سیلاب ، نقصانات اور سیاست .. روشن لعل

روشن لعل
وطن عزیز میں سیلاب کے بدترین نقصانات اور سیاسی بیان بازی کا سلسلہ ایک ساتھ جاری ہے۔ سیاسی بیان بازی اگر سیلاب سے متعلق ہوتی تو پھر بھی اس سے کسی حد تک صرف نظرممکن تھا مگر یہاں تو الزام در الزام کی جو سیاست سیلاب آنے سے بہت پہلے شروع ہوئی تھی اسی کی مشق اب بھی ہو رہی ہے۔ سیلاب کے نقصانات کو تو آسانی سے بد ترین کہا جا سکتا ہے مگر سمجھ نہیں آرہا کہ جس قسم کی سیاست ہو رہی ہے اسے کیا نام دیا جائے۔اس وقت جو سیاست ہورہی ہے، اسے تو انتہائی سنسنی خیز بنا کر پیش کیا جارہا ہے مگر نہ جانے کیوں سیلاب کی وجہ سے پہنچنے والے نقصانات پر کم توجہ دی جارہی ہے۔ سیلاب کے جن نقصانات پر بہت کم بات ہو رہی ہے وہ ابتدائی، ثانوی اورتادیر رہنے والے منفی اثرات کی شکل میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ سیلاب کے ابتدائی نقصانات میں فی الحال کئی کئی فٹ پانی میں ڈوبی ہوئی آبادیاں اور بے سرو سامانی کے عالم میں چھت سے محروم ، بھوکے پیاسے اور بیماریوں کا شکار لوگ نظر آرہے ہیں ۔ جب پانی کی سطح کم ہوگی تو پھر ہی یہ واضح ہو گا کہ اس سیلاب سے مکانوں ، پلوں، گاڑیوں، سڑکوں، ریلوے لائنوں، نکاسی آب کے نظام ( سیوریج اینڈ ڈرینج سسٹم) اور نہری پانی کے ترسیل کے نظام سمیت ہر قسم کی عمارتوںکو کتنا نقصان پہنچاہے۔ اس کے علاوہ مویشیوںاور دوسرے جانوروں سمیت کئی قیمتی انسانی جانیںضائع ہونے کے درست اعدادو شمار بھی سامنے آسکیں گے۔فوری نظر آنے والے ابتدائی نقصانات کا باعث بننے کے بعد سیلاب کا ریلا جب تباہی مچاتے ہوئے کسی علاقے سے گزر جاتا ہے تو وہاں زندہ بچ جانے والے لوگوں کے لیے کئی قسم کے مسائل چھوڑ جاتا ہے ۔ ان مسائل کو سیلاب کے ثانوی نقصانات کہا جاتا ہے۔ آلودگی اور آلودگی کی وجہ سے صاف پانی کا ناپید ہونا ان نقصانات میں سر فہرست ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آلودہ ماحول کی وجہ سے ہیضہ ، ٹائیفائیڈ اور ملیریا جیسے امراض کا پھیلنا بھی ثانوی نقصانات میں شامل ہوتا ہے۔ابتدائی اور ثانوی نقصانات کے بعد سیلاب کی وجہ سے ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات دیر تک عوام کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتے رہتے ہیں۔ سیلاب سے تباہ ہونے والے مفاد عامہ سے وابستہ تعمیراتی ڈھانچے کی بحالی جہاں ملکی خزانے پر بوجھ بنتی ہے وہاں لوگوں کی ذاتی رہائش گاہوں کی تعمیر و مرمت پر اٹھنے والے اخراجات ان کے لیے قدرتی آفت کے بعد ایک نیا عذاب ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی قلت کے ساتھ مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ بھی سیلاب زدہ لوگوں کی کمر مزید توڑ دیتا ہے۔
حالیہ سیلاب نے ملک کے چاروںآئینی صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی تباہی برپا کی ہے ۔ صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سیلاب کے دوران ہونیوالی تباہی کے مناظر گو کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں نظر آنے والی بربادی کی طرح ہی دلخراش ہیں مگر جو نقصانات بلوچستان اور سندھ میں ہوئے ان کا حجم اور وسعت اول الذکر دو صوبوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ اگر بلوچستان اور سندھ میں ہونے والے نقصانات کو دیکھا جائے تو جس درجے کی تباہی نے آدھے سے زیادہ بلوچستان کو متاثر کیا ، سندھ مکمل طور پر اس تباہی کا شکار نظر آتا ہے۔لوگوں کے ذاتی اور مفاد عامہ کے ریاستی انفراسٹرکچر کی جو تباہی ہو چکی ہے اس کی ازسر نو تعمیر و مرمت کے لیے درکار وسائل کے متعلق کچھ سوچنا بعد کی باتیں ہیں ، فی الحال تو یہ نظر آرہا ہے کہ حکومتیں بے گھر ہو چکے تمام سیلاب متاثرین کو اپنے طور پر عارضی جائے پناہ اور خوراک فراہم کرنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں اگر سیلاب متاثرین کی بھرپور مددنہیں کر پارہیں تو اس کی وجہ حکومتوں کی کوتاہیوں سے زیادہ یہ ہے کہ بال بال قرض میں ڈوبی ہوئی ریاست کے وسائل انتہائی محدود ہو چکے ہیں۔ ریاست کے محدود ہو چکے وسائل کی وجہ سے جو کام حکومتیں کماحقہ نہیں کر پارہیں ان کی ذمہ داری بڑی حد تک ملک کے درد دل رکھنے والے لوگوں اور
فلاحی تنظیموں نے اپنے اوپر لے لی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ درد دل رکھنے والی ان تنظیموں اور لوگوں میں کچھ کالی بھیڑیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ اس طرح کی کالی بھیڑوں جیسے چند لوگ اگر ایک طرف سیلاب زدگان کے نام پر چندہ اکٹھا کر کے اپنی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں تو دوسری طرف کچھ ایسے بھی ہیں جو سیلاب متاثرین کا روپ دھار کر امدادی سامان کی لوٹ مارمیں مصروف ہیں۔ اس طرح کی لوٹ مار کرنے والوں کو فی الحال اس لیے روکا نہیں جاسکتا کیونکہ اس وقت اصل متاثرین، حقیقی درد دل رکھنے والوں اور چوروں میں تفریق کرنا ممکن نہیں ہے۔
جہاں ایک طرف سیلاب زدگان کے نام پر چوری چھپے لوٹ مارہور ہی ہے وہاں کچھ ایسے چہرے بھی دکھائی دے رہے ہیں جو انتہائی دیدہ دلیری سے سفاک سیاست کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسی سفاک سیاست کی سب سے بڑی مثال سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کی وہ باتیں اور مشورے ہیں جو انہوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ محسن لغاری اور تیمور جھگڑا کو دیئے۔ کون بھول سکتا ہے شوکت ترین نے مذکورہ دونوں زرائے خزانہ کو یہ کہا تھا کہ ان کے صوبے کیونکہ سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں لہٰذا اس بات کو جواز بنا کر آئی ایم ایف کو رقم کی ادئیگی کے لیے کیے گئے وعدے پورے کرنے سے انکار کردیا جائے۔ شوکت ترین نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کو جومشورے دیئے وہ پہلے سے ہی منظر عام پر آچکے ہیں، اب موصوف کو مزید ہمت کر کے یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ اگر سیلاب کی وجہ سے متاثر ہونے والے چند علاقوں کے حامل صوبوں کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو رقم کی ادئیگی کے لیے کیے گئے وعدے پورے کرنے سے انکار کردیں تو سندھ ور بلوچستان کیا کریں جن کا کوئی علاقے بھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہا۔
جو لوگ یہاں سفاک سیاست کر رہے ہیں وہ کرتے رہیں مگر عام پاکستانیوں کو یہ باتیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ سیلاب نے جن دو صوبوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ان میں سے پسماندہ ترین بلوچستان کو سیلاب نے برباد ترین بنا دیا ہے۔ اسی طرح سندھ وہ صوبہ ہے جس کا نہ صرف ملک کے کل ریونیو میں حصہ 65 فیصد سے زیادہ ہے بلکہ یہی صوبہ ملک میں پیدا نے والے خام تیل کا 56 فیصد اور قدرتی گیس کا 71 فیصد حصہ وفاق کو فراہم کرتا ہے ۔ اسی خام تیل اور گیس پر وفاقی حکومت پٹرولیم لیوی اور گیس سیس جیسے ٹیکس وصول کرتی ہے ۔ ملک کے کل ریونیومیں اس قدر حصہ ڈالنے والے صوبے کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والے طے شدہ حصے کا24.55 فیصد ملتا ہے۔ ایک پسماندہ ترین اور دوسرے ملک کے ریونیوں میں بہترین حصہ ڈالنے والے صوبے سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی اگر سیلاب نے بدترین تباہی مچائی ہے تو ضروری ہے کہ سفاک سیاست کرنے والوں پر توجہ دینے کی بجائے سیلاب کی وجہ سے ہونیوالے نقصانات کے ازالہ کو ریاست کی ترجیح بنایا جائے۔