ColumnNasir Naqvi

خدا ناراض کر بیٹھے؟ ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

محدود وسائل کے باوجود شیطان کی آنت کی طرح مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہمارے لیے معاشی اور سیاسی بحران وبال جان بنا ہوا تھا، ایسے میں سیلاب نے آ لیا، اب حالات کا جائزہ لیں تو انسان کانپ جاتا ہے۔ ہر طرف عجیب سی اُداسی ہے۔ وطن عزیز کا 60فی صد رقبہ ہی زیر آب نہیں آیا، ہزاروں لاکھوں افراد کا سکون پانی بہا لے گیا۔ ہنستے بستے گھر صفحۂ ہستی سے مِٹ گئے۔ ایک ڈھیر بھی نہیں بچا کہ جس پر بیٹھ کر ساتھی سنگی دکھ کی گھڑیوں میں اکٹھے ہوکر چند آنسو بہا لیتے، غریب کیا، صاحبِ حیثیت بھی سڑک کنارے خیموں میں جائے پناہ کے لیے مجبور ہو گئے۔ مجبور بھی ایسے کہ ابھی بہت سوں کو خیمہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ کھلے آسمان تلے وقت گزار رہے ہیں صرف اس امید پر کہ مالک کوئی نہ کوئی سبب ضرور پیدا کرے گا۔ اس لیے کہ اس نے زندگی دی ہے ورنہ کتنے ہی پانی میں تیرتے، ڈبکیاں مارتے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ ان قسمت کے ماروں میں چھوٹے، بڑے ، بوڑھے، جوان، مردو زن سب شامل ہیں۔ بہت سوں کو تو یہ بھی نہیں پتا نہیں کہ کون زندہ ہے؟ کون رخصت ہو گیا؟سب اس امید پر بیٹھے ہیں کہ قوم جاگ رہی ہے۔ حکومتیں، رفاہی ادارے، اپنے پرائے ان کے دُکھ سے واقف ہیں اس لیے ان کی مدد کو ضرور پہنچیں گے۔ افواج پاکستان بری، بحری اور فضائیہ کے جوان اس مشکل گھڑی میں جان جوکھوں میں ڈال کر پہنچے بھی اور ان سے جو بن سکا وہ کیا بھی،لیکن معاملات زیادہ بگڑے ہوئے ہیں۔ نقصان کا اندازہ ابھی تک درست نہیں لگایا جا سکا۔ اس لیے کہ چاروں صوبوں میں ابھی تک دور دراز علاقوں تک پہنچ تو گئے لیکن حقیقی سروے حالات کی سنگینی کے باعث نہیں ہو سکا۔ پھر بھی سیاسی توڑ جوڑ کو عام آدمی پر ترجیح حاصل ہے۔ سیاسی اکابرین متفق ہیں کہ پہلے ریاست پھر سیاست، تاہم زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں کیونکہ سیاست سے دوری اختیار کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ سابق وزیراعظم خوشحال اور نیا پاکستان بنانے کی خواہش میں ریاست مدینہ کا انقلاب لانا چاہتے ہیں لہٰذا بریک لگانا نہیں چاہتے۔ انہوں نے ٹیلی تھون اور دو تین متاثرہ علاقوں کا دورہ کر کے اپنا فرض ادا کر دیا۔ مریم نواز شریف بھی ایک سے زیادہ فوٹو سیشن کروا کر خوش ہیں کہ ذمہ داری پوری ہو گئی۔ سندھ کی صورت حال اس قدر خراب ہے کہ امداد کے حوالے سے بھی الزامات کی بارش نہیں تھم رہی۔ سندھ کی تباہی ثبوت ہے کہ کوئی ذمہ دار اُن تک نہیں پہنچ سکا،مرنے والے مر گئے ، اُجڑنے والے اللہ کی آس پر بے یارومددگار بیٹھے ہیں۔ بلوچستان میں بھی صورت حال مختلف ہرگز نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت بے بس دکھائی دے رہی ہے اور فضا ، مدد، مدد، مدد کی آوازوں سے گونج رہی ہے۔ بارشوں اور سیلاب نے بلوچستان کے طول و عرض کو تباہی میں دھکیل دیا، 34اضلاع میں سے شاید کوئی ایک آدھ ہو جو بچ گیا ورنہ معاملات ایسے قابو سے باہر ہو چکے ہیں کہ سرکاری اور ذمہ دار لوگ اس بات پر پریشان ہیں کہ ازالہ کیسے ممکن ہو گا؟ یہی حالت خیبر پختونخوا اور پنجاب کے جنوبی علاقے کی ہے۔ کالام، سوات اور گردونواح میں جو تباہی دیکھنے میں آئی اس قدرحالات 2010ء میں بھی خراب نہیں ہوئے
تھے، سوشل میڈیا پر ہر کسی نے شمالی علاقہ جات کے خوبصور ت ہوٹلز اور عمارات گرتی اور دریا برد ہوتی دیکھیں۔ سوال یہ ہے کہ موسمی تبدیلی اور معمول سے زیادہ بارشوں کا ریڈ الرٹ مہینوں پہلے سے جاری ہو چکا تھا پھر ایسے انتظامات کیوں نہیں کئے جا سکے کہ اس بھاری نقصان سے بچا جا سکتا ؟ یہ مجرمانہ غفلت کس کی ہے اور کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ممکن بھی ہو سکے گی یا ماضی کی طرح معاملہ گول ہو جائے گا؟
مملکت پاکستان میں ایک بڑا طبقہ اتفاق کرتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے 75سالوں میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جو اجتماعی ضرورت تھی بلکہ انہوں نے ہر دور میں ذاتی مفادات اور قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے پر زیادہ توجہ دی اس لیے ملک بیرونی اور عالمی اداروں کا مقروض ہی نہیں ہوا بلکہ ملک کو معاشی بحران ملا، جن لوگوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا، ناجائز کو بھی جائز جانا، وہ آج بھی مال و زر میںکھیل رہے ہیں۔ احتساب کے نعرے لگے اور نیب ادارہ بنایا گیالیکن نتیجہ صفر اس لیے رہا کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان ، مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومتوں پر چوری، ڈکیتی اور کرپشن کا الزام لگاتے نہیں تھک رہے جبکہ اپنے دور اقتدار میں احتساب کے مینڈیٹ کے باوجود قید و بند، پکڑ دھکڑ اور جکڑ کی لاحاصل ضرب جمع تقسیم کے سوا کچھ نہیں کر سکے۔ اب اتحادی حکومت عمران خان سے الزامات کی جنگ جنگ کھیل رہی ہے لیکن نتیجہ نکلنے کے چانس نظر نہیں آ رہے۔ حقیقت حال یہی ہے کہ آفت حکمرانی ہو کہ آسمانی اس کا سامنا غریبوں کو ہی کرنا پڑے گا۔ موجودہ معاشی بحرانی دور میں جینا مرنا غریب کا مشکل ہوا ہے۔ اشرافیہ تو تمام
غموں سے دور چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ معاشی اور سیاسی بحران پیدا کردہ حکمرانوں کا ہے لیکن بھگت اسے غریب عوام رہی ہے۔ حکمران اور اشرافیہ متاثرین کی امداد کے نام پر فوٹو سیشن کرا رہے ہیں تمام وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم پاکستان متاثرہ علاقوں میں بھی گئے اور متاثرین سے مل کر انہیں ڈھارس بھی دی لیکن امداد اور امدادی سامان قسمت کے دھنی لوگوں نے ہی پایا۔ عام آدمی اس لیے بھوکا، پیاسا بیٹھا ہے کہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے جس قدر قوم اور دنیا نے اس مصیبت کو پرکھا اور امداد کا اہتمام کیا وہ کوئی معمولی بات نہیں، پھر بھی اگر مستحق تک امداد نہیں پہنچی تو مسئلہ انتظامی منصوبہ بندی کا ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ ہر مشکل وقت میں ذاتی مفادات کے خواہش مندوں نے مشکلات کی دلدل میں عوام کو ہی دھکیلا ہے اس لیے کہ ان کا ایمان مضبوط اور خدا پر بھروسہ ہے۔ وہ مشکل ترین حالات میں بھی وقت گزاری کر لیتے ہیں۔ چند روز پہلے میں بھی پاکستانی کی حیثیت سے متاثرین کی خبرگیری اور انہیں حوصلہ دینے کے لیے گیا تو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ متاثرین کے دو قسم کے گروہ دیکھے ایک وہ جو امدادی سامان سے بھرے ٹرکوں کی طرف لوٹ مار کے لیے دوڑ پڑتا تھا، دوسرا وہ جو اپنے اپنے کیمپ یعنی خیموں میں بیٹھا اللہ اللہ کر رہا تھا کہ ’’مالک اگر اس نے آزمائش کی گھڑی میں ڈالا ہے تو نکالے گا بھی تو ہی‘‘ میں نے ایسے ہی ایک خاندان سے گفتگو کی تو جواب ملا ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ ہوا کیا ہے؟ اللہ جس حال میں رکھے، ہم خوش اور مطمئن ہیں۔
میں نے پوچھا:آپ لوگوں کو سیلاب کی اطلاع نہیں دی گئی تھی؟
بزرگ بولے:دی گئی تھی لیکن ہمارے وسائل ایسے نہیں تھے کہ ہم از خود محفوظ مقام تک کا سفر کرتے، جب تک امدادی ٹیمیں ہم تک آئیں پانی پہلے پہنچ چکا تھا۔
میں نے سوال کیا:کھانے پینے کے لیے کچھ مل رہا ہے کہ نہیں؟
کہنے لگے : اللہ کے آسرے پر بیٹھے ہیں، اس کا وعدہ ہے کچھ نہ کچھ تو مل رہا ہے۔
میں نے کہا: مستقبل کے بارے میں کیا سوچا ہے؟
بولے :حکومت کچھ کر رہی ہے، سنتے ہیں کہ آج کل میں ہماری باری بھی آ جائے گی۔
میں نے پوچھا: آپ کا نقصان کتنا ہوا؟
کہنے لگے: کیا بتائوں کیا کچھ ہوا؟ جو تھا وہ چلا گیا، دو انسانی جانیں بھی گنوا بیٹھے، مال ڈنگر بھی۔
میں نے کہا : اب کیا ہو گا؟
مسکرا کر بولے: بیٹا جان ہے تو جہان ہے، زندگی اگر صحت مند ہو تو بہت کچھ پھر بھی بن جائے گا۔ اُسی نے دیا تھا،اُسی کے سبب سے سب کچھ ختم ہو گیا، کوئی بات نہیں۔
میں بولا:مشکل لمحات تو ہیں اکیلا انسان ہو تو اور بات ہے، آپ کا تو جوان بیٹا بھی کوئی نہیں جو آپ کا سہارا بن جاتا۔
کہنے لگے :یہ سب عارضی سہارے ہیں، حقیقی سہارا تو وہی مالک کائنات ہے وہ راضی ہو جائے تو یہ سب کچھ بھول کر نئی زندگی میں مگن ہو جائیں گے۔ مرنے والے کے ساتھ کوئی نہیں مرتا، یہی نظام قدرت ہے کچھ واپس چلے گئے، کچھ جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ بڑے بڑے طاقت ور، مال و دولت کے پجاری بھی دنیا میں نہیں رہے اور نہ ہی اللہ والے،ہم کیا ہماری بساط کیا؟ اتنی بڑی آزمائش، کوئی بات نہیں۔لوگ کہتے ہیں حکمرانوں کی غلطیوں کا خمیازہ ہم لوگ بھگت رہے ہیں، مجھے ایسا تو کچھ پتا نہیں، مجھے لگتا ہے کہ ہم ’’خدا ناراض کر بیٹھے ہیں‘‘ لہٰذا اس کے جاہ و جلال کے سامنے ہم تنکے کی طرح پانی میں بہہ گئے، لیکن وہ رحمان و رحیم ہے اسی لیے ہمیں دوبارہ زندگی دے دی۔ اللہ سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button