تازہ ترینخبریںپاکستان

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی فہرست میں پاکستان کی تنزلی سمجھ سے بالاتر ہے، شوکت ترین

وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ حکومت نے 4 مختلف بحرانوں کا بہترین انداز میں سامنا کیا، ملکی معیشت اب درست سمت میں جارہی ہے، ہر شعبے میں آمدن بھی بڑھ رہی ہے لیکن ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی فہرست میں پاکستان کی تنزلی سمجھ سے بالاتر ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ شکوت ترین نے کہا کہ موجودہ حکومت نے 4 مختلف قسم کے بحران کا سامنا کیا، پہلا مسئلہ حکومت سنبھالتے ہی 20 ارب کے کرنٹ اکاونٹ خسارے کا تھا، تقریباً 8 سے 9 ارب کی ادائیگیاں بھی کرنی تھیں، تقریباً 29 ارب روپے ادا کرنے تھے لیکن قومی خزانے میں 7.1 ارب ڈالر تھے، دوست ممالک سے مدد مانگنے کی کوشش کی لیکن اندازہ ہوا کے اس طرح کام نہیں چلے گا لہٰذا ہم آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے سخت شرائط کے ساتھ ہمیں ڈیل کیا، جس کی وجہ سے ہمیں ڈسکاونٹ ریٹ کو بڑھانا پڑا، کرنسی قدر کم کرنی پڑی، اس سے گروتھ ریٹ 5.8 فیصد سے گر کر 3 فیصد پر آگئ، اس کے نیتجے میں مہنگائی بڑھی اور گروتھ بھی 2 سے ڈھائی فیصد سست ہوگئی۔

‘کورونا ریلیف’

انہوں نے کہا کہ اس صورت حال سے نمٹ ہی رہے تھے کہ دوسرا بڑا مسئلہ کورونا آگیا، جو صدیوں میں ایک بار آنے والا بحران تھا، ہم نے لوگوں کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کی، اس وقت وزیراعظم نے مکمل لاک ڈاون نہ لگانے کا ایک غیرمقبول فیصلہ کیا جسے آج ساری دنیا تسلیم کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران برآمدات میں اضافے کے لیے مراعات دیتے رہے، زراعت کے شعبے میں بھی پیسے ڈالے کیونکہ ہم ایک فوڈ ڈیفیسٹ کنٹری بن چکے تھے اور کنسٹرکشن کو بھی بڑھاوا دیا جس سے پہلی بار مورگیج فنانس شروع ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کو جس انداز میں حکومت پاکستان نے ہینڈل کیا اس کی تعریف معاشی ماہرین نے بھی کی، اور 3 بار نارملسی انڈیکس میں پاکستان کو سرفہرست رکھا، اس وقت لوگ شور مچارہے تھے لیکن آج برطانوی ویزراعظم بھی وہی بات کر رہے ہیں جو اس وقت وزیراعظم عمران خان نے کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس حکمت عملی سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ سال 2020-21 میں شرح نمو 5.37 فیصد ہوگئی اور تمام شعبوں میں غیرمتوقع شرح نمو نظر آئی۔

‘قیمتیں 85 سے 90 فیصد بڑھیں’

وزیرخزانہ نے کہا کہ تیسرا مسئلہ کموڈوٹی پرائس سائیکل کا تھا جو 20 سال کی بلند ترین سطح پر آیا، یہ 20 سال بعد ایک عالمی مسئلے کے طور پر سامنے آیا ہے، قیمتیں 85 سے 90 فیصد تک بڑھیں، تیل، کوئلہ، لوہا، خوردنی تیل، دالیں ان سب کی قیمتیں بڑھ گئیں، کئی چیزوں کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ بڑھ گئیں۔

انہوں نے کہا اس صورت حال سے ہم پر مہنگائی کا دباؤ بڑھا کیونکہ ہم یہ ساری چیزیں درآمد کرتے ہیں، نتیجتاً ہمارا تجارتی خسارہ بھی بڑھا لیکن اس دوران ہماری برآمدات بھی 25 فیصد سے 29 فیصد بڑھیں، ریمٹنسز اور آئی ٹی ایکسپورٹس بھی بڑھیں جس سے ہمیں سہارا ملا۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران روپے پر بھی دباؤ بڑھا لیکن ہمارے ریزرو کم نہیں ہوئے۔

‘افغانستان نے ہماری مارکیٹ سے ڈالر اٹھایا’

ان کا کہنا تھا کہ چوتھا مسئلہ افغانستان کی صورت حال تھی، امریکا نے افغانستان کے اثاثے منجمد کیے تو افغانستان کا انحصار پاکستان پر بڑھ گیا، افغانستان نے ہماری مارکیٹ سے ڈالر اٹھانا شروع کردیے اور اسی سے درآمد اور برآمد کرنے لگے، شروع میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ یہ نوبت 2 کروڑ ڈالر یومیہ تک پہنچ گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے فوری طور پر سی ڈی کو لازمی کیا اور افغانستان کو سمجھایا کہ آپ ہم سے چیزیں روپے میں خرید لیں تاکہ ہمارے روپے پر پریشر کم ہو، اس طرح ہم اس صورت حال کو ہینڈل کرنے میں بھی کامیاب رہے، اب ہم افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کرنے کا بھی سوچ رہے ہیں تاکہ ہم پر بھی ڈالر کا پریشر کم ہو۔

انہوں نےکہا کہ یہ باتیں بتانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ گروتھ ہورہی ہے، پچھلےسال 5.57 ری بیسڈ ہوئی ہے، اسٹیٹ بینک ساڑھے 4 سے 5 فیصد تک جانے کا تجزیہ کر رہا ہے، مجھے اس سے بھی زیادہ کی امید ہے کیونکہ ایف بی آر کے ریونیوز بھی بڑھ رہے ہیں جو کہ پچلھے سال سے 32 سے 33 فیصد زیادہ ہوچکے ہیں، بجلی کا استعمال 13 فیصد بڑھ گیا ہے، بمپر کراپس بھی پچھلے سال سے بہتر ہیں، ریمٹنسز اور ایکسپورٹ بھی بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے ایسکپورٹس ماہانہ 2 ارب ڈالر تک ہوتی تھیں، جوکہ اب تقریباً 3 ارب ڈالر ماہانہ ہورہی ہیں، ہمارا اندازہ ہے کہ 31 ارب ڈالر کی گڈز ایکسپورٹ اور ساڑھے 3 ارب ڈالر کی آئی ٹی ایکسپورٹ سے ہم ٹریک پر آجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 2019 سے ہم نے اسٹیٹ بینک سے کوئی مالی مدد نہیں لی، بلکہ 1.5 ٹریلین اسٹیٹ بینک کو واپس کیا ہے۔

’احساس پروگرام نچلے طبقے کے لیے شروع کیا‘

ان کا کہنا تھا کہ نچلے طبقے کے لیے ہم نے احساس پروگرام شروع کیا، احساس راشن پروگرام سے 2 کروڑ ہاؤس ہولڈ کے لیے ہے، اس میں شہریوں کو دالیں، گھی اور آٹے پر 30 فیصد ڈسکاونت کے لیے ہزار روپے مہینہ دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کامیاب پاکستان پروگرام میں نے شروع کروایا تھا جو اب کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے، اس منصوبے کے تحت ایک ارب روپے پچھلے مہینے شہریوں کو دیے گئے، جس سے ہم 30 ارب تک لے کر جائیں گے، یہ منصوبہ کے پی اور بلوچستان کے بعد اب ہم پورے ملک میں شروع کرنے جارہے ہیں، اس منصوبے میں کاشت کاروں اور کاروباریوں کو بلاسود قرضے دیے جارہے ہیں، گھروں کی تعمیر کےلیے 27 لاکھ تک کے قرضے بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں، صحت کارڈ اور اسکل ڈیولپمنٹ کا سلسلہ پہلے ہی جاری ہے۔

’تنخواہ دار طبقہ تکلیف میں ہے‘

شوکت ترین نے کہا کہ تنخوادہ دار طبقہ واقعی اس وقت تکلیف میں ہے، سب کی آمدنی بڑھی ہے لیکن تنخواہ دار طبقہ اس وقت مشکل حالات کا سامنا کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلے چند دنوں میں ہم خصوصاً تنخواہ دار طبقے کے لیے پروگرام لے کر آرہے ہیں جس سے ان کی آمدن میں بھی اضافہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ مہنگائی کا عالمی دباؤ کب کم ہوگا کیونکہ یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، ہوسکتاہے اگلے 2 سے 3 مہینوں میں بھی صورتحال یہی رہے، اس لیے ہماری کوشش ہے کہ ہمارے تمام طبقوں کی آمدن بڑھائیں۔

انہوں نے کہا کہ آج اس پریس کانفرنس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہماری معیشت صحیح سمت میں جارہی ہے، اور تمام چیلنجز کو ہم کس انداز میں ہینڈل کررہے ہیں۔

’ٹرانسپرنسی انٹرنینشل رپورٹ میں تنزلی سمجھ سے بالاترہے‘

انہوں نے کہا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنینشل رپورٹ میں کرپشن اور رول آف لا کی نشاندہی کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب کے سامنے ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے تین برسوں میں کتنی کرپشن کرلی، کتنے ارب کا بزنس کرلیا، اور کتنی فیصد ان کی نان ٹیکس انکم بڑھی ہے، اس کا موازنہ پچھلے 10 برسوں سے کریں تو سب واضح ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا وزیراعظم نے جب بھی کوئی اسکینڈل پیدا ہوتے دیکھا تو انہوں نے اس کی آزادانہ تحقیقات کروائی اور اپنے ہی لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا بھی کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون کی بالادستی کی بات کریں تو وزیر اعظم ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ پاکستان میں امیر اور غریب کے لیے علیحدہ قانون ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود سمجھ نہیں آتی کے 3 برسوں میں ٹراسپرنسی انٹرنیشنل کی فہرست میں پاکستان کی تنزلی کیوں ہوئی؟جب تفصیلات آئیں گی تو ہم اس پر بات کریں گے۔

وزیراعظم کی تنخواہ بڑھنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ دو ارب کا فرق آتا تو سمجھ بھی آتا، محض دو سے تین کروڑ تنخواہ بڑھنے پر وزیراعظم پر کرپشن کا الزام لگانا سمجھ سے باہر ہے۔

انہوں نےکہا کہ ملک کو درپیش مسائل پر قابو پانے کے لیے آبادی کو بھی کنٹرول کرنا پڑے گا، بنگلہ دیش نے بھی یہی حکمت عملی اپنائی جس کا انہیں فائدہ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ درآمدت اور برآمدات کے درمیان فرق کم کرنا بڑا ضرروی ہے، اسی فرق کی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کے شعبے پر ہماری خصوصی توجہ ہے، پچھلے سال آئی ٹی ایکسپورٹ 2 ارب تھی، اس سے مزید بڑھائیں تو امید ہے اگلے سال یہ 50 ارب تک پہنچ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ زراعت اور انڈسٹریز کی پیداوار بڑھانی ہوگی، پچھلے 7 سے 8 سالوں میں زراعت میں بالکل بھی سرمایہ کاری نہیں کی گئی جس کی وجہ سے پیداوار وہیں کی وہیں ہے، انڈسٹریز بھی فیملی بزنس ہونے کی وجہ سے زوال کا شکار ہوتی رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 3 ارب ڈالر کی ایکسپورٹس کرنے والے فری لانسرز واقعی تنگ ہیں، ہمیں ان کو سہولتیں دینا ہوں گی، آئندہ چند دنوں میں فری لانسرز کے دیگر مسائل بھی خود بیٹھ کر حل کروں گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button