
اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے چیف اکنامسٹ عارف حسین نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ یوکرین تنازع کے باعث سپلائی لائن متاثر ہونے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں اشیائے خوردنوش کی قیمتوں میں کمی آنا ممکن نہیں۔ اس جنگ نے ‘پہلے سے بھڑکتی آگ کو مزید ایندھن’ فراہم کردیا ہے۔
یوکرین دنیا میں گندم، مکئی اور سورج مکھی برآمد کرنے والا اہم ملک ہے اور روسی حملے کے بعد اس کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔
عارف حسین نے کہا کہ عالمی سطح پر خوراک کا بحران دستیابی کی بجائے قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ خوراک تو دستیاب ہے مگر قیمت بہت زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2022 میں عالمی سطح پر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ تھیں اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کھاد کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث بھی اشیائے خوراک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔کھاد کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ روس کی جانب سے کھاد کی برآمد کو محدود کرنا ہے۔اگر کھاد کی سپلائی کو بحال نہ کیا گیا تو خوراک کے بحران پر قابو پانا بھی ممکن نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ اس وقت خوراک سے محروم افراد کی تعداد 34 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جو 2019 میں ساڑھے 13 کروڑ تھی ۔
توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں اضافے اور سپلائی کا سلسلہ متاثر ہونے سے بھی حالات خراب ہوئے ہیں اور عالمی بینک کے مطابق آئندہ 2 سال تک حالات میں بہتری کا امکان نظر نہیں آتا







