Editorialسیلاب

سیلاب سے قیامت صغریٰ برپاہے!

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں کور کمانڈرز نے سیلاب متاثرین کی تکالیف کم کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھانہ رکھنے پر اتفاق کیا ہے جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نےہدایت دیتے ہوئے کہاہےکہ سیلاب متاثرین کی فوج ہرممکن مدد کرے ،مصیبت کی گھڑی میں ہر متاثرہ فرد تک پہنچنا ضروری ہے ۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں 250ویں کور کمانڈرز کانفرنس جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہوئی جس میں ملک کی اندرونی و بیرونی سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیااور آرمی فارمیشنز نے سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف کے کاموں کا جائزہ لیا اور سیلاب، بارشوں سے قیمتی جانوں کے ضیاع اور املاک کے نقصانات پردکھ کا اظہار کیا جبکہ امدادی اور ریلیف کے کاموں میں پاک فوج کے جوانوں کے کردار کو سراہا۔ فورم نے غیرمعمولی بارشوں اور سیلاب سے قیمتی جانوں کے ضیاع اور بنیادی ڈھانچے کو ہونے والے وسیع نقصان پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھنے کا عزم کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ آرمی فارمیشنز سیلاب متاثرین کی ہرممکن مدد یقینی بنائیں، ہر ایک متاثرہ شخص تک پہنچا جائے، آرمی چیف نے ہدایت کی کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے مکمل آپریشنل تیاری رکھی جائے۔دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف نے لندن کا دورہ منسوخ کرکےسیلاب کی صورتحال اور امدادی کارروائیوں سے متعلق تین گھنٹے طویل اجلاس کیا اور گذشتہ روز سندھ کا دورہ کرکے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے امدادی کارروائیوں کا جائزہ لیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت سیلاب زدگان کی مدد کے لئے انٹرنیشنل پارٹنرز کے ساتھ اہم اجلاس بھی ہوا جس میں عالمی اداروں نےپچاس کروڑ ڈالرز امداد کا اعلان بھی کیا، ریلیف فنڈ میں کابینہ کے ارکان اور فوج کے جنرل آفیسرز ایک ماہ کی تنخواہ دیں گے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سیلاب سے ہونے والی تباہی کے معاملے پر پاکستان، اقوام متحدہ سے مدد کی اپیل کرے گا۔وزیرِ اعظم نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دو ستمبر تک فلڈ ریلیف کیش پروگرام کے تحت 25 ہزار فی متاثرہ خاندان پہنچانے کی دو ٹوک ہدایات کی ہیں۔انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق پاک فوج کےتمام جنرل آفیسرز نے فلڈ ریلیف آپریشن کے لیے ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ کی ہے۔نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں
مزید 34 افراد جاں بحق ہو گئے جن میں 17 بچے،10 مرد اور 7 خواتین شامل ہیں اور اب تک حالیہ بارشوں اور سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد 937 ہوگئی ہے۔چوبیس گھنٹوں کے دوران خیبر پختونخوا میں 16، سندھ میں 13، بلوچستان میں 4 اور پنجاب میں ایک شخص جاں بحق ہوا۔ سیلاب اور بارشوں کےباعث پچاس افراد زخمی ہوئے ۔ اسی طرح چوبیس گھنٹوں میں مزید 85 ہزار 897 جانور مرگئےجس کے بعد ملک بھرمیں مرنے والے جانوروں کی تعداد 7 لاکھ 93 ہزار 995 ہوگئی ہے۔ قریباً ایک ماہ سے جاری مسلسل بارشوں اور سیلاب نے چاروں صوبوں بالخصوص اُن کے متاثرہ علاقوں میں قیامت برپا کی ہوئی ہے، تمام کوششیں اوروسائل بروئے کار لائے جانے کے باوجود ہر نئے دن مزید تباہی اور جانی و مالی نقصان کی مصدقہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں بالخصوص حالیہ صورت حال نے ہر پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ پاک فوج کے جوان چوبیسوں گھنٹے متاثرہ علاقوں میں ریلیف کے لیے مصروف عمل ہیں، ان کے ساتھ ریسکیو اور دیگر اداروںکے جوان بھی قیمتی جانیں بچانے کے لیے مصروف ہیں اس لیے ایسا دعویٰ قطعی نہیں کیاجاسکتا کہ تمام متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیاگیا ہے بلکہ چوبیسوں گھنٹے جاری ریسکیو آپریشن کے باوجود حالات قابو سے باہر دکھائی دے رہے ہیں، ایسے خاندانوں کی بھی تعداد کم نہیں جو پانی میں گھرے ہونے کے باوجود اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام پر کسی صورت منتقل ہونے کو تیار نہیں اس لیے انہیں وہاں سے منتقلی پرقائل کیا جارہا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جن متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاچکا ہے ان کے رہنے کے لیے خیموں اورپناہ گاہوں کی ضرورت ہے انہیں خوراک، ادویات، کپڑے اور اشیائے خورونوش بھی چاہئیں اور بلاشبہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں انہیں وہ ضروریات فراہم کرنے کی کوشش بھی کررہی ہیں مگر یہ بحران موجودہ وسائل میں ختم ہونے والا نہیں اور قوم کو بہرصورت اپنے متاثرہ ہم وطنوںکو نئی زندگی اورخوشحالی دینے کے لیے اپنا فرض اداکرنا پڑے گا۔ بلاشبہ فلاحی ادارے متاثرین کی مدد کے لیے عطیات جمع بھی کررہے ہیں اور متاثرہ افراد تک پہنچا بھی رہے ہیں مگر ابھی سفر بہت طویل ہے، جب تک سیلاب کی تباہ کاریاں ختم نہیں ہوجاتیں، لوگ ان نشانات تک نہیں پہنچ جاتے جو کبھی اُن کے گھر ہوتے تھے اور جب تک متاثرین کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں کردیا جاتا ہمارا قومی فریضہ ادا نہیں ہوگا۔ فی الحال پہلی ترجیح متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا اور محفوظ مقامات پر موجود ہم وطنوں کو ضرورت کی تمام اشیا کی فراہمی ہے۔ اس کے بعد متاثرین کی بحالی کے لیے کام شروع ہوگا جو بلاشبہ بہت طویل اور صبرآزما ہوگی۔ یہ وقت سیاسی اختلافات اور رنجشیں ختم کرکے ہم متاثرہ وطنوں کے لیے متحد ہونے کا ہے۔ خدارا اُن کی مدد کریں جو آزمائش میں ہیں اور جن کا سب کچھ تباہ وبرباد ہوگیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button