وزیراعلیٰ کچھ اس کابھی سدباب کریں ۔۔ امتیاز عاصی

امتیاز عاصی
پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے جیلوں میں اصلاحات لانے کے لیے فوری اقدامات کا فیصلہ کیا ہے جو قابل تحسین ہے۔ چودھری صاحب نے تواپنی گذشتہ وزارت اعلیٰ کے دورمیں بھی قیدیوں کے راشن میں بہتری کے لیے اقدامات کئے تھے۔ انہوں نے قیدیوں کے راشن کے سکیل میں اضافہ کرکے بی اور سی کلاس کے قیدیوں کے کھانے کو برابر کردیا تھا۔ وزیراعلیٰ کے اس اقدام کے بعد بی اور سی کلاس کے قیدیوں کو پکا ہوا کھانا مل رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بی کلاس کے قیدی کھائیں یا نہ کھائیں یہ ان کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کیونکہ انہیں اپنے طور پر کھانا پکانے کی اجازت ہوتی ہے جس کے لیے انہیں کام کرنے کے لیے ایک قیدی کی سہولت میسر ہوتی ہے۔اب نئی اصلاحات میں جیسا کہ اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے، قیدیوں کے لیے کھانے کے معیارکو اور بہتر کیا جائے گا۔جیلوں میں قیدیوں کو جس طرح کا بھی کھانا ملے وہ کسی سے شکوہ شکایت نہیں کرتے کیونکہ قیدی کےلیے شکایت کرنا کسی بڑی مصیبت کو دعوت دینے سے کم نہیں ہوتا۔ ہم وزیراعلیٰ کی توجہ ایک اہم معاملے کی طرف دلانے کی سعی کررہے ہیں۔ جیل مینوائل کے مطابق جو قیدی جیل میں نظم وضبط خراب کرے انہیں دوسری جیلوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے جسے جیل کی زبان میں چالان کہا جاتا ہے۔ہم جیل کا ڈسپلن خراب کرنے والے قیدیوں کے حمایتی نہیں لیکن جس معاملے کی طرف ہم وزیراعلیٰ کی توجہ دلانے کی کوشش کریں گے وہ بہت اہم ہے۔جیلوں کے بعض کرپٹ افسران اگر کسی قیدی سے مال پانی نہ ملے تو ان کا چالان نکال دیتے ہیںجو کسی قیدی کے لیے بہت بڑی سزا ہوتی ہے۔ قیدی تو رُل ہی جاتے ہیں لیکن ان کے لواحقین بھی ذلیل وخوار ہو جاتے ہیں۔2003کی بات ہے ہم سنٹرل جیل راولپنڈی کی بی کلاس میں سزائے موت کے قیدی تھے۔جیل کا ہیڈ وارڈر صدیق آیا مجھے کہنے لگا آ بھئی تیرا چالان ہے۔ اس کے ہاتھ میں چٹ تھی میں دریافت کیا اور کتنے لوگ ہیں تو اس نے بتایا مرزا سرفراز اور قمر ستی ہیں۔ میرے پیروں تلے سے جیسے زمین نکل گئی ۔نہ کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا اور نہ کسی قیدی سے کوئی لینا دنیا۔ مرزاسرفراز اور قمر ستی کو حق تعالیٰ
مغفرت کرے۔ مرزا تو پھانسی لگ گیا تھا قمر ایک مرتبہ رہائی کے بعد دوبارہ دو قتل کے مقدمات میں سنٹرل جیل راولپنڈی میں تھا۔ دو ماہ پہلے رہائی کے بعد اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اللہ کریم دونوں کی کوتاہیوں کومعاف فرمائے (آمین)۔
جب ہمیں بیڑیاں لگ گئیں تو میں نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ملک فیروز کے دفتر کی کھڑکی کے آگے جا کر ان سے پوچھ لیا۔ ملک صاحب میری کون سی خطا تھی۔انہوں نے جواب دیا میں نے تمہارا نام نہیں بھیجا تھا تمہاری منظوری ہوم ڈیپارٹمنٹ سے آئی ہوئی تھی۔ہم تینوں کو سنٹرل جیل ساہی وال لے جاکر قصوری بلاک میں بند کر دیا گیا۔ ایک روز دو جیل ملازمین آئے مجھ سے کہنے لگے بابا تم تو شریف آدمی ہو ان دونوں کے ساتھ تمہیں کیوں بھیج دیا گیا تو میں نے ازراہ تفنن جواب دیا تم جیل والے کسی کو علم نہیں ہوتے دیتے ہو اس نے کیا قصور کیا ہے۔قریباً ایک ماہ تک قصوری بلاک میں رہنے کے بعد سپرنٹنڈنٹ جیل ملک مبشر مجھے ملاحظہ میں بلاکرکہنے لگے تمہیں میں قصوری سے نکال رہا ہوں کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ ایک روز وہ سزائے موت کے دورے پر آئے تو میں نے سوال کیا جناب راولپنڈی جیل
میں میری بی کلاس تھی تو انہوں نے جواباً کہا اس وقت تمہارے سفارشی کہتے تھے ،اس کو قصوری بلاک سے نکال دو میں نے تمہیں ایک ماہ کے بعد قصوری سے نکالا ہے ورنہ ساہی وال جیل میں مجھ سے پہلے کسی کو قصوری بلاک سے نکالنے کا رواج نہیں تھا۔کہنے لگے میں تمہیں بی کلاس دے دوں گا پھر تم اے کلاس مانگو گے ۔میں نے عرض کی نہیں جناب میں اے کلاس نہیں مانگوں گا۔خیر اللہ ان کا بھلا کرے وہ اچھے انسان اور اچھے منتظم بھی ہیں آج کل ڈی آئی جی ہیں۔ میرے چھوٹے بھائی عزیزی ملک ریاض ان دنوں ریڈیو پاکستان میں کنٹرولر نیوز تھے۔ انہوں نے چیف سیکرٹری سلمان صدیق صاحب سے کہہ کر میری راولپنڈی جیل واپسی کرائی۔جب کسی قیدی کاچالان چلا جاتا ہے تو جب تک جیل کا سپرنٹنڈنٹ این او سی نہ دے وہ قیدی اس جیل میں واپس نہیں آسکتا۔اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور میری والدہ مرحومہ کی دعائوں سے میں واپس پنڈی آگیا۔ جن دنوں میرا چالان بھیجا گیا وارث نامی ہیڈ وارڈر وارنٹ پر ہوا کرتا تھا ۔ایک روز اس کی ڈیوٹی سزائے موت میں لگ گئی۔ ہم نے وارث سے پوچھ لیا میرا چالان کیوں نکلا تھا جب میرا ریکارڈ صاف تھا تو وارث نے بتایا تمہارا نام ایوب اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جو وارنٹ پر ہے، اس نے تین مرتبہ چالان کے لیے بھیجا تھا۔بقول وارث اس نے ایوب سے پوچھا یہ شریف قیدی ہے، اس کا چالان کیوں بھیجتے ہو تو ایوب نے وارث کو جواب دیا تمہیں پیسے دیتا ہے ۔وارث نے جواب دیا نہیں تو ایوب کہنے لگا پھر تم کیوں سفارش کرتے ہو۔اللہ سبحان تعالیٰ کی ذات بڑی بے نیاز ہے۔سنٹرل جیل اڈیالہ میں گوگا نامی کار لفٹر سیل نمبر 2 میں بند تھا اس نے ایوب کی کرپشن کی پوری داستان چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو لکھ بھیجی۔چیف جسٹس نے ایوب کو سپریم کورٹ میں طلب کرلیا اور حکم دیا اسے راولپنڈی جیل میںکبھی پوسٹنگ نہ دی جائے جس کے بعد ایوب کو کسی دوسری جیل میں بھیج دیا گیاوہ اپنی عمر پیرانہ سالی تک دوبارہ سنٹرل جیل راولپنڈی میںپوسٹ نہیں ہوا۔جیلوں میں قیدیوں اور حوالاتیوں کے ہسٹری کارڈ بنے ہوتے ہیں قیدی جو کچھ کرتا ہے اس پر درج ہوجاتا ہے۔ میرے ہسٹری کارڈ پر انتظامی امور لکھ کر چالان نکال دیا گیا۔محترم وزیر اعلیٰ صاحب قیدیوں کا یہ بہت بڑا مسئلہ اگر آپ کی حکومت میں یہ حل ہو گیا تو قیدی ہمیشہ آپ کو دعائیں گے۔ویسے بھی کسی کو صفائی کا موقع دیئے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی لیکن قیدیوں کے ساتھ اس طرح کا ناروا سلوک جیل والوں کا معمول ہے۔ امید ہے وزیراعلیٰ قیدیوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کریں گے۔