CM RizwanColumn

ملکہ الزبتھ دوم ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

ملکہ ایلزبتھ الیگزینڈرا میری21 اپریل 1926 کو لندن میں پیدا ہوئیں اور 8 ستمبر 2022ء کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔ وہ برطانیہ یعنی مملکت متحدہ کی ملکہ اور دولت مشترکہ قلمرو کی تاحیات آئینی ملکہ تھیں۔ اِس کے علاوہ وہ دولتِ مشترکہ کے 54 ملکوں کی سربراہ اور انگریزی چرچ کی حاکمہ تھیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ سال 1947ء میں ان کی شادی شہزادہ فلپ کیساتھ ہوئی، جن سے ان کے چار بچے ہیں۔ جب ان کے والد بادشاہ جارج ششم کا 1952ء میں انتقال ہوا، تب ایلزبتھ دولتِ مشترکہ کی صدر اور مملکت متحدہ، کناڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقا، پاکستان اور سری لنکا کی حکمران بن گئیں۔ ان کی تاج پوشی سال 1953ء میں ہوئی اور یہ اپنی طرح کی پہلی ایسی تاج پوشی تھی جو ٹیلی ویژن پر نشر ہوئی۔ 9 ستمبر 2015ء کو انہوں نے ملِکہ وِکٹوریا کے سب سے لمبے دورِ حکومت کے رِیکارڈ کو توڑ دیا اور برطانیہ پر سب سے زیادہ وقت تک حکومت کرنے والی ملکہ بن گئیں۔ وہ پورے عالم میں سب سے عمردراز حکمران اور سب سے لمبے وقت تک حکومت کرنے والی ملکہ تھیں۔ یوں وہ 70 سالوں تک ملکہ رہ کر اورعالمی ریکارڈ قائم کر گئیں۔عالمی شہرت یافتہ اور دنیا کی طاقتور خاتون ہونے کے باوجود انسان دوستی، شرافت اور تہذیب کی علمبردار ملکہ الزبتھ کی وفات پر دنیا بھر کے سربراہان مملکت اور عالمی رہنماؤں نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے انہیں اپنے اپنے انداز میں بھرپور خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ 96 برس کی عمر میں انتقال کرجانے والی اس عظیم ملکہ کے پُروقار شخصی کردار پر خراجِ عقیدت اور ان کی گرانقدر خدمات کو سراہتے ہوئے سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کا کہنا تھا کہ ملکہ نے دلکش انداز، خوبصورتی اور انتھک محنت کی اخلاقیات کے ذریعے کی گئی حکومت کے ساتھ دنیا کو موہ لیا۔ ماضی میں مختلف مواقع پر ملکہ سے ملاقات کرنے والے بارک اوبامہ نے کہا کہ کئی مرتبہ، ہم ان کی گرمجوشی سے متاثر ہوئے، جس طرح سے انہوں نے لوگوں کو آرام پہنچایا اور اپنے مزاح اور دلکش انداز سے لمحات کو شان و شوکت والا بنایا۔ امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن جن کی ملکہ الزبتھ سے پہلی مرتبہ ملاقات 40 برس قبل ہوئی تھی، کا ان کے متعلق کہنا تھا کہ وہ شاہی حاکم سے بڑھ کر تھیں، وہ ایک عہد کی پہچان تھیں۔2021 میں برطانیہ کے دورے کو یاد کرتے ہوئے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیں اپنے مزاح کی حس سے محظوظ کیا، ہمیں اپنی شفقت سے متاثر کیا اور انہوں نے کھلے دل کے ساتھ ہمارے ساتھ اپنے خیالات اور دانش کا تبادلہ کیا۔ خیال رہے کہ ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے دور حکمرانی کے دوران 14 امریکی صدور سے ملاقاتیں کیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے تعزیتی کلمات میں کہا کہ ملکہ الزبتھ دوم کو دنیا بھر میں ان کی فضیلت، وقاراور لگن کی وجہ سے بہت سراہا جاتا تھا۔ وہ افریقہ اور ایشیا کے بہت سے ممالک کی نوآبادی حیثیت ختم کرنے اور دولت مشترکہ کے ارتقا سمیت کئی دہائیوں کی
وسیع تبدیلی کے عمل کے دوران میں فعال کردار ادا کرتی رہی تھیں۔ میں ملکہ الزبتھ دوم کو ان کی عوام کیلئے غیر متزلزل خدمات اور تاحیات لگن پر خراج عقیدت پیش کرنا چاہوں گا۔ دنیا ان کی قیادت کو طویل عرصے تک یاد رکھے گی۔سابق برطانوی وزیراعظم جان میجر نے کہا کہ ہم سب نے اپنے لیے بہت قیمتی شخصیت کو کھو دیا ہے اور جب ہم ماتم کرتے ہیں تو ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے کہ ہمیں اتنے طویل عرصے تک فرض اور قیادت کی ایسی مثال سے نوازا گیا۔ کینیڈا کی گورنر جنرل میری سائمن نے ٹویٹر پر برطانوی شاہی خاندان سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر میں کینیڈین ملکہ کے انتقال پر سوگ منائیں گے۔ ہم ملکہ کی وفات پرشاہی خاندان سے گہری تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ آئیے ہم سوگ کی اس گھڑی میں ملکہ معظمہ کی یاد کے احترام میں ایک لمحہ گزاریں۔
پیر کو ان کی آخری رسومات پر برطانیہ میں پولیس کااب تک کا اپنے ملک کا سب سے بڑا سکیورٹی آپریشن تھا کیونکہ امریکی صدر جوبائیڈن سمیت دنیا بھر کے سیکڑوں معززین ان آخری رسومات میں شرکت کیلئے آئے۔ ملکہ برطانیہ کے جانشین بادشاہ چارلس سوم نے ہفتے کو دولت مشترکہ کے ممالک کے وزرائے اعظم سے ملاقات کی کیونکہ وہ برطانیہ کے علاوہ 14 سابق کالونیوں کے بھی حکمران ہیں۔ آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ اور کینیڈا نے باقاعدہ طور پر انہیں اپنا نیا خود مختار حکمران تسلیم کرلیا ہے۔ تاہم ری پبلکن کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں، ان سب کو شاہی حلقے میں رکھنے
کی کوششیں ممکنہ طور پر بادشاہ چارلس کے دور حکومت کی ایک خاصیت ہوگی۔چارلس نے جمعے کو برطانیہ کے 4 ممالک کے بادشاہ کے طور پر اپنا پہلا دورہ ویلز کے دورے کے ساتھ مکمل کیا تھا، اسے ’’سپرنگ ٹائیڈ‘‘آپریشن کہا جاتا ہے تاکہ انہیں نئے کردار میں لانچ کیا جا سکے۔ کارڈف میں بڑے مجمع نے ’’گاڈ سیو دی کنگ‘‘ کے نعرے بھی لگائے جہاں پر انہوں نے لینڈیف کیتھیڈرل اور کارڈف کیسل میں کثیر العقیدہ خدمت کے بعد اپنے خیر خواہوں سے مصافحہ کیا۔ اس موقع پر بادشاہ چارلس سوم نے ویلز کے فرسٹ منسٹر (وزیراعظم) مارک ڈریک فورڈ سے بھی ملاقات کی، جو ایک باوقار جمہوریہ ہے۔ اس موقع پر نئے بادشاہ کے اپنے بیٹے ولیم کو ویلز کا نیا شہزادہ قرار دینے کے بعد سڑکوں پر شور مچ گیا۔
برطانیہ میں ملکہ الزبتھ کی ایک پراسرار جائیداد بھی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ریجنٹ سٹریٹ لندن شہر کی ایک مشہور گلی ہے، اس گلی کی لمبائی ایک کلو میٹر سے زائد ہے۔ اس کے ایک ایک مربع انچ کی ملکیت ایک کمپنی کے پاس ہے اور اس کمپنی کا نام برطانوی شاہی خاندان ہے، اس پر کئی دکانیں، شراب خانے اور ریستوران موجود ہیں۔ یہ علاقہ سنٹرل لندن کے کاروباری اور حکومتی دفاتر کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کا وسیع علاقہ بھی شاہی خاندان کی ملکیت ہے۔ شاہی خاندان کی برطانیہ کے طول وعرض میں کئی مقامات پر قیمتی جائیدادیں موجود ہیں۔ ان میں بڑے بڑے قلعے، کاٹیجز اور زرعی علاقے بھی شامل ہیں۔ برطانیہ کی ساحلی پٹی کا نصف بھی کراؤن اسٹیٹ کی ملکیت ہے۔ کئی ساحلی پٹیوں پر کاروباری سرگرمیاں بھی جاری و ساری ہیں۔ اس طرح شاہی خاندان کی اس کُل جائیداد کی مالیت چودہ ارب پاؤنڈ سے زیادہ ہے۔ یہ مالیت یورو میں سولہ بلین سے زائد اور امریکی ڈالر میں قریباً اٹھارہ بلین ہے۔ اتنی خطیر مالیت کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ برطانوی شاہی خاندان کا براعظم یورپ کے بڑے پراپرٹی گروپس میں شمار ہوتا ہے۔ اس میں یہ سوال سب سے اہم یہ ہے کہ شاہی خاندان میں کون ہے جو اتنی بڑی پراپرٹی کا براہِ راست مالک ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ برطانیہ میں کراؤن اسٹیٹ کی ملکیت شاہی تخت پر براجمان فرد (ملکہ یا بادشاہ) کے نام پر ہوتی ہے۔ گویا جو بھی تخت نشین ہو گا اور جتنے عرصہ تک وہ تخت نشین رہے گا، تب تک یہ تمام اسٹیٹ اسی کے نام پر ہو گی۔ یہ بھی اہم ہے کہ یہ تخت نشین ہونے والے کی نجی یا ذاتی پراپرٹی نہیں ہے اور نہ ہی وہ اسے فروخت کرنے کا اختیار رکھتا ہے پھر یہ کہ اس سے حاصل ہونے والا کرایہ یا دوسرا منافع یا آمدن تخت پر براجمان فرد کے تصرف میں بھی نہیں ہوتا۔ گمان ہے کہ یہ آمدنی شاہی خاندان کے مشترکہ پبلک ویلفیئر کے کاموں پر خرچ ہوتی ہے۔ کیا برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے باشعور عوام کو بادشاہت پسند ہے۔ ایک حالیہ سروے میں اکسٹھ فیصد عوام نے برطانوی بادشاہت کو جاری رکھنے کے حق میں رائے دی ہے جبکہ چوبیس فیصد منتخب سربراہِ حکومت کے متمنی ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی بادشاہت کو عوام کی پرزور حمایت حاصل ہے۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ جب کبھی برطانیہ کو ایک جمہوریہ قرار دیا گیا تو اس وقت سب سے مشکل سوال اس کراؤن اسٹیٹ کی ملکیت کا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق ابھی تک اس بڑی پراپرٹی پر حکومتی کنٹرول یا ملکیت کی قانونی طور پر وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button