Editorial

روس ،یوکرین جنگ اور قحط کے خدشات

روس اور یوکرین جنگ کے اثرات نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے ، نیٹو چیف جنز اسٹولٹن برگ نے متنبہ کیا ہے کہ یوکرین جنگ طویل ہوسکتی ہے، روس کامیاب ہوا تو بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی، تاہم جنگ کی قیمت چاہے خوراک اور توانائی کے بڑھتے نرخ ہی کیوں نہ ہوں۔برطانوی وزیر اعظم بورس جانس نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ طویل جنگ کے لیے  خود کو تیار کرنا ہوگا۔
روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے ہی جرمنی میں ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے کوئلے پر انحصار شروع ہوگیا ہے۔ گیس کے حصول کے لیے اٹلی قطر سے 29؍ ارب ڈالر کے معاہدہ میں شامل ہوگیا ہے ۔ امیر ملکوں کے مرکزی بینکوں نے کساد بازاری سے نمٹنےکی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اب امریکہ میں معاشی سست روی ہے ۔ایران میں بھی مہنگائی بڑھ گئی ،روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے شہری پریشان ہیں۔سری لنکا میں ایندھن کے لیے طویل قطاریں ہرجگہ موجود ہیں ۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین جنگ جاری رہی تو دنیا قحط سے جہنم بن جائے گی اور اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے کا کہنا ہے کہ یہ جنگ دیگر عناصر کے ساتھ مل کر دنیا کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہی ہے۔
روس اور یوکرین جنگ کے معاملے پر ہی برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور تیونس میں خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بے امنی کو ہوا دے رہی ہیں۔سری لنکا کا دیوالیہ ہونا بہت سے غریب ملکوں کے دیوالیہ ہونے کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔جریدے کے مطابق بھارت اور یورپ کو بھی توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے جبکہ امریکہ کو بھی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں عالمی سطح پر کیا اور کس سطح کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں،
ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلسل سامنے آرہی ہیں حالانکہ پہلے روس اور روس مخالف طاقتیں اپنی فتح قریب آنے کے متضاد دعوے کررہی تھیں مگر روس یا یوکرین دونوں کو فتح نہیں ملی البتہ اِس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران نے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ یوکرین کے صدر ولادی میر زی لنیسکی نے دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے امکان سے خبردار کردیا ہے۔ بلاشبہ روس اور یوکرین جنگ میں ابھی تک کوئی فریق اپنی فتح کا دعویٰ نہیں کرسکا، یوکرینی صدر کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنے ملک کا دفاع کررہے ہیں اور روس پر ابھی تک حملہ نہیں کیا لیکن تیسری عالم جنگ چھڑ سکتی ہے، دوسری طرف روسی صدر ولادی میر پوتن نیٹو ممالک کو بار بار متنبہ کررہے ہیں کہ اِس جنگ میں مداخلت سے ایٹمی یا عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
یعنی دونوں فریقین تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ظاہر کررہے ہیں لیکن جنگ بندی کے لیے بظاہر کوئی کوشش نظر نہیں آرہی ۔ روس، یوکرین جنگ کے آغاز پر تصور کیا جارہا تھا کہ یوکرین، روس کے سامنے زیادہ دنوں تک ٹھہر نہیں سکے گا اور جلد جنگ بندی ہوجائے گی لیکن جس طرح جنگ طوالت اختیار کررہی ہے اور یورپ اور امریکہ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئی ہیں یہ صورتحال واقعی تشویش ناک ہے ، قریباً تیس سال کے بعد یورپ جنگ ، اور جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا حالات کا سامنا کررہا ہے،
روس کے مدمقابل یوکرین شاید اس لیے ابھی تک لڑنے کے قابل رہا ہے کیونکہ اِسے امریکہ اور یورپی ممالک کی مدد حاصل ہے اِس کے برعکس روس کو بظاہر ایسی کوئی مدد حاصل نہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جنگ نے پوری دنیا کو معاشی بحران میں مبتلا کردیا ہے، یورپ اور امریکہ تو اِس جنگ سے براہ راست متاثر ہو ہی رہے ہیں لیکن اِن دونوں ملکوں سے تجارت کرنے والے ممالک بھی ہر روز نئے معاشی مسائل میں الجھتے جارہے ہیں، ہم اپنی ہی مثال دیں تو آج مہنگائی بالخصوص پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی بڑی وجہ روس اور یوکرین جنگ کو قرار دیا جارہا ہے اوربرطانوی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ سے چونکا دینے والی ہے جس میں سری لنکا کے موجودہ حالات کی مثال دیتے ہوئے پاکستان اور تیونس میں خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو بد امنی کو ہوا دینا قرار دیا جارہا ہے،
اکانومسٹ نے اس جنگ کے نتیجے میں دیگر غریب ملکوں کے بھی دیوالیہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جو تشویش ناک ہے، دیکھا جائے تو روس، یوکرین میں جنگ کو وسعت دے رہا ہے کیونکہ روس کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ یوکرین سے شکست کھائے، اگرچہ یوکرین کو امریکہ اور یورپ کی کم و بیش ہر طرح سے حمایت بھی حاصل ہے، دوسری طرف یوکرینی صدر بھی تیسری عالمی جنگ کا دعویٰ کررہے ہیں، اِس لیے اقوام عالم کے لیے موجودہ صورتحال لمحہ فکریہ ہونی چاہیے اور اِس تنازعے کے پرُ امن حل کے لیے سبھی کو کوشاں ہونا چاہیے وگرنہ یہ جنگ جہاں غریب ممالک کو دیوالیہ کرے گی وہیں امیر ممالک کو بھی معاشی لحاظ سے کنگال کردے گی،
یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں اور اس کی تازہ مثال امریکہ و نیٹوفورسز کا افغانستان سے دو دہائیوں کے بعد انخلا ہے، اگر کوئی طاقت سمجھتی ہے کہ وہ یوکرین کو استعمال کرکے روس کو زیر کرلیں گے تو اس کو خام خیالی سے زیادہ نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ روس بہرصورت یہ جنگ جیتنے کی کوشش کرے گا خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہوجائے، مگر اِس جنگ کے نتیجے میں اقوام عالم کو کتنا نقصان ہوگا، کتنی ملکوں کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی، کتنے غریب ممالک دیوالیہ قرار پائیں گے، کتنی کروڑ لوگ روزگار سے محروم ہوجائیں گے یہ سبھی پہلو سوچنے والے ہیں، دنیا ابھی تک کرونا وائرس کے اثرات سے باہر نہیں آئی، معیشتیں ابھی تک سنبھل نہیںسکیں، ترقی پذیر ممالک ترقی اور معیشت کے حوالے سے نچلے درجے پر آچکے ہیں جبکہ پسماندہ ممالک کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے، کیا وہ قیامت جیسے حالات نہیں تھے جب روزانہ ہزاروں افراد ایک ان دیکھے وائرس کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے تھے، پوری دنیا لاک ڈائون کی زد میں تھی اور لوگوں کو صرف اور صرف جان کے لالے پڑے ہوئے تھے،
مگر روس اور یوکرین جنگ کی طوالت کو دیکھتے ہوئے یہی محسوس ہوتا ہے کہ اقوام عالم نے اُس وقت سے سبق نہیں سیکھا اور آج بھی ایک دوسرے کو زیر کرکے برتری حاصل کرنے کے جنون نے پوری دنیا کے امن، معیشت اور انسانی ترقی کو دائو پر لگارکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کہ روس اور یوکرین تنازعے کا فوری اور پرامن سامنے آنا چاہیے وگرنہ بہت دیر ہوجائے گی، اگر وسطی اور جنوبی ایشیا ہر لحاظ سے عدم استحکام کا شکار ہوگا تو ایسی ہی صورتحال امریکہ اور یورپ میں بھی دیکھنے کو ملے گی، پہلی اوردوسری جنگ عظیم کے نتائج یعنی تباہی و بربادی اور انسانی قتل عام اور معاشی عدم استحکام سے سبق سیکھا جائے اور ایسے تنازعات کا فوری اور پرامن حل تلاش کیا جائے، تاکہ پہلے سے معاشی مشکلات کا شکار ممالک کو مزید تباہی و نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہم اپنی ہی بات کریں تو آج پٹرول، بجلی، گیس اور مہنگائی کی وجہ سے ہر پاکستانی پریشانی کا شکار ہے اور جیسے برطانوی جریدے نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسی صورتحال بدامنی کو جنم دیتی ہے اور بلاشبہ ایسے خدشات کو کبھی نظر انداز نہیں کرناچاہیے۔
آج سری لنکا جس بحرانی کیفیت سے گزررہا ہے کوئی شک نہیں کہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھی معاشی لحاظ سے ایسے ہی چیلنجز سے دوچار ہیں چین کے علاوہ کم و بیش سبھی ممالک کو ڈیفالفٹ اور قحط جیسے خطرات کا ڈر ہے۔ عالمی بینک پہلے ہی خبردارکرچکا ہے کہ روس اور یوکرین جنگ کے اثرات اور سست معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ مسلسل معاشی چیلنجوں کی وجہ سے جنوبی ایشیائی ممالک غیر مستحکم بیرونی ماحول سے زیادہ خطرے میں ہیں اور اِن خطرات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے گر صورتحال یہی رہی تو۔امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان پہلے ہی بے شمار بحرانوں کا شکار ہے اور پاکستان اِس معاملے پر افغانستان کی مدد کے لیے پیش پیش رہا ہے لیکن حالیہ صورتحال میں پاکستان خود معاشی بحران کا شکار ہے اور جن حالات سے معیشت اور عام پاکستانی گزررہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں،
صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں مہنگائی کا طوفان ہے کیونکہ خطے کے بیشتر ممالک برآمدات سے زیادہ درآمدات پر انحصار کرتے ہیں اِس لیے جب عالمی منڈی میں مہنگائی ہوگی تو یقیناً یہ ممالک بھی براہ راست متاثر ہوں گے۔ ہم پھر کہیں گے کہ چین کے علاوہ جنوبی ایشیا کا کونسا ملک ہے جس کو افراط زر اور مالیاتی خسارے کا سامنا نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ انسانوں کے پیدا کردہ بحرانوں کو انسانوں نے ہی ختم کرنا ہے اگربڑی طاقتوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش برقرار رکھی تو ترقی پذیراور پسماندہ ممالک ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی معاشی بحران کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے اور شاید معیشتوں کی بحالی اور قحط جیسے خطرات سے نمٹتے سالہا سال لگ جائیں ۔

جواب دیں

Back to top button