ColumnImtiaz Ahmad Shad

ہم اشرف المخلو ق کیوں نہ بن سکے؟ ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

تمام مخلو ق اللہ تعا لیٰ کو بے حد محبوب ہے مگر اشرف المخلو قات ہو نے کا شرف صرف انسان کو ملا ارشاد ربانی ہے:بیشک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنا یا۔ اللہ تعالی نے موت وزند گی اس لیے عطا فر ما ئی کہ وہ انسا نوں کو آز مائے کہ کس کے اعمال اچھے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو عزت سے سر فراز کیااور انسانوں کو بھی عزت بخشی، فرما یا:اور بیشک ہم نے اولاد ِآدم کو عزت دی اور ان کو خشکی اور تری کی سوار یاں دیںاور ان کو ستھری چیز یں، روزی دی اور ان کو اپنی بہت مخلو ق سے افضل کیا۔(بنی اسر ائیل70)۔
اللہ رب ا لعزت نے جہاں انسا نوں کی خوبیاں بیان فرمائیں وہیں انسانوں میں جو متقین مومنین ہیں ان کی پہچان بتائی، انکی خو بیاں بھی بیان فر مائیں اور ان پر جو انعا مات کی با رشیں فرما ئے گا اس کا بھی اعلان فر مایا۔
اللہ تعالیٰ نے انسا نوں اور جنوں کو اپنی عبا دت کیلئے پیدا فر ما یا اور زندگی کے ہر قدم پر ہر حال میں خدائی قا نون کی پا بندی کا حکم بھی دیا تاکہ انسان کا ہر فعل اس طریقہ کے مطا بق ہو، جو اللہ تعا لیٰ نے بتا یا ہے، اس کے بتا ئے ہو ئے طریقے پر عمل کریں گے تو پوری کی پوری زند گی عبادت ہو گی۔کھا نا،پینا، سونا، جاگنا، معا ملات میں اللہ تعا لیٰ کے حکم کی پا بندی کر نا سب کا سب عبا دت میں شما ر ہو گا۔ خاص کر معاشرتی زندگی میں جو بھی معا ملہ در پیش آئے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتا ئے ہو ئے طریقے پر چلنے پر اللہ تعا لیٰ کی فر ما ںبر داری کا انعام بھی ملے گا۔اللہ تعالیٰ نے انعام کا اعلان بھی فر ما یا اور یہ بھی بتایاکہ یہ انعام کن لو گوں کو عطا کیا جا ئے گا:
’’اور اللہ اور رسول ﷺکی فر ماں برداری کر تے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف تیزی سے بڑھو جس کی وسعت میں آسمان اور زمین آجا تے ہیں،جو پر ہیز گا روں کیلئے تیار کی گئی ہے،یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی(دونوں حا لتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ پینے وا لے اورلوگوں سے درگز رکر نیوالے، اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔‘‘(آل عمران 134-132)۔ اللہ رب العزت یہاں متقین مومنین کی صفات و کردار بیان فر ما رہا ہے جن کیلئے جنت کی بہا ریں چشم براہ ہیں۔ انکی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ خوشحالی میں اورتنگ دستی، مالی محتا جی میں اپناعزیز مال اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے خرچ کرتے ہیں۔ایسا کر نا کمال تقویٰ کی وا ضح علا مت ہے۔ اس صفت کو سب سے پہلے ذکرکیاگیا کیو نکہ اس میں صدقہ ہے، اپنا مال دوسرے کو دینا ہے ۔مومن کی دوسری صفت غصہ کو پی جانا ہے ۔ اپنے غصہ کو پی جانا بے شک بڑی ہمت کا کام ہے۔حدیث پاک کی روایتوں میں ہے، اللہ رب ا لعز ت فرما تاہے:اے ابن آدم! اگر غصے کے وقت تُومجھے یادرکھے گا (یعنی میرا حکم ما ن کر غصہ پی جا ئے گا) تو میں بھی اپنے غصے کے وقت تجھے یاد رکھوں گا (یعنی ہلاکت کے وقت تجھے ہلا کت سے بچا لوں گا)(ابن ابی حاتم)۔
دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرما یا: جوشخص اپنا غصہ روک لے، اللہ تعالیٰ اس پر سے اپنا عذاب ہٹا لیتا ہے اور جو شخص اپنی زبان روک لے اللہ تعالیٰ اس کی پر دہ پوشی کرے گا اور جو شخص اللہ تعا لیٰ کی طرف معذ رت لے جائے گا اللہ تعالیٰ اس کا عذ ر قبول کر ے گا۔(مسند ابو یعلیٰ)۔ مومن کی تیسری صفت اللہ تعا لیٰ نے ’’عفو‘‘بیان فرمائی۔ معاف کرنا درگزرکرناعفو کہلاتا ہے۔با وجود طا قت کے کسی انسان کی خطااورنقصان پہچا نے پر نہ صرف خا موش رہے بلکہ دل سے اسے معاف کردے تو یقیناً ایسا شخص مومن ہے۔ اللہ رب ا لعزت کا فرمان ہے:اور بیشک جس نے صبر کیا اوربخش دیا تو یہ ضر ور ہمت کے کام ہیں۔( شوریٰ43)۔
چو تھی صفت احسان ہے۔یہ مرتبہ پہلے تمام مرا تب سے بلند تر ہے کہ انسان دشمن سے بدلہ بھی نہ لے،اسے معاف بھی کر دے صرف معاف ہی نہ کرے بلکہ اس پر احسان (مہر با نی کا بر تاؤ، اچھا سلوک)بھی کرے۔ مو من کی پانچویں صفت طلبِ مغفرت ہے۔ انسان خطا و نسیان کا مجمو عہ ہے۔ اس سے گناہ سر زد ہو جا ئے تو فو رًا احسا س ندا مت سے جھک جائے یہ جا نتے ہو ئے کہ غلطیوں کو معاف فرما نے والااور گنا ہوں کو بخشنے وا لا اللہ تعا لیٰ ہے۔ ارشاد با ری تعا لیٰ ہے:مگر وہ جو تو بہ کریں اور ظا ہر کریں تو میں انکی تو بہ قبول فر ماؤں گا اور میں ہی ہوں بڑا تو بہ قبول فر ما نے وا لا مہربان۔(البقر ہ 160)۔ جو اللہ کے حضور میں نہا یت عاجزی سے گناہوں کی معا فی کی در خواست کر تے ہیں ان کی یہ حقیقی،اصل توبہ ہو تی ہے۔ ایسا نہیں ہو تاکہ ان کی زبان تو استغفراللہ کے وِرد میں مصروف ہو اور وہ اپنے عمل سے استغفار کا مذاق اڑا رہے ہوں۔آج ہما رے معاشرے میں در گزر کر نے،معاف کر نے کی عادت قر یباًختم ہو تی جا رہی ہے۔ذراذرا سی بات پر غصہ ہو نا اور کہنا کہ ہم اسے زندگی بھر معاف نہیں کریں گے، بات نہیں کریں گے عام سی بات ہو گئی ہے۔ افسوس اور تشویش اس پر ہے کہ اس میں خواص بھی شا مل ہیں۔ علمائے کرام، سیاستدانوں سے لے کر ہر مکتبہ فکر سے منسلک افرادکے چہروں پر تیو ریاں چڑھی رہتی ہیں اور اپنے مخا لفین پر بر سر عام اسٹیجوں پربھی لعن طعن کر تے رہتے ہیں، عوام پر اس کا غلط اثر ہو رہا ہے۔ معا فی اور در گز سے کام نہیں لیتے جبکہ اپنے معاملے میں چا ہتے ہیں کہ اللہ انہیں معاف فر ما دے۔اللہ تعالیٰ سے ہم سبھی چاہتے ہیں کہ وہ ہما رے گناہوں اور خطا ؤں کو معاف فر مادے،اور وہ رحیم وکریم معاف فرماتاہے لیکن مو من بندوں کی جو صفات اللہ تعالیٰ نے بیان فر ما ئیںوہ اپنے اندر نہیں پیدا کر تے۔ ذرا سینے پر ہاتھ رکھ کر سو چیں کہ ہم کہاں ہیں؟اپنے مجرم کو معاف کر نا،ظالم کو معاف کر نا،کسی نے گالی دی اُسے معاف کر دینا،کسی نے ما را اسے بخش دیا،حا لا نکہ نفس بدلہ لینے کا تقا ضا کر تا ہے۔اسکے ساتھ نیکی کا عمل کر نا،اچھا سلوک کرنا، مہر با نی کا بر تاؤکر نا،یہ بہت دل وجگر کا کام ہے۔ اسے مار نا بہا دری ہے لیکن اسے معاف کردینا نفس کو مغلوب کر دینا سب سے بڑی بہادری ہے۔اپنے دشمنوں کو مار نا آسان ہے، نفسِ اما رہ کو ما رنا بہت مشکل ہے۔وطن عزیز پاکستان میں معاشرتی بگاڑ کی اصل وجہ یہی ہے کہ مومن کی صفات ہمارے اندر موجود نہیں۔اگر ہم اہل ایمان ہیں تو ہمیں مومن کی صفات کو پیدا کرنا ہو گا۔اپنی غلطیوں پر نادم ہونا ہو گا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button