Editorial

وزیر خزانہ کا مہنگائی سے متعلق اعتراف

وفاقی وزیر خزانہ مفتاع اسماعیل نے ایک بار پھر ملک میں مہنگائی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت مہنگائی اپنے عروج کے قریب ہے ،گزشتہ 47 سال کے مقابلہ میں افراط زر کی شرح زیادہ ہے جو ایشیائی ممالک میں دوسری سب سے بڑی شرح ہے،معاشی شرح نمو 5 کے بجائے 5.3فیصد متوقع ہے، تباہ کن سیلاب کی وجہ سے افراط زر کی شرح میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ایک انٹر ویو میں مفتاع اسماعیل نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں سیلاب اور بارشوں کے باعث سبزیوں وغیرہ کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ کم ہو رہا ہے کیونکہ وفاقی حکومت نے ہمسایہ ممالک سے ہنگامی بنیادوں پر سبزیوں کی درآمدات کے اقدامات کئے ہیں۔ملک میں برسوں سے جاری زیادہ شرح نمو اور پھر معاشی بحران کو ختم کرنا چاہتا ہوں۔ درآمدی ادائیگیوں کو ڈالر کی وصولیوں کے مساوی ہونا چاہیے، جس کے لیے طویل عرصے تک پُرتعیش اشیا کی درآمدات پر پابندی ناگزیر ہے۔ میں ایسے پاکستان کا خواہش مند ہوں جو اپنے وسائل میں رہ سکے تاکہ کسی ادارے سے قرض کی ضرورت ہی پیش نہ آئے، ایک سال میں کچھ نہیں کیا جاسکتا لیکن ہم کام شروع کرسکتے ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات نے پاکستان میں مہنگائی کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر قرار دیا تھا اور اب وفاقی وزیر خزانہ نے اِس رپورٹ پر مہر ثبت کردی ہے یہی نہیں ملک میں مہنگائی کی موجودہ صورتحال کے بارے میں عالمی مالیاتی ادارہ(آئی ایم ایف)نے پاکستان سے متعلق اپنی حالیہ رپورٹ میں خبردارکیا تھا کہ پاکستان میں آئندہ برس بھی مہنگائی کی شرح برقرار رہے گی جس کے باعث ملک میں مظاہرے بھی ہوسکتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے سیلاب کو افراط زر کی شرح میں اضافے کی وجہ قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ آنے والے دنوں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی آجائے گی کیونکہ ہمسایہ ممالک سے ضرورت کی اشیا درآمد کی جارہی ہیں اورمارکیٹ میں پہنچنے سے اشیا کی قیمتوں میں اعتدال آجائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کی موجودہ صورت حال میں عوام کومارکیٹ کے رحم و کرم پرنہیں چھوڑنا چاہیے، پہلے ہی پٹرول، بجلی اور گیس کے معاملے پر عوام کو بین الاقوامی مارکیٹ کے اتار چڑھائو سے جوڑ دیاگیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ توانائی کے تینوں ذرائع عام آدمی کی قوت خرید سے زیادہ مہنگے ہوچکے ہیںیہی نہیں حکومت کی جانب سے سپر ٹیکس کے نفاذ سے ملک بھرمیں کم و بیش ہر چیز کی قیمت میں من چاہا اضافہ کردیاگیا ہے اور دگنی قیمت کے قریب بیچی جارہی ہے۔ ہم نے سپرٹیکس کے اعلان کے وقت بھی یہی گذارش کی تھی کہ حکومت نظررکھے کہ جن پر سپر ٹیکس نافذ کیا جارہا ہے وہ مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے یہ معاشی بوجھ عوام پر منتقل نہ کریں مگر ارباب اختیار نے اس ضمن میں حوصلہ افزا اقدامات نہیں کیے یہی وجہ ہے کہ آج دیا سلائی سے لیکر عام سفید پوش پاکستانی کے استعمال کی ہر چیز کی قیمت قریباً
قریباً دگنی ہوچکی ہے یوں حکومت جو سپرٹیکس وصول کررہی ہے وہ سرمایہ دار اورکمپنیوں کی بجائے عام پاکستانی اداکررہے ہیں جو پہلے ہی پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمت بڑھنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی میں پسے ہوئے تھے۔یوں عوام پر ایک یا دو بار نہیں بتدریج مہنگائی کا بوجھ ڈالا جارہا ہے اور رہی سہی کسر اب سیلاب سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نکل گئی ہے، اگرچہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ پڑوسی ممالک سے درآمدات کےنتیجے میں مارکیٹ میں ان اشیا کی قیمتیں کم ہوجائیں گی جن کی قیمتوں میں حالیہ بارشوں اور سیلاب سے نقصان ہوا ہے لیکن ہماری گذارش ہے کہ جو مہنگائی آئی ایم ایف کی شراط کے نتیجے میں ہوئی ہے وہ کیسے کم ہوگی؟ پٹرول مہنگا ہوا کم و بیش ہر چیز مہنگی ہوگئی، دوسری بار پھر تیسری بار پھر چوتھی بار، اب لیوی بڑھانے کا عزم ظاہر کیاجارہا ہے، اسی طرح بجلی کی قیمت میں بھی اسی رفتار سے بتدریج اضافہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ہر بار مہنگائی پہلے سے زیادہ بڑھی، جتنی بار گیس مہنگی کی گئی اتنی ہی بار مہنگائی ہوئی پس معاشی اصلاحات کے نام پر آئی ایم ایف کے مطالبے پر جتنی بار توانائی کی قیمت میں اضافہ کیا گیا اتنی ہی بار مہنگائی ہوئی اور اب سیلاب سے مہنگائی۔ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں خبردارکیا ہے کہ آئندہ سال بھی مہنگائی جاری رہے گی اور اس کے نتیجے میں ملک میں مظاہرے بھی ہوسکتے ہیں۔ پس عالمی مالیاتی ادارے نے ہمیں اُن حالات سے متعلق خبردار کردیا ہے جن کا حکومت کو سامناکرنا پڑ سکتا ہے اِس لیے حکومت کو آئی ایم ایف کے اِس انتباہ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کیونکہ پہلے ہی مہنگی بجلی کی وجہ سے ملک بھر کے عوام سراپا احتجاج ہیں اور بلاشبہ حکومت نے تین سو یونٹ تک فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز ختم کردیئے ہیں لیکن اس کے باوجود بجلی کی قیمت تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر جب ہم توانائی اور خوراک کی قیمت پر دی گئی چھوٹ کا خاتمہ کرتے ہیں تو کیا عوام کی معاشی حالت کو مدنظر رکھاجاتا ہے ، فقط بھر آئی آواز میں دومیٹھے بول عوام کے مسائل کم نہیں کرسکتے لہٰذا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عوام ناقابل برداشت مہنگائی برداشت کررہے ہیں اور تاریخ ساز مہنگائی اِس حکومت کے دور میں ہوئی ہے جس نے مہنگائی ختم کرنے کا دعویٰ کرکے اقتدار حاصل کیاتھا۔ اِس لیے اشد ضروری ہے کہ ارباب اختیارسوچیں کہ عوام کو اِس تباہ کن مہنگائی سے کیسے باہر نکالنا ہے اور کیسے تالہ بند ہوئی صنعتوں کا پہیہ رواں کرنا ہے۔ خدانخواستہ ایسی صورت حال نہ ہو جس سے آئی ایم ایف نے خبردار کیا ہے وگرنہ ملک و قوم کو اِس کا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ عوام کے مسائل کا ادراک کرنے کا یہی وقت ہے۔

جواب دیں

Back to top button