
عراق میں شیعہ لیڈر مقتدیٰ الصدر کے سیاست چھوڑنے کے اعلان کے بعد 2 روز کے دوران بغداد میں پرتشدد واقعات میں مرنے والوں کی تعداد 23 ہوگئی۔ ان واقعات میں 380 افراد زخمی ہوگئے۔
غیرملکی خبرایجنسی کےمطابق پیر کو مقتدیٰ الصدر کے حامی سیاست سے علیحدگی کے اعلان پراحتجاج کرتے ہوئے بغداد کی سڑکوں پر نکل آئے اوران کی تہران کے حمایت یافتہ گروپ کے حامیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔
انہوں نے بغداد کے انتہائی سیکیورٹی والے علاقے گرین زون کے باہر ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا، بغداد کے وسطی علاقے میں فائرنگ سنائی دی گئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بغداد کے گرین زون میں مقتدیٰ الصدر کے سیکڑوں حامیوں نے گرین زون میں واقع سرکاری عمارت ری پبلکن پیلس پر دھاوا بول دیا۔
بہت سے لوگ محل کے شاندارسیلونوں اور سنگ مرمر والے ہالوں میں داخل ہوگئے، یہ محل عراقی سربراہان مملکت اورغیرملکی معززین کے درمیان ملاقاتوں کی ایک اہم جگہ ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ مقتدیٰ الصدر کے حریف شیعہ بلاک یعنی ایران نواز رابطہ فریم ورک کے حامیوں نے پہلے فائرنگ کی تھی۔
سیکیورٹی فورسز نے گرین زون کے داخلی دروازے پر صدری تحریک کے حامیوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی جس کے بعد وہ سرکاری محل کو خالی کرنے پرمجبور ہوگئے۔
مقتدیٰ الصدر نے قبل ازیں سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔اس کے ردعمل میں ان کے ناراض پیروکار ری پبلکن محل میں داخل ہوگئے۔ان کے حامیوں نے سیمنٹ کی رکاوٹوں کو رسیوں سے نیچے اتارا اور محل کے دروازے توڑ دیے۔
پیرکوسہ پہر کے وقت سکیورٹی فورسز نے سرکاری محل کے احاطے سے صدری تحریک کے حامیوں کو نکالنے کے لیے آنسو گیس کے کنستراور اور شور پیدا کرنے والے دستی گولے داغے تھے۔
پر تشدد آمیز واقعات کے بعد ایک مرتبہ پھرحالات ابتر ہونے کاخدشہ پیدا ہو گیا ہے جبکہ جنگ زدہ ملک پہلے ہی برسوں سے بدترین سیاسی بحران میں گھرا ہوا ہے۔
عراقی فوج نے دارالحکومت میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر قابوپانے کیلئے شہر بھر میں مقامی وقت کے مطابق شام 7 بجے سے کرفیو کا اعلان کیا ہے۔
فوج نے ایک بیان میں مقتدیٰ الصدر کے حامیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ انتہائی سیکیورٹی والے سرکاری علاقے سے فوری طور پر نکل جائیں اور ضبط وتحمل کا مظاہرہ کریں۔







