سیلاب متاثرین کیلئے قابل تحسین اعلانات

پنجاب حکومت نے سیلاب متاثرین کو ریلیف دینے کے لیے بڑا اعلان کیا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لیے آبیانہ اورمالیہ معاف کرنے اورسیلاب متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی کے نفاذ کااعلان کیاہے۔ اسی کے ساتھ تمام سیلاب متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے دیاگیاہے۔ جنوبی پنجاب کے علاقے راجن پور،تونسہ،ڈیرہ غازی خان اور عیسیٰ خیل سیلاب سے سب زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور اسی سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی ہدایت پرچوبیس رکنی ڈیزاسٹر مینجمنٹ وزارتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ایک روز قبل ہی ملک میں سیلابی صورتحال پر وزیراعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز سے فون پر رابطہ کیا۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے ملک میں سیلاب متاثرین خاص طور پر صوبہ سندھ میں امداد اور بحالی کی کارروائیوں سے متعلق گفتگو کی اور آرمی چیف نے پاک فوج کی جانب سے صوبہ سندھ میں امدادی کارروائیوں میں بھرپور تعاون سے متعلق آگاہ کیا اسی دوران وزیراعظم نے صوبہ سندھ میں رابطہ سڑکوں اور پلوں کی تباہی کے باعث ہیلی کاپٹرز کی فراہمی کی ہدایت کی اور ہیلی کاپٹرز کے استعمال سے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں زمینی رابطہ کٹنے کی وجہ سے ریسکیو اور ریلیف کی فراہمی میں آنے والی مشکلات کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ وزیراعظم نے سیلاب متاثرین کے ریسکیو کرنے اور ریلیف کے لیے پاک فوج کے تعاون اور جذبے کو سراہادوسری طرف سے آرمی چیف نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ کمانڈر سدرن کمانڈ کو بلوچستان میں امدادی کارروائیوں کے حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ وزیر خارجہ پاکستان بلاول بھٹو زرداری اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے بارش اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے پر ہیں۔وزیراعظم شہبازشریف نے ہم وطن مخیر حضرات سے اپیل کی ہے کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے حکومت کا ہاتھ بٹائیں ساتھ ہی
سیلاب سے ہونے والے بڑے نقصان کے ازالے کے لیے حکومت نے ڈونرز کانفرنس کے انعقاد کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ رواں سال مون سون کے طویل سلسلے نے بارشوں اور سیلاب سے ایسی تباہی مچائی ہے کہ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں متاثرہ علاقوں میں ریلیف کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اسی طرح پاک فوج، ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور فلاحی ادارے بھی مقامی حکومتوں کے شانہ بشانہ سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ اولین ترجیح متاثرہ افراد کو جانی نقصان سے بچانا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے کسانوں کے کھیت یعنی تیار فصلیں بہہ گئی ہیں، ہنستے بستے گھر اور گائوں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں، انسان تو انسان بلکہ مویشی بھی سیلاب کی نذر ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے جوان متاثرہ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیںریلیف کا سامان بھی فراہم کررہے ہیں کیونکہ جن کی جانیں بچائی گئی ہیں انہیں خوراک اور ادویات کی بھی فوری ضرورت ہے اس لیے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاک فوج اور اس کے شانہ بشانہ دوسرے ادارے ریلیف کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں لوگوں کی جانیں بچائی جارہی ہیں مال مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کیے جارہے ہیں اور جہاں تک ممکن ہے پاک فوج اپنی طرف سے متاثرین کو خوراک، طبی امداد اور ضرورت کی اشیا بھی فراہم کررہی ہے مگر ابھی متاثرین کی بحالی اور معمولات زندگی کو بحال کرنا باقی ہے، جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کرنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہی ہے کہ ہم ایک طرف مالی مشکلات کا شکار ہیں تو اسی دوران ہم پر یہ آزمائش ڈالی گئی ہے مگر ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ ہمیں اس مشکل صورتحال سے جلد از جلد باہر نکالے اور متاثرین کے سامنے سرخرو کرے، مگر اس کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے کہ تمام ہم وطن اپنے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آگے بڑھیں خصوصاً مخیر حضرات اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تاکہ متاثرہ افراد نئے سرے سے زندگی شروع کرسکیں، وفاقی حکومت کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ افراد کے گھروں کی تعمیر ومرمت کے لیے فنڈز کااعلان کیاگیا ہے اِدھر پنجاب حکومت نے بھی سیلاب متاثرین کو ریلیف دینے کے لیے آبیانہ اورمالیہ معاف کرنے اورسیلاب متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ساتھ تمام سیلاب متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے دیاہے۔ وفاقی حکومت متاثرین کو فی خاندان پچیس ہزار روپے نقد فراہم کررہی ہے اور اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے کم ازکم اسی ارب روپے درکار ہوں گے اور اگر مخیر حضرات اس کارخیر میں شامل ہوتے ہیں تو متاثرین کو جلد ازجلد فراہمی ممکن ہوسکتی ہے۔ وفاقی حکومت ڈونر ز کانفرنس میں بین الاقوامی اداروں کو ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر بریفنگ دے کر متاثرہ افراد کے لیے ریلیف لینا چاہتی ہے مگر یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی اور آبادکاری کے لیے اتنے فنڈز کافی ہیں نہ ہی متاثرہ افراد خیموں میں طویل عرصے تک رہ سکتے ہیں، پھر موسم سرما کا بھی آغاز ہونے والا ہے اِس لیے ساری صورتحال وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے پریشان کن ہے مگر یہ پریشانی تبھی کم ہوسکتی ہے جب متاثرین موسم سرما کے آغاز سے قبل ہی اپنے گھر تعمیر کرکے اُن میں منتقل ہوجائیں اور ان کا ذریعہ معاش یعنی مویشی اور کھیت کھلیان دوبارہ نظر آئیں لیکن تشویش ناک امر یہ بھی ہے کہ ایک طرف متذکرہ صورتحال اور کاوشیں ہیں تو دوسری طرف ملک کے بیشتر حصوںمیں آنے والے دنوںمیں موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی کی جارہی ہے حالانکہ پہلے ہی ملک میں بارشوں کاتیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے اوربلاشبہ بلوچستان اور سندھ میں تباہی وبربادی سے قیامت صغریٰ کا منظر ہے ، بارشوں اور سیلاب سے مال مویشی، فصلوں، باغات اور املاک کو نقصان ہی نہیں پہنچا بلکہ سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا ہے اور متاثرہ افراد کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے اب ہمیں سرجوڑنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے حصے کا کام خلوص نیت سے کررہی ہیں اور پاک فوج سمیت تمام متعلقہ شعبوں سے منسلک افراد بھی جان جوکھوں میں ڈال کر متاثرین کی مدد کررہے ہیں لیکن اس صورتحال میں ہم سب کو، بالخصوص مخیر حضرات کو آگے بڑھنا ہے وگرنہ نقصان شدید سے شدید تر اور ناقابل تلافی ہوجائے گا۔





