ColumnNasir Sherazi

رادھا کا رقص دیکھنے کی حسرت .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

زمانہ بدلتے ہی پیمانے بدل جاتے ہیں مگر مے خانے نہیں بدلتے، اسیروں کا حال بھی کچھ ملتا جلتا ہے، زلف گرہ گیر کے اسیر رہائی نہیں چاہتے۔ میدان سیاست کا احوال کبھی طربیہ تھا اب المیہ بنتا جارہا ہے، واحد بڑی اپوزیشن جماعت تحریک انصاف ہے جس کی طرف سے گذشتہ دس روز سے ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا کہ ٹائیگر نے بازی پلٹ دی ہے، بازی کھلی تو انکشاف ہوا کہ بازی پلٹی ضرور ہے مگر اپنے حق میں نہیں ،اپنے خلاف پلٹی ہے اور اس کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایاگیا ہے۔ بتایا جاتا رہا کہ باس بے حد پریشان ہے ،اس کی راتوں کی نیند اڑ چکی ہے، اُسے بھوک لگنا ختم ہوگئی ہے، وہ صبح سے شام تک ٹھنڈا پانی پیتا ہے اور لمبی لمبی آہیں بھرتا ہے، پھر کہاگیا کہ وہ ہر روز پیغام بھیجتا ہے کہ اپنی من موہنی صورت دکھا جائو لیکن ٹائیگر نہیں مانتا، اگلے روز افواہ پھیلائی گئی کہ باس کی خواہش پر ایک نہیں بلکہ مختلف وقفوں سے چند روز میں تین ملاقاتیں ہوچکی ہیں، سب کچھ طے پاگیا ہے، جس کی تفصیل کے مطابق باس اور اس کی پوری ٹیم ملاقات کی شام ہاتھوں میں گلاب تھامے منتظر تھی۔ اپنے کئے پر اظہار ندامت کے بعد انہوں نے دو ذانوں ہوکر التجا کی کہ جناب ٹائیگر، ہم اپنے چال چلن پر شرمندہ ہیں اور اس کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں وہ یوں کہ آپ کو، کاندھوں پر بٹھاکر وہیں پہنچادیں گے جہاں سے آپ کو بے آبرو ہوکر جانا پڑا، موجودہ حکومت کا اُسی روز اسی لمحے تختہ الٹ دیں گے جس روز آپ کا انتخاب کریں گے۔ دست غیب کا استعمال کرتے ہوئے انہیں واپس لے آئیں گے جو ساتھ چھوڑ گئے، باقی رہا معاملہ انتخابات کا تو وہ کوئی مسئلہ ہی نہیں، اسی برس دو ایک ماہ میں ان کے انعقاد کا اعلان کرائے دیتے ہیں، اہم عہدے پر تقرر آپ کے سوا کسی کا استحقاق نہیں کیونکہ آپ دن بدن خطرناک ہوتے جارہے ہیں اور ہم اب مزید کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ لہٰذا ہم بھی آپ کے، ہمارا سب کچھ بھی آپ کا ہوا۔ یہ تھا وہ جھوٹ جو بھاگا چلا جارہا تھا، اس جھوٹ نے چشم زون میں پہلے اسلام آباد کا چکر کاٹا پھر وہ تمام صوبائی دارالحکومتوں سے ہوتا ہوا پورے پاکستان میں گھوم گیا، تیز رفتاری قابل دید تھی، اسی رفتار سے دوڑتے ہوئے راہ میں پڑے ایک سچ سے ایسی ٹھوکر لگی کہ منہ کے بل گرا ہے۔ گھٹنے، ٹخنے چھل گئے ہیں۔ جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر خراشیں نہ آئی ہوں۔ جس سچ سے ٹھوکر لگی وہ یہ ہے کہ فقط ایک ملاقات تھی وہ بھی صدر مملکت کی فرمائش پر جہاں ٹائیگر اچانک بن بلائے پہنچ گیا اور اس نے وہ سب کچھ عملاً کردکھایا جو باس سے منسوب کیا جارہا تھا۔
ملاقات ختم ہوئی تو دامن خالی تھا، ہاتھ بھی خالی تھے، ٹائیگر واپس پلٹا تو سخت طیش میں تھا اُس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ آخری معرکے، کے لیے نکلے گا اور نظام سمیت راہ میں آنے والی ہر چیز کو چبا ڈالے گا، اسی خیال کے تحت اُس نے دانت تیز کرنے کے لیے دندان ساز کو طلب کیا جس نے مکمل معائنے کے بعد اِسے بتایا کہ اس کے دانتوں میں اب کسی کو چباڈالنے کی طاقت نہیں رہی اور ہر آنے والے دن کے ساتھ یہ طاقت ختم ہورہی ہے۔ اس رپورٹ کے بعد ٹائیگر سوچ میں ڈوب گیا، حواس بحال ہوئے تو اس نے معالج سے پوچھا کہ چبانے والے دانت کسی سے کرائے پر حاصل کئے جائیں یا کسی سے اُدھار لے لیے جائیں، جواب ملا دکھانے کے دانت تو بہت قسموں کے دستیاب ہیں لیکن کھانے کے دانت کسی کو دینے کا اب رواج نہیں رہا۔ ٹائیگر کے لیے یہ بات بے حد پریشانی کی تھی۔ کافی سوچ و بچار اوردوستوں سے مشورے کے بعد دیرینہ دوست مقیم کینیڈا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر اِدھر سے مکمل خاموشی ہے اور خاموشی ہی رہے گی، اگر جواب آیا بھی تو یہ جواب ہوگا کہ مطلوبہ نمبر پر موجود صارف آپ کو پہچاننے سے انکاری ہے۔
قرائن سے پتا چلتا ہے کہ صرف ایک ریلیف ملا ہے وہ بھی منتوں، مرادوں اورنیک چلنی کی ضمانت پر، وہ یہ کہ عام انتخابات سے قبل کوئی گرفتاری نہیں ہوگی، کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں آئے گا، نااہل نہیں کیا جائے گا، عام انتخابات جو آئندہ برس ہونا قرار پائے ہیں، ان میں شرکت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی جبکہ آئندہ حکومت کی تشکیل تک سب کچھ ’’سٹینڈ سٹل‘‘ رکھا جائے گا۔
ٹائیگر کو کبھی کبھار غرانے کی اجازت ہوگی جس کا برا نہیں منایا جائے گا، لیکن اُسے ملک اور ملکی معیشت کو کسی نئے امتحان میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، قانون کو ہاتھ میں لینے کی کسی بھی سطح پر کوشش کی گئی تو پھر وہی کچھ ہوگا جو سابق وزیر داخلہ شیخ رشید اپنے زمانہ اقتدار میں اپوزیشن کے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے کہا کرتے تھے اور اس شدت سے کہتے تھے کہ منہ سے کف جاری ہوجاتا تھا، ان کی حکومت اس وقت بلاشبہ ایک منتخب حکومت تھی وہ جیسے تیسے بھی منتخب ہوئی تھی اس حوالے سے اب تمام ابہام دور ہوچکے ہیں لیکن انہیں اپنی حکومت کو گرانے سے بچانے کے لیے جو قانونی جواز حاصل تھا وہ آج ان کی مخالف حکومت کو بھی حاصل ہے۔
کرکٹ کے کھیل اور سیاست و حکومت کے کھیل میں ایک قدر مشترک نظر آتی ہے کبھی دل جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے کبھی میچ جیتنے کی سعی کی جاتی ہے، کرکٹ کے میدانوں میں بھارت کے ساتھ ہونے والے میچوں میں ہاتھ میں موجود جیت کو پرے پھینک کر بھارتیوں کے دل جیتے گئے، حال ہی میں سری لنکا کے مقابلے میں ہر لحاظ سے بہترین ٹیم ہونے کے باوجود فتح کی بجائے شکست کو گلے لگایا گیا، آپ اس حوالے سے جو جی چاہے کہیں لیکن ہم نے سری لنکا کے دل جیتنے کی دومرتبہ شعوری کوشش کی ہے جس میں ہم کامیاب رہے ہیں۔ یاد رہے سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ پاکستان میں پاکستان دشمنوںنے کیا تھا جس کے زخم بہت دیر تک ہرے رہے پھر کئی برس بعد غیر ملکی پاکستان دشمنوں نے نہیں بلکہ پاکستان میں موجود پاکستان دشمنوں نے سیالکوٹ شہر میں ایک معصوم اور بے گناہ سری لنکن کو زندہ جلادیا، پہلے زخم مشکل سے بھرے تھے کہ ایک نیا زخم دے دیاگیا، ان زخموں پر مرہم رکھنا ضروری تھا، سری لنکن قوم کا دل جیتنا ضروری تھا، میچ تو کسی بھی وقت جیتا جاسکتا ہے۔
ٹائیگر کو کئی ماہ روز و شب کی تیاری کے بعد اب شاید اندازہ ہوچلا ہے کہ وہ لانگ مارچ یا دھرنا میچ نہیں جیت سکتا، یہی وجہ ہے کہ متعدد مرتبہ اعلان کرنے کا وعدہ کرکے آئندہ کی تاریخ دے دی گئی، دو روز قبل خیال کیاجارہا تھا کہ آج یہ فائنل میچ شروع ہوجائے گا مگر نہیں، ٹائیگر اب اپنے ورکرز کا صرف دل جیتنے کی کوشش کرتا نظر آئے گا، وہ اس کی وجہ کچھ بھی بیان کرے مگر حقیقت یہی ہے کہ نومن تیل اکٹھا نہیں ہوسکا، لہٰذا رادھا نہیں ناچے گی، رادھا کا آخری رقص دیکھنے کی حسرت رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button