Editorial
سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود میں 1.25 فیصد اضافہ کر دیاہے۔ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایک سال مہنگائی رہے گی،اگلے سال اضافہ 20 فیصد تک دیکھ رہے ہیںقائم مقام گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سیّد نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مسئلے کے ساتھ چند اندرونی وجوہات ہیں جن کے باعث مہنگائی بڑھی،
دو سال ترقی کی شرح 6 فیصد رہی جس سے مسائل شروع ہوگئے،عام آدمی پر بہت دبائو ہوگا، کوشش کریں گے غریب طبقے کو بچا سکیں اور امیر افراد ٹیکسز اور قیمتوں کا بوجھ زیادہ اٹھائیں۔پچھلے دو سال میں معاشی ترقی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔کھانے پینے کی اشیا بہت مہنگی ہوگئی ہیں، پھر حکومت نے ابھی مشکل اور صحیح فیصلہ کیا تھا کہ بجلی اور پٹرول کی سبسڈی ختم کردی جائے،اس کی وجہ سے عام آدمی پر بہت دباؤ آرہا ہے،سٹیٹ بینک اور زری پالیسی کمیٹی بہت زیادہ زور دے رہی ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنا ہے کیونکہ یہ ہمارے عام آدمی کے لیے بہت مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
مہنگائی کنٹرول کرنا اب ہمارا سب سے اہم مقصد ہے تاکہ ہمارے عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔بلاشبہ پوری دنیا میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجودہے اور ہم گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سیّد سے متفق ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کی بنیادی وجوہات کئی نوعیت کی ہیں اور پاکستانی تو کئی دہائیوں سے ہی مہنگائی کا سامنا کررہے ہیں ، بدقسمتی سے آج تک کوئی بھی حکومت مصنوعی مہنگائی پر قابو نہ پاسکی ہے، پچھلی حکومت بھی مہنگائی پر قابو نہ پانا تسلیم کرتی گھر چلی گئی،حکومت نہ رہی لیکن مہنگائی اب بھی موجود ہے۔
اس میں قطعاً کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کے حوالے سے جو کچھ اب پوری دنیا میں ہو رہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا اور 1970 کے بعد مارکیٹ میں اتنی زیادہ مہنگائی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، ہم تو مہنگائی کے ہاتھوں نسل در نسل پسے ہی ہوئے تھے مگر کرونا وائرس کی وجہ سے ہماری حالت زیادہ پتلی ہونا یقینی تھا، گورنر سٹیٹ بینک نے مہنگائی بڑھنے کی بنیادی وجہ کرونا وائرس اور اِس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو قرار دیا جو بالکل بجا ہے کیونکہ طلب و رسد میں نمایاں فرق ہوا، طلب معمول سے زیادہ ہوگئی کیونکہ خوف و ہراس بے حد پھیل چکا تھا لیکن رسد اس کے مقابلے میں انتہائی کم تھی کیونکہ پیداوار والے ممالک میں لاک ڈائون اور ایس او پیز کی پابندی کی وجہ سے پیداوار ضرورت یعنی طلب سے کہیں زیادہ کم ہورہی تھی اور وائرس پھیلنے کے خدشات سےبھی درآمد کنندگان پریشان تھے،
مگر جب کرونا وائرس کے کیسز میں کمی واقع ہوئی اور قوموں نے سمجھ لیا کہ باقی زندگی اسی عفریت سے دوچارہوکر گزارنی ہے تو پھر معیشتیں بھی بحال ہونا شروع ہوگئیں اور طلب میں بھی تیزی آگئی اور پھر انہی وجوہات کی وجہ سے ہر مد کے اخراجات میں اضافہ ہونے لگا جو سبھی اقوام کے لیے مہنگائی کا باعث تھا چونکہ ہم معاشی لحاظ سے پہلے ہی وینٹی لیٹرپر تھے اس لیے ہماری حالت زیادہ خراب ہوئی پھر رہی سہی کسر مصنوعی مہنگائی نے پوری کردی، پچھلی حکومت مسلسل دلاسے دے رہی تھی کہ کرونا وائرس پر قابو پانے کے بعد مہنگائی بتدریج کم ہوگی مگر ہمارے ہاں چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہیں ہے تو قیمتیں کہاں سے کم ہونی تھیں لیکن فروری میں روس یوکرین جنگ کے بعد اشیا کی قیمتیں کم ہونے کی توقعات کے برعکس بڑھتی گئیں اور اب پاکستان سمیت پوری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہورہے ہیں بلکہ اب تو خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہوگی کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ طوالت اختیارکرتی جارہی ہے چونکہ یہ جنگ اب عالمی مسئلہ بن چکی ہے اس لیے قریباً قریباً سبھی
اس کے اثرات سے متاثر ہورہے ہیں،
اس کے اثرات سے متاثر ہورہے ہیں،
پٹرولیم اور گیس مصنوعات کے علاوہ بے شمار اشیاضروریہ کی قیمتیں دونوں ممالک کے مابین جنگ کی وجہ سے مہنگی بلکہ مہنگی تر ہوتی جارہی ہیں۔ گورنر سٹیٹ بینک نے بجا فرمایا ہے کہ اِس صورتحال سے سارے سینٹرل بینک پریشان ہیںکیوں کہ مہنگائی سب کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے لیکن ہم زیادہ متاثر ہی اسی لیے ہیں کہ عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور کمزور ملکی معیشت کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے، پتا نہیں وہ دعوے اور دعوے کرنے والے کہاں ہیں جو کہتے تھے کہ ہم ملک و قوم کی تقدیر بدل دیں گے کیونکہ اب تو ملکی معیشت بھی انتہائی خطرناک حالات میں زبوں حالی کا شکار ہے اور عوام بھی سراپا احتجاج ہیں، اگرچہ بجلی اور گیس سے سبسڈی واپس لینے کو گورنر پنجاب اچھا اقدام قرار دے رہے ہیں اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ قومی خزانے پر اتنا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے جتنا سبسڈی کی مد میں ڈالاگیا مگر اس کا براہ راست فائدہ اُن پاکستانیوںکوتھا جو مہنگائی، بے روزگاری جیسے مسائل سے نبردآزما تھے،
اب بجلی اور گیس بھی مہنگے، پٹرول بھی مہنگا ، مصنوعی مہنگائی بھی اور بجلی و گیس و پٹرول کی قیمتیںبڑھنے سے لاگت کی وجہ سے بھی مہنگائی ، عوام جائیں تو کہاں جائیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو ملک و قوم کے معاشی مسائل کے حل کے لیے ایک پیج پر آنا چاہیے اور سبھی کو بیٹھ کر ایسی درمیان راہ نکالتی چاہیے جو نہ صرف تمام سٹیک ہولڈرز بلکہ متوسط پاکستانی کے لیے بھی قابل قبول ہو، اب ہو تو یہ رہا ہے کہ سبسڈی واپس لیکر عوام کو آزمائش میں ڈال دیاگیا ہے مگر ماسوائے اظہارہمدردی کے دو بول اور دوہزار کے ، کچھ بھی ایسا نہیں جس سے سفید پوش طبقہ ریلیف محسوس کرے۔
جہاں تک شرح سود میں اضافے کی بات ہے تو اس کے منفی اثرات بھی نظر آئیں گے اور نتیجہ مہنگائی کی صورت میں نکلے گا کیونکہ جب بھی کسی ملک میں شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے، ملک کی معیشت میں نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں،معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے اسی لیے تو کوئی بھی ملک شرح سود میں اضافہ کرنا پسند نہیں کرتاکیوں کہ کاروباری طبقے کا قرض لینے کا رجحان کم ہو جاتا ہے ،قرض کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ مارکیٹ میں نئی سرمایہ کاری کم ہو جاتی ہے اورپھر قیمتیں بڑھنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے یہی نہیں بلکہ کھپت میں نمایاں فرق آتا ہے جو نیچے سے اوپر تک واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے اور ملک میں بے روزگاری کی شرح بڑھ جاتی ہے اس کے برعکس جب شرح سود کم ہو تی ہے تو لوگ نیا قرضہ لے کرکاروبار میں لگاتے ہیں جس سے معاشی سرگرمیوںمیں اضافہ ہوتا ہے اور یقیناً پیداوار بڑھنے سے مارکیٹ میں قیمتیں کم ہوتی ہیں اور خریداری میں اضافہ ہوتا ہے،
یہی نہیں حکومت اوربڑے مالیاتی اداروں کو بھی اس کا فائدہ پہنچتا ہے لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ شرح سود کو بڑھانا آخری حل نہ ہی سمجھا جائے تو بہتر ہے، اس کی بجائے معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں، کیونکہ ہماری رائے میں جن نرخوں پر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات فراہم کی جارہی ہیں ہماری انڈسٹری تو اوپر آنے سے رہی ، مصنوعات کی لاگت میں بے انتہا اضافہ اور مسلسل بڑھتی شرح سود سے تو کاروباری سرگرمیاں کم ہوسکتی ہیں بڑھ نہیں سکتیں، ایندھن سستا ہوگا تو صنعتوں کا پہیہ چلے گا ، لوگوںکوروزگار ملے گا اور برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ حاصل ہوگا مگر موجودہ صورتحال پریشان کن معلوم ہوتی ہے کہ ہم معاشی انقلاب کے بغیر قرضوں کے بوجھ تلے کیسے نکلیں گے،
لہٰذا ناگزیر ہوچکا کہ میثاق معیشت کیا جائے اور تمام سٹیک ہولڈرز تمام تر سیاسی اختلافات کو بھلاکر اِن حالات سے باہر نکلنے کی تدبیر تلاش کریں اور سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم مالیاتی اداروں سے کیسے اور کتنے عرصے میں کس حکمت عملی سے نجات حاصل کریں گے یہ طے کرکے اِس حکمت عملی پر عمل درآمد بہت ضروری ہے۔





