ColumnTazeen Akhtar

نور، ظاہر سے سارہ، شاہنواز تک .. تزئین اختر

تزئین اختر

نور، ظاہر سے سارہ، شاہنواز تک یہ 2 ہائی پروفائل دولتمند باپوں، 2 ہائی پروفائل امیر سماجی کارکن ماؤں، 2 وحشی بیٹوں اور 2 انتہائی بدقسمت بے دردی سے قتل کی گئی عورتوں کی کہانیاں ہیں جنہوں نے اپنے منتخب مردوں کے تمام جرائم کو نظرانداز کیاکیونکہ وہ امیر باپوں اور ماؤں کے وارث تھے۔ یہ کہانیاں ہمیں سبق سکھاتی ہے کہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی دیکھ بھال کریں۔انہیں اچھی تربیت دیں۔ ان پہ نظر رکھیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔
دولت جھگڑوں اور فساد کی جڑ ہے۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ اکٹھا کرنا ہمارے اکثر مردوں اور عورتوں کا بنیادی مقصد ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کہاں سے اور کیسے آتا ہے؟ عورتیں دولت مند لوگوں کو تلاش کرتی ہیں، اس بات کو ذہن میں رکھے بغیر کہ اس شخص نے ماضی میں دوسری عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور اس شخص کی ذہنی حالت اور سابقہ مجرمانہ ریکارڈ کیا ہے جس سے وہ دولت کے لیے شادی کرنے جا رہی ہیں۔امیر مردوں کے پاس ایسی عورتوں کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے جواز ہوتے ہیں کہ وہ ہمیں شکار کرنے آئی ہے تو ہم اسے نشانہ کیوں نہ بنائیں؟ نتیجتاً ہم نور مقدم اور سارہ شاہنواز جیسی کہانیاں سنتے ہیں جو اس بات پر بہت کچھ بول رہی ہیں کہ ہمارا معاشرہ بالخصوص پاکستانی ایلیٹ کلاس کس قدر بوسیدہ ہو چکی ہے۔ایسی شادیوں اور تعلقات کا پھر وہی انجام ہو تا ہے جو نور، ظاہر سے سارہ، شاہنواز تک ہوا،اس لیے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کا شکار کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی خلوص نہیں ہوتا۔
نور مقدم کو اس کے اپنے انتخاب ظاہر جعفر نے قتل کیا۔ ظاہر جعفر ارب پتی ذاکر جعفر کا بیٹا ہے اور اس کی والدہ عصمت جعفر اپنے بیٹے کے اس گھناؤنے جرم کے ارتکاب سے قبل اسلام آباد کے سماجی اور سفارتی حلقوں میں سرگرم خاتون تھیں۔نور مقدم اچھی طرح جانتی تھی کہ ظاہر جعفر کتنی اذیت ناک اور پریشان کن شخصیت ہے، پہلے نور مقدم نے ظاہر سے دوستی کی جس سے نور کے والد اور والدہ بخوبی واقف تھے لیکن انہیں کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ ظاہر امیر باپ کا بیٹا تھا۔ آخر کار جب وہ اس کی حرکتوں کی وجہ سے اس سے چھٹکارا پانے والی تھی تو ظاہر نے اس کی عصمت دری کے بعد اس کا گلا کاٹ دیا۔
سارہ، کینیڈین شہری، والدین امریکہ میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر شاہنواز سے ملی، یہ جانتے ہوئے کہ اس نے چند ہفتوں کے مختصر عرصے میں دو بیویاں غیر معمولی حالات میں چھوڑی ہیں، اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔شاہنواز کی پہلی اہلیہ کا نام بھی سا رہ ہے۔شاہنواز کی والدہ کا نام ثمینہ پیرزادہ ہے۔ ثمینہ نے ایازامیر سے طلاق لے لی اورحفیظ پیرزادہ سابق وزیر قانون مرحوم زیڈ اے بھٹو سے شادی کرلی۔ شاہنواز کو حفیظ پیرزادہ کے پاس لے گئیں۔ میں نے کئی سال پہلے ثمینہ حفیظ پیرزادہ کا انٹرویو کیا تھا۔ وہ اس وقت سوشل ورک میں تھیں۔ ایاز امیر کے بعد حفیظ سے شادی کی۔ میں نے ثمینہ کو بہت ذہین اور کمپوزڈ خاتون پایا۔ وہ فارم ہاؤس پر موجود تھیں جب شاہنواز نے اپنی بیوی کا سر ڈمبل سے پھاڑ دیا اور بے ہوش بیوی کو نہانے کے ٹب میں پھینک کر پانی کھول دیا۔
شاہنواز کم عمری سے ہی مجرمانہ ذہنیت کا مالک تھا۔ اس نے سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے ایک راہگیر کو مار ڈالا۔ 14 سالہ لڑکی کو اغوا کیا جس پر حفیظ پیرزادہ نے اسے گھر سے نکال دیا۔ اب یہ شاہنواز پولیس کو بتا رہا ہے کہ سارہ مجھے مارنا چاہتی تھی۔ پہلے مجھ پر حملہ کیا۔شک تھا سارہ کا کسی کیساتھ معاملہ چل رہا ہے لیکن بات کرنے پر اس نے مطمئن کردیا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ کسی کہ ایجنٹ ہے۔ جمعرات کی شب مجھے گلے سے پکڑا لیکن میں نے پیچھے دھکیل دیا۔جمعہ کی صبح بھی اس نے یہی کام کیا مجھے لگا میں دم گھٹنے سے مر جائوں گا۔میں نے سارہ کو دھکا دیا وہ گر گئی اور اٹھ کر دوبارہ مجھ پر حملہ کیا،میں نے ڈمبل اسکو مارا وہ زخمی ہو گئی۔ خون پھیلنے پر اسکو باتھ ٹب میں ڈال کر پانی کھول دیا۔ سخت گھبرا گیا۔ تصویر بنا کر والد ایاز امیر کو بھیجی۔ فون پر واقعہ بتایا۔ والد ایاز امیر نے پولیس کو اطلاع دی۔
ایاز امیر کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ ان کے بیٹے نے اپنی تیسری بیوی کے ساتھ کیا کیا لیکن یقینا شاہنواز کی پہلی پہچان ایاز امیر سے ہے اور اس طرح اس کیس میں ایاز کا نام بار بار آئے گا۔ اس قسم کے لڑکے یا لڑکیاں اپنے والدین کے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ لیکن یہاں ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ والدین کا طرز زندگی ان کے بچوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ کئی سال قبل ایاز امیر پر چکوال میں ایک نوجوان لڑکی نے زیادتی کا الزام عائد کیا تھا،بعد میں یہ معاملہ اس طرح دبا دیا گیا کہ جیسے اور بہت سے معاملات اثر و رسوخ یا دولت کی بدولت دبا لئے جاتے ہیں۔شاہنواز کی خاندانی تاریخ کو سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے اور ہمیں مزید اس کے دادا چوہدری امیر کی تاریخ میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اسے کس نے قتل کیا اور اس کی لاش کس بری حالت میں ملی۔
بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر ظاہر جعفر کو جلد پھانسی دے دی جاتی تو ایسا کوئی اور واقعہ رونما نہ ہوتا۔ وہ غلط ہیں۔ ایسے واقعات بار بار ہوتے رہیں گے کیونکہ ہمارا مجموعی سماجی نظام اور کلچر ایسے رشتوں اور شادیوں کو فروغ دے رہا ہے۔ خاص طور پر نئی نسل شادی اور وفاداری کی قدروں کو نہیں سمجھتی۔ انہوں نے امیر سے شادی کر کے امیر بننے کا وطیرہ بنا لیا ہے۔
دولت اس کیس کو بھی طول دے گی، نور کے کیس کی طرح جس میں ظاہر کے والدین نے اسے ذہنی مریض قرار دے کر بری کروانے کی پوری کوشش کی۔ سارہ کے کیس میں پولیس کے سامنے یہ کہہ کر بنیاد بنا لی گئی ہے کہ سارہ شاہنواز پر حملہ کر رہی تھی۔اور شاہنواز نے اپنے دفاع میں اسے ڈمبل مارا اور اس کا ارادہ سارہ کو قتل کرنے کا نہیں تھا۔ سارہ کا مقدمہ کون لڑے گا؟ اس کے اپنے والدین اور بھائیوں نے اس سے لا تعلقی ظاہر کر دی ہے۔لہٰذا ہمیں یہاں انصاف کی کوئی امید نہیں ہے اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم ایک اور خاتون کے ایسے ہی بہیمانہ قتل کاانتظار کریں، ایک اور کہانی لکھنے کے لئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button