پڑوسی ممالک سے درآمدات کا فیصلہ

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ایک سے زیادہ بین الاقوامی ایجنسیوں نے حکومت سے رابطہ کیا ہے کہ انہیں زمینی راستے کے ذریعے بھارت سے کھانے پینے کی اشیا ءپاکستان لانے کی اجازت دی جائے۔ حکومت اپنے اتحادیوں اور اہم سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد سپلائی کی کمی کی صورتحال کی بنیاد پر درآمدات کی اجازت دینے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ایف بی آر کی جانب سے سیلاب زدگان کے لئے سامان کی درآمد اور فراہمی پر ٹیکس اور ڈیوٹیز سے استثنیٰ کے لیے پانچ ایس آر اوز جاری کردئیے گئے ہیں اور یہ استثنیٰ 90روز کیلئے ہوگا ۔وفاقی کابینہ نے سیلاب کی صورتحال میں مقامی منڈی میں پیدا شدہ قلت پر قابو پانے کے لیے ایران اور افغانستان سے پیازاور ٹماٹر کی درآمد کی اجازت دیتے ہوئے ان اشیاء کو ٹیکس سے استثنیٰ دینے کی منظوری دے دی ہے اور ایف بی آر نے اِس کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے،نوٹیفکیشن کے مطابق ٹماٹر اور پیاز کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ رواں سال کے آخری دن تک ہوگی۔وزیر تجارت نوید قمر کے مطابق ایران اور افغانستان سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم بھارت سے سبزیاں درآمد کرنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔سیلاب سے زرعی شعبہ متاثر ہوا ہے اور آئندہ ماہ ہمیں خوراک کی کمی سامنا ہوسکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پڑوسی ممالک سے اجناس درآمد کرنے کا معاملہ گر چند روز قبل ہی کرلیا جاتا تو زیادہ مناسب تھا تاہم دیرآید درست آید ۔ بارشوں اور سیلاب نے انتہائی کمزور معیشت پر مزید بوجھ ڈال دیاہے۔ جہاں ہمیں جانی و مالی نقصان کا سامنا ہے وہیں اشیا خورونوش کی حقیقی اورمصنوعی قلت ابھی سے سامنے آنا شروع ہوگئی ہے جیسا کہ پیاز، ٹماٹر اوردوسری اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، بلاشبہ سیلاب نے زراعت کے شعبے کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اسی وجہ سے طلب و رسد میں بھی فرق آرہا ہے لیکن جوچیز تین سے چار سو روپے کلودستیاب ہورہی ہے وہی چیز اپنی اصل قیمت پر بھی دستیاب کی جاسکتی ہے تاہم توقع ہے کہ برادرملکوں سے درآمدات کے بعد ان کی قیمتوں میں اعتدال آئے گا اور مہنگائی کا جو مصنوعی طوفان برپا ہے ، تھم جائے گا۔ فی الحال سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ 900ارب روپے سے زائد لگایاگیا ہے لیکن صحیح تخمینہ تبھی لگایا جاسکے گا جب سیلاب ختم ہوگا اِس میں زرعی نقصان کتنا ہوا ہے ماہرین معیشت و زراعت اس کے اندازے پیش کررہے ہیں مگر یہ اندازے بھی قبل ازوقت ہی کہے جاسکتے ہیں کیونکہ سیلاب کی وجہ سے ایک طرف تو گندم کی بوائی میں تاخیر ہورہی ہے دوسری طرف کپاس اور چاول کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے اسی لیے ہماری مقامی ضروریات ہی متاثر نہیں ہوں گی بلکہ چاول اور کپاس کی برآمدات کا
ہدف بھی شدید متاثر ہوگا۔ سبزیوں کےلہلہاتے کھیت اورپھلوں سے بھرے باغات سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں اور یقیناً حالیہ دنوں میں اِن کی قلت اور مہنگائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے لیکن جتنی مہنگائی ہے بظاہر خود ساختہ بھی معلوم ہوتی ہے اِس لیے جب ہم اِس عفریت سے نجات حاصل کرلیں گے تبھی ہمیں اندازہ ہوگا کہ سیلاب اور بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی نے ہماری معیشت کی کس قدر کمر توڑی ہے اور ہمیں نظام زندگی چلانے کے لیے کیا کیا درآمد کرنا پڑے گا اوربرآمدات کے ہدف کس حد تک متاثر ہوں گے کیونکہ بیشتر حصوں میں ابھی تک سیلاب کی کیفیت برقرار ہے اور زمینوں کو دوبارہ قابل کاشت کرنے کے لیے بھی طویل وقت یعنی کئی مہینے درکار ہوں گے اِس لیے پریشانی یہی ہے کہ آنے والی کئی مہینے ہمیں پڑوسی ممالک کی اجناس ہی درآمد کرنا پڑیں گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق گندم کی بوائی میں تاخیر کے باعث گندم کی فصل متاثر ہوگی جس کے نتیجے میں ہمیں ایک ارب ستر کروڑ ڈالر تک کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔اسی رپورٹ میں دعویٰ کیاگیا ہے کہ گزشتہ سال اڑھائی ارب ڈالرز کے چاول برآمد کیے تھے جو اس سال نہیں ہوپائیں گے کیونکہ سیلاب نے سب کچھ تباہ و برباد کردیا ہے اوریقیناً آنے والے دنوں میں گوشت کی قیمت اور فصلوں اور باغات تباہ ہونے سے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس کے باعث ملک میں مہنگائی نئے ریکارڈ پر پہنچ سکتی ہے جس کو صرف اسی صورت کنٹرول کیاجاسکتا ہے کہ حکومت زمینی حقائق پر کڑی نظر رکھے اور کسی بھی چیز کی قلت پیدا نہ ہونے دے، ساتھ ہی درآمدہ اور مقامی اجناس کی قیمتوں کو بھی دیکھتی رہے تاکہ کسی کو اِس صورتحال کا ناجائزہ فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ سیلاب کی وجہ سے زمینی راستے سے بھی ایک سے دوسرے صوبے اور شہروں کو اجناس اوردوسری ضروری اشیا کی فراہمی شدید متاثر ہے اور منافع خور اِس صورتحال کا مکمل فائدہ اٹھارہے ہیں وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو اِس جانب بھی دیکھنا ہوگا کہ ملک بھر میں سیلاب کے نام پر مصنوعی قلت اور پھر مہنگائی کرکے کس طرح عوام کا استحصال کیا جارہا ہے۔ پچھلی حکومت کو کرونا وائرس نے کمر توڑ نقصان پہنچایا تھا اور موجودہ معاشی بحران کے دوران اتحادی حکومت کو سیلاب نے قریباً قریباً بے بس کردیا ہے اس کے باوجود حکومت ہر ممکن طریقے سے کوشش کررہی ہے کہ صورتحال ایسی نہ ہو جیسی سیلاب سے پیداہوچکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف پیاز اور ٹماٹر ہی نہیں بلکہ دیگر اشیائے خورونوش کی دستیابی ابھی سے دیکھ لی جائے تاکہ وہ اشیا بھی بروقت درآمد کی جاسکیں جن کی آنے والے دنوں میں ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اگر حکومت درآمدی اشیا پر کڑی نظر رکھے تو مقامی ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ شکنی کی جاسکتی ہے جو مقامی اجناس وغیرہ درآمد اجناس کے برابر یا اُس سے کہیں زیادہ مہنگی بیچ رہے ہیں۔





