Editorial
خطبہ حج اور قربانی کا فلسفہ

شیخ ڈاکٹر محمدبن عبد الکریم العیسیٰ نے خطبہ حج اکبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ امت ایک دوسرے سے شفقت کا معاملہ رکھے، انسانیت کی قدر اور احترام مسلمانوں پر لازم ہے، حکم اسلام یہ ہے کہ اگر کوئی معافی طلب کرے تو اسے معافی دے دو۔ اسلامی اقدار کا تقاضہ ہے جو چیز نفرت کا باعث بنے اس سے دور ہو جائیں۔ میدان عرفات میں مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے شیخ محمد بن عبدالکریم العیسیٰ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کی بار بار تعلیم دی، ہمیں چاہیے کہ ہم تقویٰ اختیار کریں اور تقویٰ توحید سے آتا ہے جس کی دعوت نبی اکرمﷺ سمیت تمام انبیا کرام لے کر آئے۔ تمہارے سب معاملات اللہ کے علم میں ہیں اور یہ بات ذہن نشین رکھو کہ اگر تم اللہ کا ڈر اور خوف اپنے دل و دماغ میں قائم رکھو گے تو اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ہفتہ کے روز سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک میں عید الاضحی مذہبی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھ منائی گئی ، آج پاکستان سمیت کئی ممالک مسلمان عید الاضحی منارہے ہیں، نماز عید کی ادائیگی کے بعد سنت ابراہیمی ادا کرتے ہوئے قربانی کی جائے گی۔جبل الرحمہ پر سے میدان عرفات کے ڈیڑھ لاکھ حاضرین سے حجۃالوداع کے موقع پررسول کریمﷺ نے جو خطاب فرمایا وہ اہم تاریخی دستاویز اورحقوقِ انسانی کے چارٹر کی حیثیت رکھتا ہے اوریہ صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے ہے، کیونکہ نبی مہربانﷺ نے پوری انسانیت کو وہ سبق دیا جس پر عمل کرکے پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنایاجاسکتا ہے، مسلمانوں کے لیے نبی کریمﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع واضح احکامات ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنی زندگیاں بدل سکتے ہیں اسی لیے ہر سال میدان عرفات سے ہم مسلمانوں کو ایسا ہی درس دیا جاتا ہے جس پر عمل کرنا ہم پہ لازم ہے کہ آپس میں مساوات اور ہمدردی کے تعلقات قائم کریں۔ اللہ کی عبادت کریں، والدین کے ساتھ حسن سلوک کریں، قریبی رشتے داروں، پڑوسیوں، یتیموں، مسکینوں اور کمزوروں کے ساتھ احسان کریںاور بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ بطور مسلمان ہم پر لازم کیاگیا ہے کہ ہم اپنے وعدوں کو اللہ کی رضا کے لیے پورا کریں۔ اللہ کی کتابوں پر ایمان لائیں۔ ایمان کا تقاضا یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کریں۔ اللہ کی اطاعت کریں۔ اللہ ہی سے مدد مانگیں۔ اللہ نے لوگوں کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے اور دنیا میں جو احسان کرے گاآخرت میں اس کا بھلا ہوگا۔ معاشرے اور معاشرتی معاملات میں احسان کو قائم کروبلکہ یہاں تک فرمایاگیا ہے کہ جانور کو جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو تاکہ اسے تکلیف نہ ہو۔ جب انسان احسان کرتا ہے تو اللہ لوگوں کو آفت سے محفوظ فرماتا ہے اور قر آن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے کی بار بار تعلیم دی ہے پس ہمیںچاہیے کہ ہم تقویٰ اختیار کریں اور تقویٰ توحیدسے آتا ہے، توحید اسلامی
عقائد میں بنیادی جزو ہے۔ ہر سال حج کے موقع پر میدان عرفات کے اسی منبر سے اُمت مسلمہ کوسرکار دو عالم ﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں مخاطب کیا جاتا ہے اور درحقیقت میدان عرفات کا خطبہ حج صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے عظیم سبق ہوتاہے جس پر عمل کرکے ہر انسان نہ صرف اپنی زندگی بدل سکتا ہے بلکہ دوسرے انسانوںکی بھلائی کا بھی سبب و وسیلہ بن سکتا ہے، بلاشبہ ہر مذہب انسانیت کی عزت و تکریم اور امن و امان کی بات کرتا ہے لیکن دین اسلام تو مکمل طور پر انسانیت کا ضابطہ حیات ہے، دین اسلام نے ہر فرد کے دوسرے سے متعلق حقوق متعین فرمادیئے ہیں اور خصوصاً نبی مہربان ﷺ نے میدان عرفات میں فرمایا اور سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے کہ لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔یعنی رنگ و نسل، غربت و امارت اور ذات پات کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اہمیت و برتری نہیں ہے مگر جو لوگ زیادہ پرہیز گار اور اطاعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُن کی اہمیت ہے، اِس لیے بطور مسلمان ہم پرہی منحصر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہونے کے لیے نبی مہربان ﷺ اور قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرتے ہیں یا وہ سبھی کچھ کرتے ہیں جو ہم کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے بھی ہیں کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے مگر پھر بھی کرتے ہیں۔ آج مسلمانوں میں موجود تفریق ہی اسی لیے ہے کیونکہ ہم نے محمد مصطفی ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، نبی مہربان ﷺ نے میدان عرفات میں جب خطبہ فرمانے کے بعد لوگوں سے پوچھا کہ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچادیا ہے تو تمام حاضرین نے اقرار کیا۔ آپ ﷺ نے اِس موقعے پر یہ بھی فرمایا کہ آج دین مکمل ہوگیا ہے، تو اِس کے بعد اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی مہربان ﷺ اور قرآن کریم کے ذریعے ہم تک پہنچ چکے اور دین بھی مکمل ہوچکا تو پھر ہم کیوں گمراہ ہیں اور کیوں بھٹکے ہوئے ہیں؟ آج کفار کے سامنے ہماری کمزوری کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم ہیں اور یہ تقسیم ایک گھر سے لیکر پوری اُمہ میں نظر آتی ہے ، آج سنت ابراہیمی ادا کرتے وقت وہ منظر آنکھوں کے سامنے لانا اور وہ درد محسوس کرنا بھی ضروری ہے جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے وقت محسوس کیا تھا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایسی آزمائشیں نہیں اُتاریں مگر جو احکامات عطا فرمائے ہیں ان پر بھی ہم عمل نہیں کررہے اور اسی لیے آج ہم اقوام عالم کے سامنے کمزور پڑ چکے ہیں۔ خطبہ حج اور فلسفہ قربانی کو سوچنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے، سوچئے مدمقابل سے جیتنا مشکل ہے یا اپنے نفس سے؟ اور جو ہمارا طرز عمل و زندگی ہے کیا اِس کے نتیجے میں ہم بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں سرخرو ہونے کے قابل ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمیں راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے!
عقائد میں بنیادی جزو ہے۔ ہر سال حج کے موقع پر میدان عرفات کے اسی منبر سے اُمت مسلمہ کوسرکار دو عالم ﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع کی روشنی میں مخاطب کیا جاتا ہے اور درحقیقت میدان عرفات کا خطبہ حج صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے عظیم سبق ہوتاہے جس پر عمل کرکے ہر انسان نہ صرف اپنی زندگی بدل سکتا ہے بلکہ دوسرے انسانوںکی بھلائی کا بھی سبب و وسیلہ بن سکتا ہے، بلاشبہ ہر مذہب انسانیت کی عزت و تکریم اور امن و امان کی بات کرتا ہے لیکن دین اسلام تو مکمل طور پر انسانیت کا ضابطہ حیات ہے، دین اسلام نے ہر فرد کے دوسرے سے متعلق حقوق متعین فرمادیئے ہیں اور خصوصاً نبی مہربان ﷺ نے میدان عرفات میں فرمایا اور سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے کہ لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔یعنی رنگ و نسل، غربت و امارت اور ذات پات کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اہمیت و برتری نہیں ہے مگر جو لوگ زیادہ پرہیز گار اور اطاعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُن کی اہمیت ہے، اِس لیے بطور مسلمان ہم پرہی منحصر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہونے کے لیے نبی مہربان ﷺ اور قرآن کریم کے احکامات پر عمل کرتے ہیں یا وہ سبھی کچھ کرتے ہیں جو ہم کررہے ہیں۔ ہم سمجھتے بھی ہیں کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہے مگر پھر بھی کرتے ہیں۔ آج مسلمانوں میں موجود تفریق ہی اسی لیے ہے کیونکہ ہم نے محمد مصطفی ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے، نبی مہربان ﷺ نے میدان عرفات میں جب خطبہ فرمانے کے بعد لوگوں سے پوچھا کہ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچادیا ہے تو تمام حاضرین نے اقرار کیا۔ آپ ﷺ نے اِس موقعے پر یہ بھی فرمایا کہ آج دین مکمل ہوگیا ہے، تو اِس کے بعد اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی مہربان ﷺ اور قرآن کریم کے ذریعے ہم تک پہنچ چکے اور دین بھی مکمل ہوچکا تو پھر ہم کیوں گمراہ ہیں اور کیوں بھٹکے ہوئے ہیں؟ آج کفار کے سامنے ہماری کمزوری کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم ہیں اور یہ تقسیم ایک گھر سے لیکر پوری اُمہ میں نظر آتی ہے ، آج سنت ابراہیمی ادا کرتے وقت وہ منظر آنکھوں کے سامنے لانا اور وہ درد محسوس کرنا بھی ضروری ہے جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے وقت محسوس کیا تھا، بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایسی آزمائشیں نہیں اُتاریں مگر جو احکامات عطا فرمائے ہیں ان پر بھی ہم عمل نہیں کررہے اور اسی لیے آج ہم اقوام عالم کے سامنے کمزور پڑ چکے ہیں۔ خطبہ حج اور فلسفہ قربانی کو سوچنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے، سوچئے مدمقابل سے جیتنا مشکل ہے یا اپنے نفس سے؟ اور جو ہمارا طرز عمل و زندگی ہے کیا اِس کے نتیجے میں ہم بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں سرخرو ہونے کے قابل ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمیں راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے!





