Editorial

سیاسی بے یقینی کے بڑھتے سائے

ہمارے ملک کی سیاست میں بوجوہ استحکام کبھی نہیں رہا حالانکہ وطن عزیز دو لخت بھی ہوا مگر اِس سانحے سے پہلے اور خصوصاً بعد میں کسی نے بھی اِن وجوہ کو ختم کرنے کے لیے پہل نہیں کی جن کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور اُس کا نتیجہ ناقابل تلافی نقصان کی صورت میں سامنے آیا خواہ وہ سقوط ڈھاکہ ہو یا پھر بعض قیمتی جانوں کا نقصان۔ پس اِس سانحے سے اگر کسی نے سبق نہیں سیکھا تو وہ وہی ہیں جن کے ہاتھوں میں ملک و قوم کی تقدیر ہے اور جو عوام کے مصائب بیان کرتے نہیں تھکتے مگر ان مصائب کو دوربھی نہیںکرتے کیونکہ ان کا براہ راست اِن مصائب سے دور نزدیک کا کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی اِن کے مسائل وہ ہیں جو عام پاکستانیوں کے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی وطن عزیز کو کسی نئے بحران کا سامنا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ تشویش میں مبتلا بھی عام پاکستانی ہی ہوتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ بحران براہ راست اُنہی پر اثر انداز ہوگا یا اُس بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی اُن سے مانگی جائے گی یوں اگر کوئی طبقہ ہر وقت ملک و قوم کی سلامتی کے لیے دعا گو رہتا ہے تو وہ عوام پاکستان ہی ہیں جو پیدا بھی یہیں ہوئے اور جن کی قبور بھی یہیں بننی ہیں ۔ بیرونی دنیا سے ہمارے لیے بحران کم آتے ہیں مگر زیادہ تر بحران ہماری قیادت کے اپنے ہی پیداکرتے ہوتے ہیں کیونکہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان تو ہیں مگر یہاں جمہور کبھی بھی اپنی اصل شکل میں موجود نہیں رہا اور صرف حصول اقتدار کے لیے ہی جنگ و جدل ہوتی رہی ہے یہی وجہ ہے کہ جو توانائیاں ملک و قوم کی بھلائی اور بقا و سلامتی کے لیے صرف ہونی چاہئیں وہ سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف کرتے آئے ہیں یوں جنہوں نے سانحہ سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں ملک ٹوٹتے دیکھا اور ہر سال اِس دن کی مناسبت سے اشک بھرا بیان بھی جاری کرتے ہیں وہ بھی حالات کی نزاکت اور زمینی حقائق کو دیکھنے کی بجائے اُن معاملات میں اُلجھے رہتے ہیں جو اُن کی تو اولین ترجیح ہوتے ہیں مگر ملک و قوم کا اُن میں مفاد نہیں ہوتا۔ سقوط ڈھاکہ سے پہلے اور بعد کی سیاست میں ماسوائے عدم استحکام اور عدم برداشت کے بظاہر کچھ نظر نہیں آتا۔ کوئی تو ایسا موقع ہو جب عوام کو اپنے منتخب نمائندوں یا سیاسی لیڈر شپ کے فیصلوں پر رشک آئے اور پوری دنیا میں ہماری قیادت کی نیک نامی ہو، اس کے برعکس عدم برداشت کی سیاست اور تراکیب نے پوری دنیا کے سامنے ملک کو تماشا نہیں بنایا ہوا تو پھر کیا سافٹ امیج دکھایا ہے؟ ہم ماضی کی غلطیوں پر کھل کر بات نہیں کرتے لیکن کیا اب سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے، ملک داخلی و خارجی خطرات سے باہر نکل آیا ہے اور ہر سمت دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں، عوام خوشحال ہے اور
ترقی میں ہم نے چین اوردوسرے ہمسایہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ عجیب صورتحال ہے ملک شدید ترین معاشی بحران سے دوچار ہے، قرضوں کے بوجھ تلے ہر پاکستانی بچہ دبا ہوا ہے لیکن ہمیں نظام مملکت چلانے کے لیے مزید قرض چاہئیں وگرنہ اور کوئی راہ ہے نہیں۔ نسل در نسل معاشی مسائل میں الجھی ہوئی قوم کو مسائل سے باہر نکال کر باوقار قوم بنانے کے لیے ویژن کا فقدان ہے، گر ایسا نہیں تو آج ہم اس مقام پر کیوں کھڑے ہیں جہاں بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے مگر مزید قرض چاہیے کیا اب بھی روٹی،کپڑا اور مکان کا چالیس پچاس پرانا نعرہ کارآمد رہے گا؟ زمینی حالات تو اِس کے بالکل برعکس ہیں، ہم حالیہ دنوں کی ہی مثال دیں تو ملک کے معاشی مسائل تاحال اپنی جگہ موجود ہیں، عوام پہلے سے زیادہ مہنگائی کا سامنا کرتے ہوئے واویلا کررہی ہے ، صحت، تعلیم، روزگار کے مسائل بھی اپنی جگہ اورپہلے سے زیادہ گہرے ہوچکے ہیں۔ بارشوں اور سیلاب سے کوئی بھی صوبہ محفوظ نہیں تمام تر کوششوں کے باوجود سیلابی ریلوں میں تیرتی لاشیں بھی نظر آتی ہیں اور مفلوک الحال غریب بہتے ہوئے بھی۔ مگر کمی تھی تو صرف سیاسی بحران کی جو پورے عروج پر ہے۔ سیاسی قیادت ایوانوں کی بجائے سڑکوں پر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزماہے، چونکہ عام پاکستانیوں کی قوت خرید ختم ہوچکی اس لیے کاروباری طبقہ دن بھر بجلی جلاکر خالی جیب گھر چلاجاتا ہے کیونکہ لوگوں کی جیب میں پیسے ہوں گے تو وہ خریداری کریں گے مگر معاشی اور سیاسی عدم استحکام نے ایسی بے یقینی پیدا کی ہوئی ہے کہ معاملات بہترہونے کی بجائے الجھتے جارہے ہیں کیونکہ کوئی بھی قدم پیچھے ہٹانے کو تیار نہیں ، تحریک انصاف کے شہباز گل اسلام آباد پولیس کی حراست میں ہیں تو اب پنجاب پولیس مسلم لیگ نون کے رہنمائوں کی گرفتاری کے لیے پر تول رہی ہے، ماضی کی طرح آج بھی حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے کو برداشت نہیں کررہے بلکہ اب عدم برداشت عروج پر ہے اور ملک و قوم کو درپیش مسائل درحقیقت پس منظر میں چلے گئے ہیں، عوام کی خدمت، ملک کی خوشحالی، بحرانوں کا خاتمہ ہو نہیں رہا بلکہ سب بحران اور مسائل اپنی جگہ موجود بلکہ شدت کے ساتھ موجود ہیں کیونکہ کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اورماضی کی سیاسی روایات کو شد و مد کے ساتھ آنے والی نسلوں کے لیے رکھا جارہا ہے ، اس وقت پاکستان اور اس کے عوام سیاسی، معاشی اور موسمی سیلابوں کی وجہ سے بے پناہ مسائل کا شکار ہیں، مہنگائی سے لوگوں کی نیندیں اڑ چکی ہیں، لوگ دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے پریشان ہیں مگر کون سوچے؟ بلاشبہ ان تمام چیلنجز سے نبرد آزما ہونا کسی ایک سیاسی پارٹی کے لیے ممکن نہیں اور موجودہ اتحادی حکومت بھی بظاہر ان چیلنجز کے سامنے ایک طرح سے بے بس دکھائی دیتی ہے تو پھر کیسے سب ٹھیک ہوگا؟ موجودہ حالات سیاسی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہونے چاہئیں، اختلافات کو اس نہج تک نہیں بڑھانا چاہیے کہ واپسی کا کوئی دروازہ کھلا نہ ملے ۔

جواب دیں

Back to top button