نظام انصاف ایسا نہیں کہ اس کی بے گناہی ثابت ہوسکے یا اسے انصاف حق دلادے پھر بھی حصول انصاف ممکن ہے داد جان اگر مقدمہ دائر کریں تو ان کے دنیا سے رخصتی کے بعد پوتے یا پڑپوتے کو فیصلہ مل ہی جاتا ہے بلکہ بہت سوں کو زندگی میں بھی انصاف یوں مل رہا ہے کہ دس بارہ بلکہ چودہ سال بعد بھی غلط اور ناکردہ گناہ پر بھی گرفتار باعزت بری ہوہی جاتا ہے اور اس کے عزیزواقارب اس پر بھی سجدہ شکر بجالاتے ہیں دوسری جانب اقبال جرم کرنے والا مجرم فرد جرم عائد ہونے کے باوجود مہینے سالوں میں عدم شواہد کی بناء پر صرف اس لئے سزا سے بچ جاتا ہے کہ شک کا فائدہ ہمیشہ مجرم و ملزم کا حق سمجھا جاتا ہے۔ قوانین میں ترامیم اور حصول انصاف میں اگر تیزی پیدا ہوجائے تو معاملات جلدی سدھارے جاسکتے ہیں۔
تبدیلی سرکار برسراقتدار آئی تو ایک وعدہ نظام انصاف کا بھی تھا لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔اسی طرح دو نہیں ایک پاکستان کے نعرے کا مطلب بھی کچھ یہی تھا کہ معاشرے سے تضاد بیانی کا خاتمہ کرکے دوہرا معیار ختم کیا جائے گا تاکہ نیا پاکستان بنایا جاسکے پھر بھی کچھ نہیں ہوسکا۔احتساب کی بات بھی کی گئی لوگ خوش تھے کہ ریاست مدینہ میں چھوٹے بڑے ہر قسم کے چوروں، ڈاکوئوں اور قومی لٹیروں کے گریبان تک ہاتھ جائے گا اسی لیے جب بلاامتیازسابق حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کی
جائز ناجائز پکڑ دھکڑ اور جکڑ کا مرحلہ آیا تو قوم نے برداشت کیا لیکن نتیجہ صفررہا اس لیے کہ صاحب اقتدار ذمہ داروں نے انتقام اور اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کےلئے کاغذات یعنی کسی بھی مقدمے کی دستاویزات اور شواہد پر توجہ نہیں دی۔ لہٰذا جونہی تبدیلی سرکار کا تخت عرش سے فرش پرآیا معاملات یکسر بدل گئے خان اعظم چونکہ حقائق آشنا تھے اس لیے ایڈوانس شور مچادیا کہ شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کی حکومت اپنے مقدمات ختم کرانے آئی ہے۔انہیں اپنی ٹیم کی نالائقی کا علم تھا کہ دستاویزات اور شواہد کے بغیر ساڑھے تین سال میں ان ملزموں کو سزا نہیں مل سکی تو ان کے بعد تمام کو عدالتوں سے ریلیف مل جائیگا ۔ یوں انہوں نے قبل از وقت این آر او نہ دینے کا شوشا چھوڑ دیا اور اب مقدمات سے بریت پر نئے انداز میں سیاسی ہنگامہ آرائی سے یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جو انہوں نے کہا تھا وہ سچ ثابت ہورہا ہے ۔سب این آر او کی تلاش میں ہیں منی لانڈرنگ کیس میں بریت کو سابق گورنرپنجاب عمر سرفراز چیمہ این آر او کا خاتمہ قرار دے رہے ہیںجبکہ حقیقت یہی ہے کہ پتہ عمران خان صاحب کو بھی تھا کہ بات عدالت تک جائے گی اور ان پر خصوصی دبائو نہ ہوا تو سب کو ریلیف مل جائے گا ۔نیب مقدمات میں ہی نہی دوسرے کیسز میںبھی سرکار کی جانب سے فائل کے پیٹ بھرے گئے اور اور حقیقی انداز میں کوئی
ٹھوس ثبوت نہیں دیئے گئے ایسی صورتحال میں
عقل کے اندھے بھی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ دستاویزات کی غیر موجودگی کا فائدہ صرف ملزم کوہوتا ہے۔ہر مقدمے میں وعدہ معاف گواہ اور وقتی طور پرکاغذات بنا کر شامل کئے گئے۔ احتساب کے خصوصی ٹھیکیدار شہزاد اکبر کئی کئی کلو کاغذات پریس کانفرنسز میں لہراتے اور دکھاتے رہے لیکن جھوٹ کو سچ ثابت نہیں کر سکے۔اسی لیے ایک کے بعد دوسرا مقدمہ بھی ختم ہوتا گیااور عمران خان اپنی سبکی مٹانے کے لیے خریدوفروخت دھونس اور دبائو کا بیاینہ عام کرنے میں مصروف ہیں۔اقتدار کی فراغت سے بھی کچھ نیا نہیں سیکھا۔اس لیے کہ انہیں کسی خاص نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی،لیکن نتیجہ بالکل الٹ نکلا۔جس وجہ سے عمران خان بھی ڈسٹرب ہوگئے۔پہلا سوال یہ اٹھایا گیاکہ سپریم کورٹ کے دروازے رات کو کیوں کھلے؟قوم نے بھی ری ایکشن دیا اور خان اعظم اس بیانیے پر اس حد تک کھل کر کھیلے کہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے پی ڈی ایم کو ریلیف دینے کے لیے یہ انہونی کی گئی،حالانکہ ایسا سپریم کورٹ نے اپنے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کیااور جونہی مطلوبہ نتیجہ مل گیا عدالتی دروازے بغیر کارروائی کے بند کردئیے گئے۔مسئلہ غیرآئینی طریقے سے اسمبلی توڑنے کا بھی سب نے دیکھااور اس کی بحالی بھی،ایسے میں عمران خان نے اسمبلی نہ جانے کا فیصلہ کرکے دبائو بڑھانے کی کوشش کی۔ان کے استعفے نہ تو منظور ہوئے نہ ہی وہ سمجھانے کے باوجود پارلیمنٹ میں جانے کو رضا مند ہیں پچیس مئی کے لانگ مارچ نے بھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ مقدمات بنے اور اب بھی بن رہے ہیں ۔دروازے کھلتے بندہوتے بھی نظر آرہے ہیں۔عدالت عدالت ، ضمانت ضمانت بھی کھیلا جارہا ہے۔لیکن حقیقی پارلیمانی نظام کے لیے پارلیمنٹ کے استحکام کی بجائے اس کی بے توقیری کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا جارہا صدر مملکت کے مشترکہ پارلیمنٹ اجلاس کی کارروائی بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔جہاں ان کی اپنی جماعت اور حکمرانوں نے بھی صدر مملکت کا ساتھ نہیں دیا۔ دونوں کا ایک ہی رویہ تھا بائیکاٹ، پارلیمنٹ کے دروازے کھلے کچھ آئے کچھ غیر حاضر رہے اور جو آئے وہ بھی اٹھ کر چلے گئے ایسے میں بھلا پارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام کس طرح چل سکے گا۔صدر مملکت نے ایک نجی ٹی وی پر آدھا سچ بولا تو وہ بھی انہیں ہضم نہیں ہوسکا۔حالات کے دبائو میں آئے تو بول اٹھے ، چھوٹا آدمی ہوں بڑی جگہ پر آگیا (ڈیزرو) نہیں کرتا تھا پھر دل گھبرایا تو کہہ دیا کہ پاک فوج کا کردار اچھا ہے جبکہ ان کے قائد عمران خان جگہ جگہ کہتے پھر تے ہیں جو کچھ ہوا جو کچھ ہورہا ہے وہ فوج کا کمال ہے میں وزیراعظم تھا لیکن طاقت کسی اور کے پاس تھی۔ایسے میں بھی ان کا متضاد بیانیہ قابل غور ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے چوری اور ڈکیتی بچانے کے لیے قانون بدل دیئے۔دوسری جانب کہتے ہیں اگر دو اعلیٰ فوجی افسران مداخلت نہ کرتے تو نواز شریف کو سزا نہ ملتی اب عام پاکستانی کس بات پر یقین کرے کہ سپریم کورٹ سے صادق و امین کی سند حاصل کرنے والے عمران خان سچے ہیں یا قومی اداروں کے کھلتے بند دروازے جو انہیں بات بات پر مختلف مقدمات میں طلب کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button